حضرت خضر علیہ السلام کون تھے؟ نبی تھے یانہیں؟

حضرت خضر علیہ السلام کون تھے؟ نبی تھے یانہیں؟

حضرت خضر علیہ السلام کون تھے؟ نبی تھے یانہیں؟

حضرت خضر علیہ السلام کا اصل نام کیا تھا اور ” خضر” نام کیوں مشہور ہوا؟

حضرت خضر علیہ السلام کے نام کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کیے جاتے ہیں۔ بعض نے کہا:- ” بلیا بن ملکان’ انکا نام ہے۔ کسی نے ‘ عمائیل بن النون مقاتل رحمہ اللہ کے نزدیک :- ” یسع علیہ السلام” ہیں ۔
سوال:۔
“خضر علیہ السلام’ نام کیوں مشہور ہوا؟
جواب 1:-
خضر کے معنی” سر سبزی و تازگی’ کے آتے ہیں۔انکو ”خضر”‘ اس لیے کہا جاتا کہ وہ کٹی ہوئی خشک گھاس پر بیٹھتے اور جب اٹھتے تو وہ سرسبز ہوجاتی ۔” ذکر کیا۔
جواب2:۔
جب وہ چٹیل اور بنجر زمین پر بیٹھتے یا اسکے پاس سے گزرتے تو وہاں سر سبز گھاس اگ آتی تھی۔
جواب3:-
کسی نے کہا کہ وہ جب نماز پڑھتے تو اردگرد کی جگہ سرسبز ھوجاتی ۔

حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے یا نہیں؟

جمہور علماء کے نزدیک:۔
حضرت خضر علیہ السلام اللہ کے نبیٰ تھے۔ اور انہوں نے انکی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے دلائل بھی پیش کیے ہیں
۔جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
دلیل اول:-
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جب انکے واقعے کو بیان فرمایا ؛قرآن پاک میں ذکر ھے:-
“‘رحمَةُ من رَبَكَ “وا فعلَ“ عن أئری ”
یعنی خضر علیہ السلام نے جب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سفر کے دوران کشتی میں سوراخ۔دیوار کو سیدھا کرنا,لڑکے کو قتل کرنے جیسے کام کیے تو موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے تو خضر علیہ السلام نے کہا :-
ترجمہ:-
” یہ آپ کے رب کی طرف سے رحمت ھے میں نے کوئی بھی کام اپنی مرضی اور رائے سے نہیں کیا” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے کیونکہ یہ بات نبی ہی کی شان کے لائق ھے اور نبی ہی کے اختیار میں ہیکہ وہ بغیر واسطہ کے براہِ راست امر الٰہی سے کام کرے۔
دوسری دلیل:-

یہ بات تسلیم شدہ ہیکہ غیر نبی’ نبی” سے زیادہ جاننے والا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام کے بارے

ادا ءَاثينلة رَحْمَ مَنْ عنیئا وَعَلَنْهُ بن

‘ہمارے بندوں میں سے ایسے بندے ہیں کہ ہم نے انہیں اپنی طرف سے رحمت عطا کی اور انہیں اپنے پاس سے علم سکھایا” اس سے بھی معلوم ہوا کہ وہ نبی تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف سے رحمت و علم عطا فرمایا۔۔
تیسری دلیل:-

ایک نبی؛ غیر نبی کی اتباع و پیروی نہیں کرسکتا جبکہ موسیٰ علیہ السلام نے تو اس سفر میں انکی اتباع کی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ۔
پس ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ خضر علیہ السلام نبی تھے۔
بعض اکابر علماء کے نزدیک:-
حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت کا انکار ” زنادقہ” کے درجات میں سے اول درجہ ھےکیونکہ زنادقہ ‏ ( زندیق کی جمع ھے۔ اور یہ گمراہ فرقہ ھے ) کا یہ نظریہ ہیکہ ‘ ولی آہستہ آہستہ نبی کے درجہ تک پہنچ جاتا ھے اور ولی نبی سے بھی افضل ہے” یعنی خضر علیہ السلام ولی تھے اور نبی سے بھی افضل تھے ۔ جبکہ یہ عقیدہ و نظریہ سراسر جمہور علماء کے خلاف ھے ۔ اس لیے کہ کوئی ولی ” نبی” نہیں ہوسکتا اور نہ ہی نبی سے افضل ہوسکتا ھے ۔۔۔

حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت کونسی تھی؟؟

جمھور علماء کے نزدیک:۔
حضرت خضر علیہ السلام’ تکوینی نبی ” تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام ‘ تشریعی نبی ” تھے ۔ ایسی نبوت کہ جس میں نبی کے پاس باطنی احکام کی وحی آئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ایسے نبی کو “‘تکوینی نبی”‘کہتے ہیں۔
ایسے نبی کہ جنکے پاس ظاہری احکام کی وحی,آئے ۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ظاہری احکام کی وحی آتی تھی تبھی تو انہیں حیرانی ہورہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کردیا ایک لڑکے کو قتل کردیا اور دیوار کو سیدھا کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس امور باطنیہ کا علم تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔۔تبھی تو انکو معلوم ہوا کہ دراصل کشتی میں سوراخ کرنے میں ہی ان لڑکوں کا فائدہ ھے کہ آگے بادشاہِ خراب کشتی پر قبضہ نہیں کریگا۔۔ اور وہ لڑکا بڑا ہوکر نافرمان بنے گا اورٴوہ دیوار اس لیے سیدھی کی کہ اس میں صالح آدمی کے دو بیٹوں کا خزانہ دفن تھا جو کہ ابھی چھوٹے تھے اگر دیوار گر جاتی) تو لوگ انکے خزانے پر قبضہ کر/لیتے۔۔ پس اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہی باطنی احکام کا علم دیا گیا اور وہ اللہ کے نبی تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں