Sacrifice

قربانی کی قیمت سے متعلق عہدِ نبوی اور عہدِ حاضر کا موازنہ

قربانی کی قیمت سے متعلق عہدِ نبوی اور عہدِ حاضر کا موازنہ

قربانی کے معاملے میں مہنگائی کا شکوہ اور اس کا جائزہ

شریعت کی نظر میں قربانی کی فضیلت، اہمیت اور تاکید ایک واضح معاملہ ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ صاحبِ نصاب مسلمان قربانی کی ادائیگی میں پس وپیش کا مظاہرہ نہ کریں، بلکہ خوش دلی کے ساتھ قربانی کا حکم بجا لائیں، لیکن صورتحال یہ ہے کہ بہت سے لوگ صاحبِ نصاب اور صاحبِ وسعت ہونے کے باوجود بھی یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آجکل مہنگائی کا دور ہے اور پھر جانور بھی مہنگے ہیں اس لیے ایسی صورتحال میں آجکل وہ قوتِ خرید نہیں رہی جو کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں تھی، اس لیے اب قربانی کرنا مشکل ہے، گویا کہ ناواقفیت یا دین بیزاری کی وجہ سے قربانی جیسی عبادت سے پہلو تہی کی جاتی ہے اور اس کے لیے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں ایک حدیث شریف کی روشنی میں اس شبہ کا ایک مختصر سا جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ اس کی حقیقت معلوم ہوسکے، ساتھ ساتھ اس حدیث سے اخذ ہونے والے فوائد بھی ذکر کیے جاتے ہیں جس سے متعدد مسائل واضح ہوسکیں گے ان شاء اللہ۔

📿 حدیث مبارک

حضرت عُروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ان کو ایک دینار عطا فرمایا تاکہ وہ اس کے بدلے ایک بکری خرید کر لائے، تو حضرت عروہ نےاس ایک دینار کے بدلے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض فروخت کردی، چنانچہ وہ ایک بکری اور ایک دینار لے کر حضور اقدس ﷺ کے پاس حاضر ہوئے، تو حضور اقدس ﷺ نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی ، اور (اسی دعا کا اثر تھا کہ) وہ اگر مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں بھی ان کو نفع حاصل ہوجاتا۔ (جیسا کہ ہمارے ہاں محاورہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں مٹی بھی سونا بن جاتی ہے۔)

صحیح بخاری میں ہے

3642- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ: حَدَّثَنَا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَيَّ يُحَدِّثُونَ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَعْطَاهُ دِينَارًا يَشْتَرِي لَهُ بِهِ شَاةً فَاشْتَرَى لَهُ بِهِ شَاتَيْنِ فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ وَجَاءَهُ بِدِينَارٍ وَشَاةٍ فَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ فِي بَيْعِهِ وَكَانَ لَوِ اشْتَرَى التُّرَابَ لَرَبِحَ فِيهِ.

یہی واقعہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما کے حوالےسے بھی منقول ہے، جس میں ایک تو اس بات کی صراحت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے انھیں قربانی کا جانور خریدنے بھیجا تھا، اوردوم یہ کہ اس حدیث کے آخر میں یہ بات مذکور ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے اس دینار کو صدقہ کرنے کا حکم دیا۔

جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

37447- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَهُ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، فَاشْتَرَاهَا، ثُمَّ بَاعَهَا بِدِينَارَيْنِ، فَاشْتَرَى شَاةً بِدِينَارٍ، وَجَاءَهُ بِدِينَارٍ، فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِالْبَرَكَةِ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِالدِّينَارِ.

