حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت سے بے مثال تعلق

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت سے بے مثال تعلق

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت سے بے مثال تعلق

حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سراپا رحمت و شفقت ہے اپ کو رحمت اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا گیا اس لیے اپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے کے لیے باعث رحمت ہیں جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت کا معاملہ اس قدر وسیع اور عام ہوا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال اور اہل بیت کے لیے کیسے روف و رحیم ہوں گے.
سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والوں کی نظر سے اپ کی شفقت و محبت کے سلسلے میں کیسے کیسے واقعات گزرے ہوں گے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اپنے اہل بیت کے ساتھ کیسا تھا اپنے خاندان چچا اور ان کے اولادوں کے ساتھ کس طرح کا تھا اور غلاموں تک کے معاملے میں وہ کس درجہ شفیق حسن سلوک کرنے والے تھے تاریخ کے صفحات پر پوری طرح تفصیلات روشن ہیں ہم اس مختصر مضمون میں صرف اہل بیت بالخصوص اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور نواسوں کے ساتھ جو بے مثال شفقت و محبت کا معاملہ تھا اس کا اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے.
جگر ہے گوشہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور اپ کی سب سے زیادہ محبوب صاحبزادی تھی جو باسط سے چند سال قبل پیدا ہوئی تھی اپ کے مقام اور مرتبے کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جلیل القدر صحابہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے لیے سیدہ نساء اہل جنت فرمایا گیا یعنی جنت خواتین کی سب سے محترم اور مخدوم خاتون صحیحین کی ایک روایت میں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ممبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا گیا فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس سے اس کو اذیت پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی اذیت پہنچتی ہے جس نے اس کو رنج دیا اس نے مجھے رنج دیا اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حسد فاطمہ رضی اللہ عنہ سے غائب ترجم محبت اور دلی تعلق کا اظہار ہوتا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہت رکھتی تھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے فاطمہ کو ایک مرتبہ اتے دیکھا تو ان کی چال بالکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کے مشابہ تھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ملتا ہے میں نے بات چیت کے انداز اور گفتگو میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپ سے محبت کا اندازہ اس روایت سے بھی لیا جا سکتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہونے لگتے تو اخری کام جو کرتے ہوئے یہ ہوتا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جا کر دیکھتے.
اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے قلب تعلق کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد ہی وصال فرما کر بہت جلد اپنے شفیق باپ کے پاس پہنچ گئی روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو اطمینان دلا یا تھا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے پہلے وہی اخرت میں ا کر ملیں گی نیز یہ بھی ان سے فرمایا تھا کہ کیا تم کو یہ بات خوش نہیں کرتی کہ تم خواتین نے جنت کے سردار ہو.
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی محبت کی یہ بھی ایک مثال ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی ہستی کا انتخاب فرمایا روایت میں اتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کر کے فرمایا تھا میں نے تمہارا نکاح اپنے اہل بیت کے بہترین فرد سے کر دیا ہے
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں حضرت حسن اور حسن حسین رضی اللہ عنہما سے بھی بے حد محبت تھی کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیٹی کی اولاد تھے اور جن سے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نسلی سلسلہ بھی چلنا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان پیارے .نواسوں کے لیے نماز کے دوران اپنے سجدوں کو طویل کر دیا
یہ معصوم پیارے بچے کھیلتے ہوئے نانا جان جب نماز میں مشغول ہوتے اور سجدے میں جاتے تو ان کی پشت پر سوار ہو جاتے اپ اس خیال سے کہ کہیں ان معصوم بچوں کو کوئی چوٹ نہ ا جائے دیر تک سجدے سے سر نہ اٹھاتے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہیں روایت میں اتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام خلق خدا میں زیادہ قریب اور مشابہ تھے روایت میں یہ بھی اتا ہے کہ جب یہ بچے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ان کے رخسار و لب چومتے اور کبھی ان کی زبان اپنے دہن مبارک میں لے کر چوستے کبھی گود میں کھلاتے کبھی سینے اور پیٹ پر بٹھاتے کبھی اپنے ہی ساتھ ممبر پر چڑھاتے ایک صحیح روایت میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سینے سے سر تک اپنے نانا کے مشابہ تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جسم جسد اطہر کے مشابہ تھا حضرت حسن رضی اللہ عنہ بہت کم سخن تھے وہ لوگوں کے لڑائی جھگڑوں کے معاملات سے بھی اللہ کے رہتے تھے لیکن اگر کسی مسئلے میں ان سے رجوع کیا جاتا تو دلیل کے ساتھ اپنی بات سمجھا دیتے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے متعلق یہ بھی روایت ملتی ہیں کہ اپ دونوں جنتیوں کے سردار ہوں گے حدیث کے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں الحسن والحسین سید اشباب اہل الجنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوش مبارک پر اپنے نواسے کو لیے ہوئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا صاحبزادے بڑی اچھی سواری پر بیٹھے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور سوار بھی بہترین ہے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے دوسرے صاحبزادے حضرت حسین رضی اللہ عنہ چار ہجری میں پیدا ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد چٹایا اور نو مولود کے دہن کو اپنی مبارک زبان سے ترک کیا دعاؤں سے نوازا اور بچے کا نام حسین رکھا حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ملتا ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں اپ کے سینہ مبارک پر چڑھے کھیل رہے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ان دونوں سے اپ اس درجہ محبت کرتے ہیں فرمایا کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں.
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں دوسری روایت میں اتا ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی اواز سنی تو ان کی والدہ سے کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے.
جس طرح محبت و شفقت کا معاملہ سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اہل بیت کے ساتھ تھا اسی طرح اہل بیت کا بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور اپ کی راحت رسانی کے لیے فکر مندی کا ملتا ہے روایت میں اتا ہے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر فاقہ تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو وہ کسی مزدوری کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے تاکہ ان سے جتنا ہو سکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت پوری ہو جائے اس تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ کی سنچائی یعنی پانی لگانے کا کام اپنے ذمے لیا مزدوری یہ تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اجرت ایک کھجور ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے 17 ڈول کھینچے یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ جس نو کی کھجوریں چاہے لے لیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی طے شدہ مزدوری کے مطابق 17 عجوہ کھجور لے لی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں دیکھ کر فرمایا جناب یہ کہاں سے لائے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے پتہ لگا کہ اج اپ کے ہاں فقہ درپیش ہے اس لیے کسی مزدوری کی تلاش میں نکل گیا تھا کہ کچھ کھانے کا سامان کر سکوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو اللہ اور اسے رسول کی محبت نے اس پر امادہ کیا تھا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ.
تو یہ تھا ایک دوسرے سے تعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم شفقت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کہا کرتے تھے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ فاطمہ کی طرف گئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہاں نہ پا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا علی کہاں ہے جواب دیا مسجد میں اپ مسجد تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے ہیں چادر ان کی پشت سے اتر گئی اور پیٹھ میں مٹی لگ گئی ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پشت سے مٹی صاف کی اور دو مرتبہ فرمایا اجلس یا ابا تراب بیٹھ جاؤ اے ابو تراب ابو تراب کا ترجمہ ہے خاک الود غرض سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اہل بیت کے ساتھ جو شفقت اور محبت اور اکرام کا معاملہ رہا.

اپنا تبصرہ بھیجیں