توحید باری تعالیٰ
توحید باری تعالیٰ
اللہ تعالی ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
اللہ کی ابدیت، حیات اور صفات
اللہ تعالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، یعنی نہ اس کی ابتداء ہے نہ انتہا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں پہلی صفت حیات ہے ۔ صفات ذاتیہ ان صفات کو کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی ان صفات کے ساتھ تو موصوف ہو ، ان صفات کی اضداد کے ساتھ موصوف نہ ہو، مثلاً حياة ، قدرت، علم، ارادہ، سمع ، بصر ، کلام ، خلق اور تکوین وغیرہ صفات کے ساتھ اللہ تعالی موصوف ہے ، ان صفات کی ضد ، مثلاً: موت، عجز ، جہل وغیرہ کے ساتھ موصوف نہیں ہے۔ صفت حیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حی، یعنی وہ قدیم ہے، ازلی ہے ابدی ہے۔ اللہ تعالی ہی ہر قسم کی عبادات کے لائق ہے اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اللہ تعالی ہی حلال اور حرام قرار دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حلال و حرام قرار دے اللہ تعالی صفت وحدت کیساتھ موصوف ہے ، یعنی وہ اپنی ذات میں بھی اکیلا اور تنہا ہے اور اپنی صفات میں بھی اکیلا اور تنہا ہے ، نہ کوئی اس کی ذات میں شریک ہے اور نہ ہی صفات میں اللہ تعالیٰ بلا شرکت غیرے ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ اللہ تعالی کی تمام صفات بھی قدیم ہیں ، یعنی ہمیشہ سے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کیلئے ان صفات کے علاوہ اور بھی بے شمار صفات ثابت ہیں ، مثلا زندہ کرنا، مارنا، رزق دینا، عزت دینا، ذلت دینا، مخلوق کی الگ الگ شکل و صورت بنانا، بے نیاز ہونا، بے مثل و بے مثال ہونا، ہر چیز کا مالک ہونا، ہر جگہ موجود ہونا، مخلوق کی ہر ضرورت پوری کرنا، ہر مشکل سے نجات دینا، ہر کسی کی حاجت روائی کرنا، کائنات عالم کی تدبیر کرنا، ہدایت دینا، مخلوق کی خطائیں معاف کرنا اور ہر عیب سے پاک ہونا وغیرہ یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ازلی ابدی اور قدیم ہیں، ان میں کمی بیشی، تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔
اللہ کی مخلوق پر قدرت کا اثر
اللہ تعالی، جس طرح بندوں کے خالق ہیں اسی طرح ان کے افعال کے بھی خالق ہیں، ان کی عادات، اخلاق اور صفات وغیرہ کے بھی اللہ تعالی ہی خالق ہیں، بندوں کے افعال خیر (اچھے کاموں) اور افعال شر (برے کاموں) دونوں کے خالق اللہ تعالی ہی ہیں۔ اللہ تعالی کی طرف افعال شر کے خالق ہونے کی نسبت کرنے سے اس کی ذات میں کوئی نقص یا عیب پیدا نہیں ہوتا، اس لئے کہ خلق بہر حال محمود ہی ہے خواہ خیر کا ہو یاشر گا، البتہ کب خیر محمود ہے اور کسب شر مذموم اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالی عمل خیر اور کسب خیر سے راضی ہوتے ہیں اور عمل شر اور کسب شر ے ناراض ہوتے ہیں اللہ تعالی غصے بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی ، مگر وہ مخلوق کی طرح تاثر سے پاک ہیں اور ان کا غضب ناک ہونا بلا کیف ہے ، مخلوق کے غضب ناک ہونے کی طرح نہیں اور ان کا راضی اور خوش ہو نا بھی بلا کیف ہے، مخلوق کے راضی اور خوش ہونے کی طرح نہیں۔ اس کی کوئی صفت مخلوق کی صفات کی طرح نہیں ہر قسم کی نعمتیں اور ہر قسم کی تکلیفیں اسی کی طرف سے ہیں۔
اللہ تعالی کے تمام فیصل
اللہ تعالی کے تمام فیصلے اور کام بھلائی اور حکمت پر مبنی ہیں، اسکے کسی بھی فیصلے میں ذرہ بھر بھی نا انصافی نہیں۔ اللہ تعالی کیلئے قرآن کریم میں کچھ ایسی چیزیں ثابت ہیں جن کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے۔ مثلاً: چہرہ ، ہاتھ ، پنڈلی وغیرہ۔ اللہ تعالی ان اعضاء سے منزہ ہے ۔ ان کے بارے میں یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ ان سے جو مراد باری تعالی ہے وہ حق ہے ، میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔ اللہ تعالی کی کوئی نظیر ، کوئی اسکا شریک کوئی اس کی ضد، کوئی اسکے مقابل نہیں، کوئی اس کے فیصلوں کو رد کرنے والا نہیں، کوئی اسکے حکم اور امر پر غالب نہیں۔
اللہ تعالی کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں
اللہ تعالی کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں ، یعنی وہ اپنی ذات وصفات اور اپنے کاموں میں کسی کا محتاج نہیں، اللہ تعالی پر کوئی چیز واجب اور لازم نہیں، وہ کسی ضابطے اور قانون کا پابند نہیں جو چاہے کر سکتا ہے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ اگر وہ اپنی ساری مخلوق کو جہنم میں بھیج دے تو اسے مار پوچھنے والا نہیں، اگر وہ سب کو جنت میں داخل کر دے تو بھی اسے کوئی پوچھنے والا نہیں اس لئے کہ اللہ کے سوا کون ہے جو اس پر کوئی چیز واجب کر سکے اور پوچھ سکے۔ اہل جنت کا – جنت میں داخلہ اس کے فضل و کرم سے ہوگا، کسی کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں۔