حدیث مبارک سے اخذ ہونے والے فوائد

فائدہ 1

حضور اقدس ﷺ نے حضرت عروہ صحابی رضی اللہ عنہ کو قربانی کا بکرا خریدنے کے لیے ایک دینار عطا فرمایا، گویا کہ قربانی کا جانور بذاتِ خود خریدنا ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے کسی کو وکیل بنانا بھی درست ہے۔

فائدہ 2

ایک شرعی دینار موجودہ وزن کے حساب سے 4.374 گرام سونے کا ہوتا ہے، ہے اس لیے دورِ حاضر کے حساب سے بھی اتنے روپے سے کافی کم قیمت پر ایک مناسب بلکہ اچھے معیار کی بکری سہولت سے خریدی جاسکتی ہے۔ اس سے ان حضرات کی تردید ہوجاتی ہے کہ جو وسعت ہونے کے باوجود مہنگائی کو عذر بناکر قربانی جیسی عظیم عبادت سے پہلو تہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آجکل مہنگائی بڑھنے کے باعث وہ قوتِ خرید نہیں رہی جو کہ پہلے تھی،اگریہ بات کسی حد تک تسلیم کر بھی لی جائے تو بھی یہ اس قدر معقول عذر نہیں بن سکتا، کیوں کہ حضور اقدس ﷺ کے دور میں موجود ایک دینار کی قوتِ خرید کا دینار کی موجودہ قیمت کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو دینار کی قیمت اور قوتِ خرید زیادہ نظر آتی ہے، اس لیے جس طرح حضور اقدس ﷺ کے مبارک عہد میں ایک دینار یا اس سے کم قیمت کے عوض قربانی کی جاسکتی تھی تو اسی طرح آج بھی قربانی ایک دینار کی موجودہ قیمت بلکہ اس سے بھی کافی کم قیمت میں بآسانی کی جاسکتی ہے۔ یہ تو بکری خریدنے کی صورتحال ہے جبکہ اگر کسی بڑے جانور میں قربانی کا ایک حصہ لیا جائے تو اس کی قیمت تو مزید کم ہے۔اس لیے محض مہنگائی کو بنیاد اور بہانہ بناکر قربانی جیسی اہم عبادت کو ہرگز ترک نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر کوئی صاحبِ نصاب ہی نہیں ہے تو اس کے ذمے تو قربانی واجب ہی نہیں!
حیرت ہے اُن لوگوں پر جو اپنی شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں تو لاکھوں روپے بے دریغ خرچ کرتے ہیں حتی کہ ایسے امور کے لیے قرض لے کر اس کا بوجھ بھی برداشت کرتے ہیں، اُس وقت انھیں کوئی مہنگائی نظر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی اور بہانہ آڑے آتا ہے لیکن جب قربانی کی باری آتی ہے تو طرح طرح کے حیلے بہانے اور عذر پیش کرنے لگ جاتے ہیں! یقینًا اللہ خوب جاننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے! وہ خوب جانتا ہے کہ کونسا عذر قبول ہے اور کونسا نہیں! ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عذر اور بہانے پیش کیے جانے کے قابل ہیں؟؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب پیارے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو والد اور بیٹے دونوں ہی خوشی خوشی تیار ہوگئے اور جان کی بھی پروا نہ کی، ایسا جذبہ ہونا چاہیے ہر مسلمان کا!
اور یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب مال اللہ کا ہے اور اللہ ہی نے عطا کیا ہے اور اللہ ہی کا حکم ہے کہ قربانی کی جائے تو پھر اللہ ہی کے مال کو اللہ ہی کے حکم کی تعمیل میں صرف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں قربانی کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم خوشی خوشی قربانی کی عبادت سرانجام دے سکیں اور قربانی ترک کرنے کی اس سنگین وعید کے حق دار نہ بنیں۔

فائدہ 3

حضرت عُروہ رضی اللہ عنہ نے ایک دینار کی دو بکریاں خرید کر ایک بکری ایک دینار میں فروخت کردی، گویا کہ انھوں نے اس بکری کو دوگنی قیمت پر فروخت کیا، جس سے معلوم ہوا کہ اگر جھوٹ، دھوکہ اور دیگر غیر شرعی اور غیر اخلاقی امور سے اجتناب کیا جائے تو دوگنا نفع لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

فائدہ 4

حضرت عُروہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ سے اجازت لیے بغیر ایک دینار کی دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار کے عوض فروخت بھی کردیا، ظاہر ہے کہ یہ بیع الفضولی کے زمرے میں آتا ہے، لیکن جب حضور اقدس ﷺ نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو اس سے حضور اقدس ﷺ کی رضامندی معلوم ہوئی تو اس وجہ سے وہ بیع درست ہوئی۔ فقہ کی رو سے بیع الفضولی خرید وفروخت کی وہ صورت ہے جس میں مالک کی اجازت کے بغیر کوئی چیز فروخت کی جائے، ایسا معاملہ مالک کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، اگر مالک اجازت دے دے تو وہ معاملہ درست قرار پاتا ہے، ورنہ تو کالعدم ٹھہرتا ہے۔

فائدہ 5

حضرت عُروہ رضی اللہ عنہ نے جب وہ دینار اور بکری سب لا کر حضور اقدس ﷺ کو دے دیے تو اس سےاس مسئلے کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں وکیل اپنے لیے کچھ بھی نہیں رکھ سکتا جب تک کہ موکل سے اجازت نہ لے لے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وکیل اپنے موکل کے ساتھ اگر اپنے عمل اور محنت کی اجرت طے کرلے تو اس قدر اجرت لینا جائز ہوتا ہے لیکن اگر کچھ بھی طے نہیں ہوا تو وہ وکیل کی طرف سے تبرع یعنی احسان شمار ہوتا ہے، ایسی صورت میں وکیل اپنے لیے موکل کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں رکھ سکتا۔

فائدہ 6

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما کے واقعے سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ صاحبِ نصاب شخص اگر قربانی کا جانور خرید لے، پھر اس کو فروخت کرکے دوسرا خرید لے تو اس کی بھی گنجائش ہے، البتہ اس میں اس کو جو نفع حاصل ہوا ہے یا جو دوسرا جانور کم قیمت پر خریدا ہو تو وہ نفع اور زائد قیمت بعض اہل علم کے نزدیک صدقہ کردینا چاہیے، جیسا کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام کو وہ نفع میں حاصل ہونے والا دینار صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ البتہ غیر صاحبِ نصاب شخص اگر قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اس کے لیے اس جانور کو تبدیل کرنا بعض اہل علم کے نزدیک جائز نہیں، جبکہ بعض نے جائز قرار دیا ہے۔

فائدہ 7

اگر حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما ابتداءً ہی نصف دینار کی بکری خرید کر لے آتے تو حضور ﷺ اس بقیہ نصف دینار کو صدقہ کرنے کا حکم نہ فرماتے، اس لیے کہ حضور اقدس ﷺ نے ان کو ایک دینار عطا فرما کر عمومی اجازت عنایت فرمائی کہ قربانی کے لائق کوئی بھی مناسب سی بکری لائی جائے، جس میں یہ نہیں فرمایا کہ ایک دینار ہی کی ہونی چاہیے۔ معلوم ہوا کہ جانور خریدنے کے لیے جو رقم منڈی لے جائی جاتی ہے تو جتنی خرچ ہوجائے تو وہی قربانی کے لیے شمار ہوگی اور جو باقی بچ جائے تو وہ عام رقم ہے جس کو صدقہ کرنے کا حکم نہیں۔

فائدہ 8

اس سے اس مسئلے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کی خریداری کے لیے جس کو وکیل بنایا جائے تو اس میں موکل ہی کی نیت معتبر ہوگی، اوپر کی حدیث میں حضرت حکیم بن حزام نے اگرچہ اس دینار کی تجارت کی لیکن چوں کہ وہ محض وکیل تھے اس لیے حضور اقدس ﷺ نے اس نفع والے دینار کو صدقہ کرنے کا حکم عنایت فرمایا کہ وہ موکل تھے، جنھوں نے دینار قربانی ہی کے لیے دیا تھا، نہ کہ تجارت کے لیے۔

فائدہ 9

ویسے تو موکل کو چاہیے کہ وہ اپنے وکیل کو مطلوبہ چیز کی جنس، اوصاف اور معیار سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کردے البتہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر موکل اپنے وکیل کو مطلوبہ چیز کی صفات بیان کیے بغیر خریداری کے وکیل بنائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں خصوصًا جبکہ وکیل کو موکل کا مدعا واضح معلوم ہو جیسا کہ اس حدیث میں ظاہر ہے کہ اس صحابی کو معلوم ہی ہوگا کہ قربانی کے لیے کس صفت کے جانور کی خریداری ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں