زکوٰۃ 1

روزہ

روزہ

روزے کے معنی ،

دین اسالم میں تیسری بنیادی عبادت “روزہ” ہے۔ روزے کے لیے اصل عربی لفظ ” صوم” ہے اور اس سے مصدر صیام” ہے جس کے معنی ہوتے ہیں روزہ رکھنا۔ قرآن و حدیث میں یہ دونوں لفظ “صوم اور صیام” استعمال ہوئے ہیں۔ “روزہ” بھی ایک فارسی لفظ ہے اور بعض دوسری اصطالحات کی طرح یہ لفظ بھی اسی طرح صوم” کے ہم معنی اور مترادف ہے۔

اسالمی اصطالح کے طور پر روزے کا مطلب ہےطلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ، پینے اور ازدواجی تعلقات : رمضان سے مکمل اجتناب کرنا ۔ اسالم میں صوم ) روزہ( کی بہت سی اقسام ہیں، بعض روزے واجب )فرض( ہوتے ہیں، مثالً اور کفارہ یا نذر کے روزے۔ بعض دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ) بہتر ( ہے اور بعض دنوں میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ جن روزوں کو اسالمی عبادات میں ایک رکن کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے مراد ہیں “ صیام رمضان” یعنی رمضان مبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھنا۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی اسالمی عبادت اور اسالم کے ایک رکن کی حیثیت سے جب لفظ “ روز و بصیغہ واحد بھی بوال جاتا ہے، تو اس سے ماہ رمضان کے روزے ہی مراد ہوتے ہیں۔

روزے کی اہمیت :

روزے کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل امور سامنے رکھیئے: قرآن کریم میں واضح الفاظ میں مسلمانوں
کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ

(البقره: 183 )
“روزے رکھنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے”

قرآن کریم نے روزوں کے لیے ماہ رمضان کا تعین کر دیا ہے اور اس کی وجہ بھی بتا دی ہے کہ رمضان المبارک کا نزول
قرآن سے تعلق اسے یہ اہمیت دیتا ہے۔

رمضان قرآ کریم نے روزے کے تمام بنیادی ضروری احکام مثالًا: سفر ، بیماری اور اوقات روزہ وغیرہ بیان کر دیئے ہیں۔ کے روزے جب فرض ہوئے اس وقت سے لے کر آخر تک نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ہر سال نہ صرف روزے رکھے اور رکھائے بلکہ نماز اور زکوۃ کی طرح روزے کو بھی ایک اجتماعی نظام کی صورت دی۔ اس کی سب سے نمایاں خصوصیات : (الف) سحور (سحری کھانے کے لیے اٹھنا ) (ب) قیام اللیل (رات کو قرآن کریم سنانے کے لیے زائد رکعات نماز پڑھنا جسے ہم تراویح کہتے ہیں) (ج) صدقۃ الفطر ( رمضان کے اختتام پر ضرورت مندوں کو روٹی” بہم پہنچانے کی مہم (1)عید الفطر ( کی محض تقریبات نہیں بلکہ نماز ) کا اہتمام ہیں۔

رمضان شریف قمری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے اور اس کے آغاز اور اختتام کا دارومدار رویت ہالل )چاند دکھائی دینے ( پر ہے۔ آنحضورصلى الله عليه وسلم نے نہ صرف اس رویت کے بارے میں بلکہ روزے کے دیگر ضروری احکام اور اس کے مقاصد کو بھی نہایت وضاحت سے سمجھایا ۔ نماز اور زکوۃ کی طرح روزے کی ان تفصیالت سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روزہ پہلی امتوں میں بھی ایک فرض عبادت کے طور پر رائج تھا اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ لیکن اسالمی روزے میں یوں تو اور بھی بہت سی زائد خوبیاں ہیں ، مگر سال کا پورا ایک مہینہ اور وہ بھی اجتماعی : نظم کے ساتھ روزے رکھنے کی تو ُدنیا بھرمیں کہیں مثال نہیں ملتی.

رمضان المبارک اپنے اس اجتماعی رنگ کی وجہ سے تمام عالم اسالم میں نیکی کا ماحول بن جاتا ہے۔ محلوں سے لے کر جھونپڑیوں تک اور شہروں سے لے کر ُدور افتادہ گاؤں تک ہر جگہ رمضان المبارک اپنی ایک شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے. رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کے لیے ایک مناسب اور سازگار ماحول پیدا ہو جاتا ہے اور نہیں تو آدمی عار کے خوف سے بھی روزہ رکھ لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ چیز بھی اس کے اندر کسی تبدیلی کا باعث بن جائے۔

روزے کے مقاصد :

کھانے پینے سے بچنا روزے کی ظاہری صورت ہے، اگر چہ یہ بھی ضروری ہے مگر کتاب وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ
دار کو ہر طرح کی بری باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ آنحضورصلى الله عليه وسلم نے تو صاف فرمایا کہ

“مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.”

جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل کو ترک نہ کیا تو ہللا تعال ٰی کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا ( چھوڑ دے)۔

(كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ من قِيَامه إِلَّا السهر)

کتنے ہی ایسے روزہ دار ہوتے ہیں جنہیں اُن کے روزوں سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔)

پہلو نہیں رکھتے کہ جس میں صرف مت کرو یا (Negative ) یہ بھی یاد رکھیے کہ روزہ اور رمضان المبارک صرف سلبی
(s’Do“ ) پہلو بھی ہے۔ یہاں بہت سی نیکیوں کے لیے ضرور کرو (Positive ) ہی پر زور ہو۔ ان کا ایک ایجابی پہلو (ts’Don) بھی موجود ہے۔ نماز ، نوافل ، تالو ِت قرآن ، خیرات اور صدقات ، الغرض اس مہینے میں ہر طرح کی نیکی بکثرت کرنے اور ہر طرح کی برائی سے باز رہنے کے احکام دیئے گئے ہیں۔
روزے کے عام فوائد، مثالً صحت پر اچھے اثرات ، جفا کشی اور سخت کوشی کی تربیت ، غریبوں کی بھوک کا احساس وغیرہ وغیرہ، یہ سب باتیں اپنی جگہ درست اور بجا، مگر دوسری عبادات کی طرح روزہ بھی اپنے رب سے براہ راست رابطے کی ایک صورت ہے۔ روزے کی حالت میں آدمی کو ہر وقت یہ احساس ہوتا ہے اور ہونا چاہیے کہ ہللا اس کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علیحدگی میں بھی ، جہاں سے ا کوئی دیکھنے واال نہیں ہوتا ، ہر گز کھانے پینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہی ہے :اپنا احتساب خود کرنا ، جس کی بناء پر نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ

“مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَإِحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ”

.جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے پچھلے گناِہ معاف ہوں گے )

روزے کے متفرق احکام :

مسافر یا بیمار یا کوئی اور شرعی عذر رکھنے والے مرد یا عورت کو رمضان میں فوت ہو جانے والے روزوں کی قضاء بعد میں دینا یعنی قضا روزے رکھنا اسی طرح واجب ہے جس طرح خود رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہیں۔ رمضان کے روزے رکھ کر جانتے بوجھتے ہوئے توڑنے سے ساٹھ (60) دن کے روزے رکھنا واجب ہو جاتا ہے۔ بھول اور نسیان سے کچھ کھا لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے احترام کی دیدہ دلیری سے خالف ورزی کرنا سخت گناہ ہے۔

کفارہ اور نذر کے روزے بھی قضا روزوں کی طرح واجب ہوتے ہیں۔ ہر قمری مہینے کی 13,14,15( ایام بیض ) اورذی الحج ( حج کا دن) اور ہر پیر (سوموار) اور جمعرات کو روزہ رکھنا مستحب (یعنی اچھا اور بہتر ہے )۔ دونوں عیدوں کے دن ایامب تشریق 11,12,13 ذی الحجہ کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ روزوں کی ان اقسام کے اپنے کچھ احکام اور مسائل ہیں۔ یہاں ہمارا مقصد صرف آپ کو ، صرف روزے کی اہمیت ، اُس کے ضروری اور متعلقہ احکام اور روزے کے مقاصد اور اغراض سے آگاہ کرنا تھا.

اپنا تبصرہ بھیجیں