ارض مقدسہ ،فلسطین، کے اہم دینی وتاریخی مقامات کا تعارف

ارض مقدسہ ،فلسطین، کے اہم دینی وتاریخی مقامات کا تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ارض مقدسہ ،فلسطین، کے اہم دینی وتاریخی مقامات کا تعارف

ہم ارض فلسطین ، قبلہ اول ، مرقد انبیاء کرام، ارض محشر ، سے محبت کیوں کرتے ہیں ، ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ؛
01: یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔

03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

05: حضرت سلیمان علیہ السلام اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔ بیت المقدس کی تعمیر بھی,

ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛

فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾

ترجمہ: پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو ان کی موت کا پتہ کسی اور نے نہیں بلکہ زمین کے کیڑے نے دیا جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ (٩) چنانچہ جب وہ گر پڑے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کا علم جانتے ہوتے تو اس ذلت والی تکلیف میں مبتلا نہ رہتے۔

9: حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی تعمیر پر جنات کو مقرر کیا ہوا تھا یہ جنات طبعی طور پر سرکش تھے اور صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نگرانی میں کام کرتے تھے، اور اندیشہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد وہ کام کرنا چھوڑ دیں گے، اس لئے جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنات کی نگاہوں کے سامنے ایک عصا کے سہارے اپنی عبادت گاہ میں کھڑے ہوگئے، جو شفاف شیشے کی بنی ہوئی تھی، تاکہ جنات انہیں دیکھتے رہیں، اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم کو عصا کے سہارے کھڑا رکھا، اور جنات یہ سمجھتے رہے کہ وہ زندہ ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے تعمیر کا کام مکمل کرلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس عصا پر دیمک مسلط فرمادی جس نے عصا کو کھانا شروع کیا، عصا کمزور پڑگیا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا جسم گرپڑا، اس وقت جنات کو احساس ہوا کہ وہ اپنے آپ کو جو عالم الغیب سمجھتے تھے وہ کتنی غلط بات تھی اگر انہیں غیب کا پتہ ہوتا تو وہ اتنے دن تک غلط فہمی میں مبتلا رہ کر تعمیر کے کام کی تکلیف نہ اٹھاتے۔

06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا “اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ” یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں “وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی” رکھ دیا گیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے؛

حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِۙ-قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْۚ-لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗۙ-وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(18)

ترجمہ: یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے توایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں ۔

{حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ:

یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور چیونٹی کاواقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اپنے لشکروں کے ساتھ طائف یا شام میں اس وادی پر سے گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں ۔جب چیونٹیوں کی ملکہ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر کو دیکھا تووہ کہنے لگی:اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں۔ملکہ نے یہ اس لئے کہا کہ وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں ، عدل کرنے والے ہیں ، جبر اور زیادتی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان نہیں ہے۔ اس لئے اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لشکر سے چیونٹیاں کچلی جائیں گی تو بے خبری ہی میں کچلی جائیں گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ گزرتے ہوئے اس طرف توجہ نہ کریں ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چیونٹی کی یہ بات تین میل سے سن لی اور ہوا ہر شخص کا کلام آپ کی مبارک سماعت تک پہنچاتی تھی جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چیونٹیوں کی وادی کے قریب پہنچے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لشکر وں کو ٹھہرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں داخل ہوگئیں ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ سفر ہوا پر نہ تھا بلکہ پیدل اور سواریوں پر تھا۔( جلالین، النمل، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۳۱۸، خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۰۵، ملتقطاً)

07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛

یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ ﴿۲۱﴾

ترجمہ: اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے، (١٩) اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد جاؤ گے۔

تفسیر:
19: مقدس سرزمین سے مراد شام اور فلسطین کا علاقہ ہے ؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو انبیاء کرام مبعوث کرنے کے لئے منتخب فرمایا تھا، اس لئے اس کو مقدس فرمایا گیا ہے، جس واقعے کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل وطن شام اور بالخصوص فلسطین کا علاقہ تھا، فرعون نے مصر میں ان کو غلام بنا رکھا تھا، جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اب وہ فلسطین میں جاکر آباد ہوں، اس وقت فلسطین پر ایک کافر قوم کا قبضہ تھا جو عمالقہ کہلاتے تھے، لہذا اس حکم کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین جاکر عمالقہ سے جہاد کریں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ بھی کرلیا گیا تھا کہ جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح ہوگی، کیونکہ سرزمین تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس حکم کی تعمیل میں فلسطین کی طرف روانہ ہوئے، جب فلسطین کے قریب پہنچے تو بنی اسرائیل کو پتہ چلا کہ عمالقہ تو بڑے طاقتور لوگ ہیں، دراصل یہ لوگ قوم عاد کی نسل سے تھے اور بڑے زبردست ڈیل ڈول کے مالک تھے، بنی اسرائیل ان کی ڈیل ڈول سے ڈر گئے اور یہ نہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے اور اس نے فتح کا وعدہ کر رکھا ہے۔

معجزات کا ظہور ،

09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

14: فلسطین ہی ارض محشر ہے۔

15: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔

16: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ،

فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰٮہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾

ترجمہ: چنانچہ انہوں نے اللہ کے حکم سے ان (جالوت کے ساتھیوں) کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا، (١٦٨) اور اللہ نے اس کو سلطنت اور دانائی عطا کی، اور جو علم چاہا اس کو عطا فرمایا۔ اگر اللہ لوگوں کا ایک دوسرے کے ذریعے دفاع نہ کرے تو زمین میں فساد پھیل جائے، لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، جالوت دشمن کی فوج کا بڑا قوی ہیکل پہلوان تھا، سموئیل (علیہ السلام) کے نام پر جو پہلی کتاب بائبل میں ہے اس میں مذکور ہے کہ وہ کئی روز تک بنی اسرائیل کو چیلنج دیتا رہا کہ کوئی اس کے مقابلے کے لئے آئے، مگر کسی کو اس سے دوبدو لڑنے کی جرأت نہ ہوئی، داؤد (علیہ السلام) اس وقت نوعمر نوجوان تھے، ان کے تین بھائی جنگ میں شریک تھے، مگر وہ چونکہ سب سے چھوٹے تھے اس لئے اپنے بوڑھے والد کی خدمت کے لئے ان کے پاس رہ گئے تھے، جب میدان جنگ شروع ہوئے کئی دن گزر گئے تو ان کے والد نے انہیں اپنے تین بھائیوں کی خبر لینے کے لئے میدان جنگ بھیجا، یہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جالوت مسلسل چیلنج دے رہا ہے اور کوئی اس سے لڑنے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا ہے، تو انہیں غیرت آئی اور انہوں نے طالوت سے اجازت مانگی کہ وہ جالوت کے مقابلے کے لئے جانا چاہتے ہیں، ان کی نوعمری کے پیش نظر شروع میں طالوت اور دوسرے لوگوں کو بھی تردد ہوا، لیکن ان کے اصرار پر انہیں اجازت مل گئی، انہوں نے جالوت کے سامنے جاکر اللہ کا نام لیا اور ایک پتھر اس کی پیشانی پر مارا جو اس کے سر میں گھس گیا اور وہ زمین پر گر پڑا، یہ اس کے پاس گئے اور خود اسی کی تلوار لے کر اس کا سر قلم کردیا، (١۔ سموئیل، باب ١٧) یہاں تک بائبل اور قرآن کریم کے بیان میں کوئی تعارض نہیں ہے ؛ لیکن اس کے بعد بائبل میں یہ کہا گیا ہے کہ طالوت (یا ساؤل) کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مقبولیت سے حسد ہوگیا تھا ؛ چنانچہ بائبل میں ان کے خلاف بہت سی ناقابل یقین باتیں ذکر کی گئی ہیں، بظاہر یہ داستانیں ان بنی اسرائیل کی کاروائی ہے جو شروع سے طالوت کے مخالف تھے، قرآن کریم نے جن الفاظ میں طالوت کی تعریف کی ہے ان میں حسد جیسی بیماری کی گنجائش نہیں ہے، بہر حال حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اس کارنامے نے انہیں ایسی مقبولیت عطا کی کہ بعد میں وہ بنی اسرائیل کے بادشاہ بھی بنے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اور ان کے ذریعے پہلی بار ایسا ہوا کہ نبوت اور بادشاہت ایک ہی ذات میں جمع ہوئیں۔

17: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

18: حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ (١) بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔

اس سے معراج کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور رات کے وقت انہیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر وہاں سے حضرت جبریئل (علیہ السلام) آپ کو ساتوں آسمانوں پر لے گئے، ہر آسمان پر آپ کی ملاقات پچھلے پیغمبروں میں کسی پیغمبر سے ہوئی، اس کے بعد جنت کے ایک درخت سدرۃ المنتہی پر تشریف لے گئے، اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا ہوا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں، پھر رات ہی رات میں آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، اس آیت میں اس سفر کے صرف پہلے حصے کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ آنے والے تذکرے سے اسی کا تعلق زیادہ تھا، البتہ سفر کے دوسرے حصے کا تذکرہ سورة نجم : ٢٧۔ ١٣ تا ١٨ میں آیا ہے، صحیح روایات کے مطابق یہ معجزانہ سفر بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی آپ کو دکھائی گئی تھی، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ واقعہ بیداری کے بجائے خواب میں دکھایا گیا ؛ کیونکہ یہ بات صحیح احادیث کے تو خلاف ہے ہی قرآن کریم کا اسلوب واضح طور پر یہ بتارہا ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے، اگر یہ صرف ایک خواب کا واقعہ ہوتا تو یہ کوئی غیر معولی بات نہیں تھی، انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہے، پھر اسے اپنی ایک نشانی قرار دینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔

19: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

20: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

21: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

22: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

23: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

24: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچا
نے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

25: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت

(والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين)

نازل ہوئی ّ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو “التین” انجیر سے، بلاد فلسطین کو “الزیتون” زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔
26: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک

(ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون)

سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمدیہ حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

27: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے، ,
دعا کیجئے کہ اللہ کریم قبلہ اول کو آزادی نصیب فرمائے، آج غزہ کے فلسطینی بھائیوں پر اسرائیل ہر طرح سے مظالم ڈھا رہا ہے ، پانی بجلی 23 لاکھ مسلمانوں پر بند ہے ، مگر الحمد للّٰہ انکے جزبے جواں ہیں ، سوشل میڈیا پر ہم ان کے لئے آواز اٹھائیں، وقت کے مسلم حکمرانوں کو انکے ساتھ تعاون پر مجبور کرے، جانی مالی امداد فراہم کرے، ہمہ وقت اللہ کے حضور ان کے لئے دعا کریں.

بس آج ہم نے دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہمیں ، فلسطین سے محبت نہیں عشق تھا عشق ہے عشق رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں