سحری کے فضائل و برکات

سحری کے فضائل و برکات

سحری کے فضائل و برکات

اللہ جل جلالہ کا بہت بڑا انعام و احسان ہے کہ روزہ شروع کرنے سے پہلے کھانے کو امت کے لیے ثواب کی چیز بنا دیا روزہ کے لیے سحری کھانا سنت ہے اگر کوئی سحری کے بغیر روزہ رکھ لیں یا کسی وجہ سے رات کو سونے سے پہلے ہی سحری کھا گئے تو بھی روزہ رکھنا درست ہے مگر افضل اور بہتر یہ ہے کہ سحری طلوع فجر یعنی صبح صادق ہونے سے پہلے کچھ کھا پی لیا جائے اور فقہائے کرام کا سحری کے سنت اور مستحب ہونے پر اتفاق ہے بہت سے لوگ سستی کی وجہ سے اس فضیلت سے محروم رہ جاتے ہیں اور بعض لوگ تراویح پڑھ کر کھانا کھا کر سو جاتے ہیں اور وہ سحری کے ثواب سے محروم رہتے ہیں لغت میں سحری اس کھانے کو کہتے ہیں جو طلوع فجر یعنی صبح صادق سے پہلے اور رات کے اخری حصے میں کھایا جائے.

سحری کے فضائل احادیث کی روشنی میں

حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب اكله السحر

” ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان امتیاز کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے”
اہل کتاب کو رات میں سو جانے کے بعد کھانے پینے کی اجازت نہ تھی اور اسلام کے ابتدائی دور میں بھی یہی حکم تھا بعد میں اس امت کی اسانی اور اہل کتاب کی مخالفت کے غرض سے سورہ بقرہ کی ایت کے ذریعے یہ حکم ختم کر دیا گیا اور صبح صادق سے پہلے پہلے پوری رات کھانے پینے کی اجازت دے دی گئی خواہ کوئی سو کر اٹھ کر کھائے یا جاگ رہا ہو پھر کھائے ہر طرح جائز قرار دے دیا گیا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قال النبي صلى الله عليه وسلم تسحروا فإن في السحور بركة۔

“سحري کہاکیا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے” برکت کے مفہوم میں ظاہری اور باطنی دنیوی اور اخروی کئی طرح کی خیر اور فائدے کی چیزیں داخل ہیں حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

البركه في ثلاثه في الجماعه والثريد والسحور

برکت تین چیزوں میں ہے ایک جماعت میں یعنی باجماعت نماز اور ہر وہ کام جو اہل حق مسلمانوں کی جماعت مل کر کریں دوسرے ثرید میں جو عرب کا ایک قسم کا کھانا ہے.

تیسری سحری میں

حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

عن النبي صلى الله قال عليكم بغداء السحور فإنه هو الغداء المبارك ۔

“تم سحری کے کھانے کا اہتمام کیا کرو کیونکہ وہ صبح کا مبارک کھانا ہے”
سحری کو صبح کا مبارک کھانا اس لیے کہا گیا کہ یہ صبح کے کھانے یعنی ناشتے کے قائم مقام ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم استعينوا بطعام السحر على صيام النهار والقيلولة النهار على قيام الليل

ترجمہ: تم دن کے روزے پر سحری کے کھانے سے مدد حاصل کرو اور رات کے قیام پر دن کے قیلولہ یعنی دوپہر کے ارام سے مدد حاصل کرو سحری کھانے سے روزے پر قوت کا حاصل ہونا تو بالکل ظاہر ہے کہ سحری کھائے بغیر روزہ رکھنا دشوار ہوتا ہے اور کھا کر اس کے مقابلے میں اسان ہو جاتا ہے اور دوپہر کو ارام کرنے سے رات کو تہجد اور عبادت میں بھی اسانی ہوتی ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تسحروا ولو بجرعة من ماء ۔

سحری کھایا کرو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال نعم سحور المؤمن التمر ۔

ترجمہ: کہ مومن کی کھجور کی سحری کیا ہی اچھی ہے افراط و تفریط یعنی حد سے اگے بڑھنا یا حد سے کمی کرنا ہر چیز میں نقصان دہ ہے سحری میں نہ اتنا کم کھائے کہ عبادات میں کمزوری محسوس ہونے لگے اور نہ اتنا زیادہ کھائے کہ دن بھر کھٹی ٹکارے ڈکاریں اتی رہیں خود ان احادیث میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ جوارے کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے سحری کر لی جائے یہ مطلب نہیں کہ اس سے زیادہ کھانا منع ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر گنجائش نہ ہو تو تھوڑا بہت ہی صحیح جوار کھجور میں طاقت اور غذائیت بھی ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذا بھی ہے اور پانی سے پیاس کی شدت میں کمی اتی ہے اور جسم سے پانی کی کمی دور ہوتی ہے۔

سحری اور تہجد

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة الى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر يقول ما يدعوني فأستجيب له من يسألني فأعطيه له من يستغفرني فأغفر له

کہ ہمارے رب تبارک و تعالی ہر رات اسمان دنیا پر نزول رحمت فرماتے ہیں جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے فرماتے ہیں کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کی مغفرت کروں حضرت عمر بن عبسه سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب رات کے اخری حصے میں ہوتا ہے پس اگر اپ اس وقت میں اللہ کو یاد کرنے والوں میں سے ہونے کی قدرت رکھتے ہو اس وقت میں اللہ کو یاد کرنے اور نماز پڑھنے والوں میں سے ہو جائے حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتم رات کی نماز کا اہتمام کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمہارے لیے اپنے رب کی طرف قرب اور گنا ہوں کی معافی اور گناہ سے روکنے کا ذریعہ ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات اور تہجد کی نماز اللہ تعالی کے قرب خاص کا ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور ادمی کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رات کو بیدار ہو اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے پھر وہ دونوں دو رکعتیں پڑھیں تو وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والوں اور کثرت سے ذکر کرنے والیوں میں لکھے جائیں گے ابو داؤد رمضان میں رات کے اخری حصے میں تہجد اور نوافل پڑھنا اسان ہو جاتا ہے کیونکہ تہجد کے وقت سحری کھانے کے لیے تو اٹھتے ہی ہیں اس میں صبح صادق یعنی انتہائے سحر سے پہلے جس قدر میسر ہو سکے کم از کم دو یا اس سے زیادہ جتنی چاہے نفلی پڑھ لیا کریں اس سے رمضان میں تہجد کی فضیلت نصیب ہو سکتی ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں