
قبلہ اول اور اس کی فضیلت
قبلہ اول اور اس کی فضیلت
فلسطین اس شام میں شامل ہے جس کی احادیث میں بہ کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ شام وہ سرزمین ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا گیا، دیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا، جن میں سید نا ابراھیم، سیدنا اسحاق، سیدنا یعقوب ، سید نا یوشع علیہم السلام ہیں۔ بلکہ سیدنا موسیٰ علیہ نے تو اس سرزمین ( بیت المقدس ) پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالی سے دعا فرمائی تھی (جب یہودیوں نے سید نا عیسی علیہ کے قتل کی سازشیں کی تواللہ تعالی نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا اوران کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔ ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ سلیم کی پیدائش اور بعثت اگر چہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجد اقصی ( بیت المقدس) کی سیر کرائی گئی جہاں آپ اللہ نے تمام انبیاء کرام علیہ کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس (مسجد اقصیٰ ) سے ہی ہوئی۔
مسلمانوں کے ازلی اور ابدی دشمن یہود نے اکثر مسلمانوں کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اس مقدس زمین کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی ، وہ ہمیشہ سے اس مقدس سرزمین کی بے حرمتی کرتا چلا آرہا ہے۔ حالیہ دنوں بھی کوئی دس روز سے یہودی مسلمانوں کے قبلہ اول پر مسلسل بمباری کر رہا ہے، وہاں موجود مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔
فلسطین (شام) اور مسجد اقصی کی اہمیت و فضیلت
فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی فضیلت و اہمیت پر چند نصوص ذکر کر رہے، جن سے اس خطہ اور مسجد ک اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
کائنات ارضی پر اللہ کا دوسرا گھر
قبلہ اول دنیائے کائنات پر بننے والا اللہ کا دوسرا گھر ہے۔ سیدنا ابوذر رض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
يَا رَسُولَ اللهِ، أَي مَسْجِدٍ وُضِعَ في الأرضِ أَوَّلَ؟ قَالَ : المَسْجِدُ الحَرَامُ قَالَ: قلتُ : ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ المَسْجِدُ الأَقْصَى قُلْتُ : كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ سَنَةٌ!
کرہ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونی تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد الحرام۔ ابوذر رض کہتے ہیں میں نے پھر عرض کی : دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی ؟ آپ نے فرمایا: مسجد الاقصی۔ سید نا ابوذر نے پھر سوال کیا: ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال۔ (صحیح بخاری: 3366 مسلم: 520)
سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر فرمائی اور ساتھ باری تعالی سے دعائیں بھی مانگیں۔ (سنن النساني : 3366)
یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ مقامات مقدسہ بیت اللہ، بیت المقدس اور مسجد نبوی انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث ہیں اور انبیاء کرام کے حقیقی وارث ہی ان مقامات کے وارث و متولی ہیں ، اور انبیاء کے حقیقی وارث صرف اور صرف مسلمان ہی ہیں۔
با برکت، مقدس اور پاک سرزمین
فلسطین جو در حقیقت شام میں واقع ہے۔ یہ انتہائی مقدس اور بابرکت زمین ہے جہاں اللہ رب العالمین نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں سے اپنا گھر تعمیر کروایا اور یہی وہ مقدس سرزمین ہے جہاں مالک الملک نے اپنے بہت سارے انبیائے کرام علیہ کو مبعوث فرمایا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرز مین کو انبیاء کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سید نا ابراہیم اور سید نا لوط علیھما السلام کو ان کی قوم سے نجات دے کر اسی بابرکت زمین کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا:
وَنَجَيْنَهُ وَلُوْطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بُرَكْنَا فِيهَا لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : 71)
اور ہم ابراھیم اور لوط (علیہ السلام) کو ان ( ظالموں) سے نجات دے کر ایسی زمین کی طرف لے کر آئے جس میں ہم نے جہان والوں کیلئے برکتیں کی ہیں۔
اسی طرح موسیٰ علیہ نے بھی اپنی قوم کو جب اس بستی میں داخل ہونے کا کہا تو اسے لفظ مقدس کے ساتھ بیان فرمایا:
يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ (المائده: 21)
اے میری قوم! اس مقدس (پاک) سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ یعنی یہ مقدس سرزمین موسی علی کو مانے والے ایمان لانے والے، ادب واحترام کرنے والے لوگوں کیلئے ہے نہ کہ ان کیلئے جو بہت بڑے فتنہ گر، عہد شکنی کرنے والے، آسمانی کتب میں تحریف کرنے والے حق کو چھپانے والے اور ، انبیاء کی جماعت کے قاتل ہیں۔ اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ کا تذکرہ کیا ، وہاں اس سرزمین کو با برکت سرزمین کہتے ہوئے فرمایا:
وَلِسُليمن الريحَ عَاصِفَةٌ تَجْرِى بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بُرَكْنَا فِيْهَا ( الانبياء : 81)
اور سلیمان (علیہا) کیلئے ہم نے تند و تیز ہوا کو بھی تابع بنا دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین (شام) کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں:
إلى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا، يَعْنِي الشَّامَ
یعنی اس بابرکت سرزمین سے مراد شام ہے۔
(تفسیر قرطبی: 322/11) اسی طرح اس آیت مبارکہ میں بھی باری تعالیٰ نے اس مقدس سرزمین کو برکتوں والی زمین قرار دیتے ہوئے فرمایا:
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بُرَكْنَا فيها (الاعراف : 134)
اس آیت مبارکہ سے بھی مفسرین نے یہی سرزمین مراد لی ہے۔
مسجد اقصیٰ پر سکون جگہ ہے
قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے سیدہ مریم اور ان کے بیٹے سیدنا عیسی علیہ السلام کو بھی اسی سرزمین میں بسا یا اور ساتھ اس سرزمین کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اسے پر سکون جگہ قراردیا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةَ ايَةٌ وَاوَيْنَهُمَا إِلى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينِ (المؤمنون: 50)
اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسی علینا) اور ان کی والدہ کو ( اپنی قدرت کی) ایک نشانی بنادیا اورا نہیں ایک ایسے ٹیلے (بلند مقام پر جگہ دی جو پر سکون ، قابل اطمینان اور چشمے والا تھا۔
حافظ ابن کثیر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ اس بلند جگہ یا ٹیلے سے مراد بیت المقدس ہے۔
مسلمانوں کا قبلہ سابقہ
بیت اللہ سے قبل مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، مگر بعد میں اللہ تعالی نے قبلہ تبدیل کر کے مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ کر دیا۔ چنانچہ سیدنا براء بن عازب رض ءفرماتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ البَيْتِ، وَأَنَّهُ صَلَّى، أَوْ صَلاهَا، صَلاةَ العَصْرِ وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ صَلَّى مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ المَسْجِدِ وَهُمْ رَاكِعُونَ، قَالَ : أَشْهَدُ بِاللَّهِ، لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ مَكَّةَ، فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ البَيْتِ، وَكَانَ الَّذِي مَاتَ عَلَى القِبْلَةِ قبل أن تحوّل قبل البيت رِجَالٌ قُتِلُوا، لَمْ نَ مَا تَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ)
رسول اللہ صلی اللہ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ) ہو جائے ( آخر ایک دن اللہ کے حکم سے ) آپ نے عصر کی نماز (بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ) پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی دی ہم نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی ، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے ۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جولوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں۔ (ان کی نماز میں قبول ہوئیں یا نہیں ؟ ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے۔“ (صحیح البخاری: 4436، صحیح مسلم:525)
ثواب کی خاطر مسجد اقصیٰ کی طرف رخت سفر کا جواز
خصوصاً سفر کر کے کسی مقام کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن چند مقامات کی طرف اجازت ہے ان میں سے مسجد اقصیٰ کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی طرف خصوصی طور پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ابوھریرہ رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا تشد الرحال إلا إلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : المَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى و مسجد الاقصی ۔ (صحیح البخاري: 1189، صحیح مسلم)
سرزمین اسراء و معراج
یہیں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو آسمانوں ک سیرکروائی۔ قرآن مجید میں ھے
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكُنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائيل: 1)
معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اس اللہ کی ذات پاک ہے جو اپنے بندے ( محمد ) کو ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ( بھی ) ہم نے (بڑی) برکت رکھی ہے تا کہ ان کو اپنی بعض نشانیاں دکھا ئیں بلاشبہ وہ اللہ سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔ اقصی کا معنی دور دراز کا ہے چونکہ مسجد اقصیٰ مسجد الحرام اور ( مسجد نبوی) سے کافی دور ہے اس لئے اسے یہ نام دیا گیا۔ (تفسیر قرطی 217/10)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اللہ نے ( مکہ سے بیت المقدس کی طرف اسراء کے لئے لے جانے کی یہ حکمت ) ذکر کی ہے کہ مکہ سے اسلام کی ابتداء، بعثت ومخرج ہے اور دین اسلام کا کمال ظہور اور اتمام مہدی ( اور میسی میز ) کے ہاتھوں شام کے علاقے سے ہوگا۔ (مناقب الشام واهلها ص: 2/1)
مسجد اقصی میں امام الانبیاء کی امامت
زمین کی پشت پر مسجد اقصیٰ وہ واحد جگہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء کرام کا اجتماع ہوا اور باجماعت نماز ادا فرمائی، یہ اعزاز کسی اور جگہ کو حاصل نہیں ہے۔ اور یہ اعزاز ہمارے پیارے پیغمبر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ ان تمام انبیائے کرام کی امامت آپ نے کروائی۔ جیسا کہ صحیح مسلم والی روایت میں آپ نے فرمایا:
فَخَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمتُهُمْ
یعنی جب نماز کا وقت ہوا تو میں نے انبیاء کی امامت کی۔ صحیح مسلم : 172
بیت المقدس میں نماز کی فضیلت
سید نا ابوذر سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی مجلس میں آپس میں اس بات پر گفتگو کی کہ بیت المقدس کی مسجد اقصی ) زیادہ افضل ہے یا رسول اللہ سال کی مسجد نبوی) ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاةٌ في مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَرْبَع صَلَوَاتٍ فِيهِ، وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى، وَلَيُوشِكُنَّ يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ ه مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا – أَوْ قَالَ: خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا
میری اس مسجد نبوی) میں ایک نماز ( اجر و ثواب کے اعتبار سے ) اس (بیت المقدس مسجد اقصی ) میں چار نمازوں سے زیادہ افضل ہے اور وہ (مسجد اقصی ) نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔ عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کر سکے ( اس کے لئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا ) پوری دنیا یا فرما یاد نیاو مافیھا سے زیادہ افضل ہوگا۔ المستدرک للحاکم اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے دلوں میں مسجد اقصیٰ کی محبت بھری ہوئی ہے اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
مسجد اقصیٰ میں نماز گناہوں کی معافی کا سبب
سید نا عبد اللہ بن عمرو رض بیان کرتے ہیں:
لَمَّا فَرَغْ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا: حُكْمًا يُصَادِفَ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلَّا يَأْتِي هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ، إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أَعْطِيَهُمَا، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ
جب سلیمان بن داؤد ( م ) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں: یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں ۔ یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ یا اللہ ! جو آدمی اس مسجد ( بیت المقدس) میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ) کی پہلی دو دعا ئیں تو قبول فرمالی ہیں ( کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسرے کی دعا بھی قبول کر لی گئی ہوگی
فتن کے دور میں اہل شام کے لشکر کو لازم پکڑیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سيصِيرُ الأمر إلى أنْ تَكُونُوا جُنُودًا مُجَنَّدَةً جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ، وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ، قَالَ ابْنُ حَوَالَة : خِرْ لي يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ، فَقَالَ : عَلَيْكَ بالشَّامِ، فَإِنَّهَا خِيرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ، يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ، فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ، وَاسْقُوا مِنْ غُدُرِكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَوَكَّلْ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ
عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑا شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑے میں رہوں ، آپ صل اللہﷺ نے فرمایا : اپنے اوپر شام کو لازم کرلو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بهترین سرزمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا ، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ سنن ابی داود: 7483
بیت المقدس وجال نہیں جائے گا
دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا ۔ دجال چار مقامات پر داخل نہیں ہو سکے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا:
لا يَأْتِي أَرْبَعَةَ مَسَاجِدَ – فَذَكَرَ الْمَسْجِد الْحَرَامَ، وَالْمَسْجِدَ الْأَقْصَى، وَالطُّورَ، وَالْمَدِينَةَ
دجال چار جگہوں پر نہیں جاسکے گا : مسجد حرام، مسجد اقصی کو طور اور مدینہ۔ (مسند احمد 23683:88/39،)