رمضان کیسے گزاریں؟

رمضان کیسے گزاریں؟

رمضان کیسے گزاریں؟

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جاؤ ، صحابہ کرام منبر سے قریب ہو گئے ۔ جب حضور ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین ! جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: آمین !، جب تیسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: آمین ! جب آپ ﷺ خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اترے تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے ( جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو ) انھوں نے فرمایا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے کہا: آمین ! پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انھوں نے کہا کہ: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین ! ، جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ داخل ہو جائے ۔ میں نے کہا: آمین ! ۔

رمضان مغفرت کا مہینہ ہے

رمضان ایسا زریں موقع ہے کہ اس میں کوشش کرے تو ایک رمضان سارے گناہ بخشوانے کے لیے کافی ہے۔ جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور یہ یقین کر کے رکھے، کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں ، اور وہ تمام اعمال حسنہ پر بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے :

” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وما تاخر رواه الحاكم والطبراني.

یعنی جو شخص رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ ایمان واحتساب کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقین کامل ہو، اور ہر عمل پر ثواب کی نیت کرے، اور اخلاص وللہیت اور رضائے الہی کا حصول پیش نظر ہو، اور ہر عمل کے وقت مرضی الہی کو دیکھے۔ ایمان و احتساب يہی ہے جو انسان کے عمل کو فرش سے عرش پر پہنچا دیتا ہے۔ اصلاً اس کا فقدان ہے، مسلمانوں کا اصل مرض بد نیتی نہیں بلکہ بے نیتی ہے، یعنی سرے سے وہ نیت ہی نہیں کرتے ، ہم وضو کرتے ہیں مگر اس میں نیت نہیں کرتے ، ہم دوسرے ارکانِ دین ادا کرتے ہیں مگر ایمان و احتساب ہمارے پیش نظر نہیں رہتا، جب بہت سے لوگ کسی کام کو کرتے ہیں تو وہ رسم بن جاتی ہے، روزہ کا ایک عام ماحول ہوتا ہے ایسے میں کوئی اس اندیشہ سے روزہ رکھے کہ ہم روزہ نہ رکھیں گے تو چھپ کر کھانے پینے سے کیا فائدہ؟ یہ خیال آیا تو روزہ کی روح نکل گئی۔ بیماریوں میں بھی اکثر بھوکا رہنا پڑتا ہے، سفروں میں بھی اکثر کھانا نہیں ملتا، اس لیے روزہ کی خصوصیت صرف بھوکا رہنا نہیں ہے، روزہ کی حقیقت ہے اللہ کے حکم کی تعمیل ، جو چیز ہمیں چھوڑنے کو کہی گئی ہیں ان کو چھوڑ دینا.

اعمال کی مقبولیت کی علامات و آثار

کسی عبادت کی خصوصیت اور اس کی مقبولیت کی دلیل یہ ہے، کہ اس کی ادائیگی سے دل کے اندر رقت ، نرمی ، تواضع اور انکساری کا جذبہ پیدا ہو، لیکن جب اس کے برعکس کبر و غرور، اور عجب پیدا ہو، تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری عبادت مقبول نہیں ہوئی ، اس میں کمی رہ گئی ہے، اس لیے ان چیزوں کو دور کرنے کے لیے ایمان واحتساب کو پیش نظر رکھنا اور اس کا استحضار رہنا ضروری ہے ، بے سوچے سمجھے، بغیر نیت کے روزہ رکھ لینا، کوئی اور عبادت ادا کرنا بے معنی ہے۔ ایک صاحب فرمانے لگے: ” میں اس لیے روزہ رکھتا ہوں کہ جو مزہ افطار کے وقت آتا ہے، وہ دنیا کی کسی نعمت میں نہیں، حالانکہ ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی نہیں تھا، ہمیں جا چاہیے کہ ہم دن میں کئی بار نیت کو تازہ کر لیا کریں، ہر وقت استحضار رکھیں ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ابن آدم کے ہر عمل پر اس کو دس سے سات سو گنا تک ثواب ملے گا ، اللہ نے فرمایا سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔

الصَّومُ لِي وَأَنَا أَجْزِي به

یہ بندہ تمام محبوب چیزیں میرے لیے چھوڑتا ہے، اس لیے میں خود ہی بدلہ دوں گا۔ (۱)

اعمال طاقت پیدا کرتے ہیں

دوسری بات یہ ہے کہ دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں، یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے، اور اس کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہے، جس طرح سے ایک غذا دوسری غذا کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے، اسی طرح ایک فرض کی ادائیگی دوسرے فرائض کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اس کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہر رکن الگ الگ ہے۔ ہر ایک کی فرضیت اور اس کی اہمیت تو بہر حال اپنی جگہ ہے، مگر ایک دوسرے سے الگ نہیں؛ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے ہے، اسی طرح سے روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے ، روزہ کی وجہ سے دوسرے عبادات کی ادائیگی میں ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے۔

روزے کا مقصد نفس پر قابو پانا ہے

تیسری بات یہ ہے کہ روزہ کا مقصد یہ ہے کہ نفس پر قابو پایا جائے اور روزہ کی وجہ سے نفس پر قابو پانا آسان ہو جائے ، دین کا ذوق و شوق پیدا ہو، عبادات کی ادائیگی میں شوق ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [ سورة البقرة : ۱۸۳]

یعنی ہر کام کے کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی کا خیال رکھا جائے ، تقوی کا ترجمہ بعض لوگوں نے لحاظ سے کیا ہے ، یعنی ہر کام کے کرتے وقت اس کا لحاظ رکھا جائے ، یہ کام اللہ کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں ، حلال و حرام کی تمیز ہو جائے ۔ اس طرح سے مشق ہو جائے کہ فطرت بن جائے ، جس طرح سے آپ عید کے دن کھانے پینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ایک مہینے سے دن میں کھانے پینے کی عادت چھوٹ گئی تھی ، اس وجہ سے آپ کو کھانا پینا خلاف عادت معلوم ہوتاھے.

خیرات و صدقات کا مہینہ

اس مہینے میں خیرات و صدقات بھی زیادہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ماہ مبارک کو

شَهرُ الْبِرِّ وَالْمُوَاسَاةِ

فرمایا ہے یعنی نیکی اور غمخواری کا مہینہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف زیادہ توجہ ہو، اور صدقات و خیرات میں زیادہ حصہ لے، لوگوں کے حالات کا سراغ لگا کر پتہ چلائے ، ان کے یہاں تحائف اور ہدایا بھیجے ۔ اللہ کے کتنے بندے ایسے ہیں، جن کو صرف روزہ افطار کرنے کے لیے مسجد میں مل جاتا ہے، پھر وہ بھوکے رہتے ہیں۔ اس الله لیے ایسے ضرورت مند لوگوں کا پتہ لگا کر ان کی مدد کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ اس کا بڑا ہی اہتمام فرماتے تھے۔ آپ کے متعلق آتا ہے

أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْراً

یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ دوسرے موقع پر آتا ہے :

فَلَهُوَ أَجْوَدُ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ

یعنی طوفان کی طرح سخاوت کرتے تھے، اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اور دل کھول کر غریبوں ، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کرتے تھے۔

تو بہ واستغفار کا مہینہ

انسان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری عبادت کیا ، ہم تو اللہ تعالیٰ کے لائق کچھ بھی عبادت نہیں کر سکتے ، ہم توبہ استغفار بھی اچھی طرح نہیں کر سکتے ، اس لیے ہمیں بھوکوں ، لا چاروں اور مسکینوں ہی کی مدد کرنی چاہیے، تا کہ ممکن ہے اللہ کے کسی بندے کا دل خوش ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسی کو قبول فرمالے اور ہمارا مقصد پورا ہو جائے ۔ ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نماز تو لائق قبولیت نہیں لیکن اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے سے ممکن ہے اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے۔ اس مہینے میں ہمیں پوری طرح خیرات و صدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اور ہم کمر کس لیں کہ اس مہینے سے پورا فائدہ اٹھائیں گے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے

یابَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلُ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَدبر

یعنی اے خیر کے طلب کرنے والے ! آگے بڑھ اور اسے برائی کے طلب کرنے والے ! پیچھے ہو، دوسری جگہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے پوچھے گا کہ اے بندے میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی، میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ، بندہ جواباً عرض کرے گا کہ اے خداوند قدوس ! تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے؟ تو کیسے بھوکا رہ سکتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے وہاں موجود پاتا ۔ ( أَو كَمَا قَالَ )

ہمدردی و غمگساری، ایثار و خیر خواہی کا مہینہ

اس لیے یہ ضروری ہے کہ جو محتاج و بیوائیں ہیں، جو فقراء ومساکین ہیں ، ان کی مدد کی جائے ، غریبوں کی جولڑکیاں ہیں، ان کی شادی کرادی جائے ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہم سے محاسبہ کرے گا ، اور سخت باز پرس کرے گا ۔ یہ ہمارا مال نہیں جسے ہم خرچ کرتے ہیں، بلکہ یہ اللہ کی امانت ہے، ہم اگر اس کو تقریبات میں خرچ کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں ، اگر اس کو بے محل صرف کرتے ہیں تو نا جائز کرتے ہیں ۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اس کو صرف کریں، ہمیں اس کی فکر ہونی چاہیے کہ کتنی بیوائیں اور یتیم ہیں،، کتنے محتاج و مساکین ہیں جنہیں ضرورت ہے؟ ہمیں ان تمام جگہوں پر صرف کرنا چاہیے جہاں دوسروں کی مدد ہو سکے، اور اللہ تعالیٰ راضی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں