اسلام امن و سلامتی کا مذہب

اسلام امن و سلامتی کا مذہب

اسلام امن و سلامتی کا مذہب

اسلام سے قبل دنیا اندھیری تھی، ہر طرف ظلم وجور کا دور دورہ تھا، امن وامان نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی؛ کبھی رنگ ونسل کے نام پر، کبھی زبان و تہذیب کے عنوان سے اور کبھی وطنیت و قومیت کی آڑ میں انسانیت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا تھااور ان ٹکڑوں کو باہم اس طرح ٹکرایا گیا تھا کہ آدمیت چیخ پڑی تھی، اس وقت کی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ پوری دنیا بدامنی و بے چینی سے لبریز تھی، وہ پسماندہ علاقہ ہو یا ترقی یافتہ اور مہذب دنیا، روم وافرنگ ہو یا ایران وہندوستان، عجم کا لالہ زار ہو یا عرب کے صحراء وریگزار؛ ساری دنیا اس آگ کی لپیٹ میں تھی اسلام سے قبل بہت سے مذہبی پیشواؤں اور نظام اخلاق کے علمبرداروں نے اپنے اپنے طورپر امن ومحبت کے گیت گائے اور اپنے اخلاقی مواعظ وخطبات سے اس آگ کو سرد کرنے کی کوشش کی جس کے خوشگوار نتائج بھی سامنے آئے مگر اس عالمی آتش فشاں کو پوری طرح ٹھنڈا نہیں کیا جاسکا۔

اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اوراس کے سامنے ایک پائیدار ضابط ه اخلاق پیش کیا جس کا نام ہی ”اسلام“ رکھا گیا یعنی دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا مذہب“ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں، اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا اور پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی، آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتا ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے طورپر کسی گہوارئہ سکون کی تلاش میں ہے یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کی دین ہے۔

اسلام میں امن و سکون کی ہدایات

جس معاشرہ کا شیرازہ امن بکھرتا ہے اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگراسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن کریم میں ہے:

من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیرنفس آو فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاہا فکأنما احیا الناس جمیعا (المائدہ) ترجمہ: ”اسی لئے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ جو شخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمینی فساد برپا کرنے کے علاوہ کسی اور سبب سے قتل کرے اس نے گویا ساری انسانیت کاقتل کیا اور جس نے کسی انسانی جان کی عظمت واحترام کو پہچانا اس نے گویا پوری انسانیت کو نئی زندگی بخشی۔ انسانی جان کا ایسا عالم گیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب و تحریک نے پیش نہیں کیا تھا. اسی آفاقی تصور کی بنیاد پر قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علمبردار قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فای الفریقین احق بالامن ان کنتم تعلمون، الذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وہم مہتدون (الانعام:۸۱،۸۲)

ترجمہ: ”دونوں فریقوں (مسلم اور غیرمسلم) میں امن کا کون زیادہ حقدار ہے؛ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم وشرک کی ہرملاوٹ سے پاک رکھا ہے امن انہی لوگوں کے لئے ہے اور وہی حق پر بھی ہیں۔

اسلام اور معاشرے کی اصلاح

اسلام قتل و خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے وہ اس کو ایک جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا (الاعراف:۵۶)

ترجمہ: ”اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو“

ان اللّٰہ لایحب المفسدین (القصص:۷۷)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتے۔۔“

اس مضمون کی متعدد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں امن ایک بہت بڑی نعمت ھے قرآن نے اس کو عطیہٴ الٰہی کے طور پر ذکر کیا ہے۔

فلیعبدوا رب ہذا البیت الذی اطعمہم من جوع وآمنہم من خوف (القریش:۴،۵)

ترجمہ: ”اہل قریش کو اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہئے جس رب نے انہیں بھوک سے بچایا کھانا کھلایا اور خوف و ہراس سے امن دیا“

اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت (حرم مکہ) کو گہوارئہ امن قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

من دخلہ کان آمنا․

ترجمہ: ”اس کے سایہ میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب امان ہوگا۔“

احادیث میں بھی زمین میں امن وامان برقرار رکھنے کے سلسلے میں متعدد ہدایات موجود ہیں مثلاً:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”صاحب ایمان“ کی علامت یہ قرار دی ہے کہ اس سے کسی انسان کو بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے – حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والموٴمن من آمنہ الناس علی دمائہم واموالہم (ترمذی: حدیث نمبر ۲۶۲۷)

ترجمہ: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔“

ایک اورموقعہ پر ظلم وتنگ نظری سے بچنے کی تاکیدکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامة واتقوا الشح فان الشح اہلک من کان قبلکم حملہم ان سفکوا دمائہم واستحلوا محارہم (مسلم: حدیث نمبر۲۵۷)

ترجمہ: ”ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے، نیز بخل وتنگ نظری سے بچو اس چیز نے تم سے پہلے بہتوں کو ہلاک کیاہے اسی مرض نے ان کو خونریزی اورحرام کو حلال جاننے پر آمادہ کیا۔“

بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ کہ اللہ کی قسم! مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم مومن نہیں ہوسکتا، کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (…) کون مومن نہیں ہوسکتا؟ فرمایا کہ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔“ (بخاری: حدیث نمبر۶۰۱۶)

حضرت جریر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لا یرحم اللّٰہ من لا یحرم الناس (بخاری: حدیث نمبر ۷۳۷۶)

ترجمہ: ”اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“

ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا

خیرکم من یرجی خیرہ یومن شرہ؛ وشرکم من لا یرجی خیرہ ولا یومن شرہ․

ایک اور موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصبیت وتنگ نظری کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں؛ جو عصبیت کی طرف بلائے اورجو عصبیت کی بنیاد پر قتال کرے“ (ابوداؤد: ۱۵۲۱
ارشاد فرمایا جس نے کسی معاہد (ذمی غیرمسلم) کو قتل کیا؛ وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔“ (مسند احمد، حدیث نمبر:۲۰۴۶۴،)

اس طرح کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں ظلم وجبر سے بچنے، پرامن زندگی گذارنے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی، فتنہ وشرانگیزی سے اجتناب اور خیر کی اشاعت، عمل خیر میں زیادہ سے زیادہ شرکت، روئے زمین میں ایک امن پسند خوشگوار اور مثبت ماحول کی تشکیل، عام انسانوں کے ساتھ (خواہ وہ کسی بھی مذہب و قوم سے تعلق رکھتا ہو) فراخدلی ورواداری اور ہر مذہب و قوم کے مذہبی روایات و شخصیات کے احترام کی پرزور تلقین کی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں