Sacrifice 2

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال

عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے ان دس دنوں کی قسم اٹھائی ہے: عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کے آخری پارہ میں اللہ قسم ہے فجر کی ! اور دس راتوں کی ! اور جفت اور طاق کی !

تعالی نے ایام کی قسم اٹھائی ہے:

وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ

مفسرین عظام نے ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس روز مراد لیے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد

وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ أَيَّامُ الْعَشْرِ”

سید نا عبداللہ بن عباس بہ فرماتے ہیں کہ ایام معلومات” سے ابتدائی عشر وذوالحجہ مراد ہے۔ صحیحح البخاری : 960
دنیا کے سب دنوں میں سب سے افضل ايام : سیدنا جابر بن عبد اللہ میں اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَفْضَلُ أَيَّامِ الدُّنْيَا أَيَّامُ الْعَشر

دنیا کے افضل ایام ( ذوالحجہ کے ابتدائی ) دس دن ہیں۔صحیح الجامع الصغیر : 1131 اس حدیث میں تو ان ایام کو سب سے افضل قرار دے دیا گیا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ ذو الحجہ اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سے کون سا افضل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔ حافظ ابن قیم پائے بیان کرتے ہیں کہ جب فاضل اور سمجھدار شخص اس پر غور و خوض کرے گا تو وہ اسے شانی وکافی پائے گا کیونکہ ذوالحجہ کے دس دنوں کے علاوہ ایام کے اعمال للہ تعالی کودس ذوالحج کے اعمال سے زیادہ محبوب نہیں اور ان ایام میں یوم عرفہ، یوم نحر اور یوم ترویہ بھی ہیں ( جو خاص فضیلت کے حامل ہیں ) اور رمضان کی آخری دس راتیں شب بیداری کی راتیں ہیں جن میں رسول اللہ میں یا رات بھر عبادت کیا کرتے تھے اور ان راتوں میں شب قدر بھی۔

ان دنوں میں کیے گئے اعمال اللہ کے ہاں سب سے زیادہ افضل

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما العَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا في هَذهِ؟ قَالُوا : وَلا الجهَادُ؟ قَالَ وَلَا الجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ

ترجمہ۔ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا : جہاد میں بھی نہیں؟ سی ایم نے فرمایا: ہاں جہاد میں بھی نہیں ، سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور ں آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لا یا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)۔ صحیح البخاری: 989

اسی طرح ایک دوسری روایت میں اس کی مزید کچھ وضاحت موجود ہے، چنانچہ سید نا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:

ما مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إلى اللهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الأَيَّام، قيل: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قالَ : وَلا الجهاد في سبيل الله، إلَّا مَنْ خَرجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، ثُمَّ لَمْ يَرْجِعُ حَتَّى تُهَرَاقَ مُهْجَةً

دمه سال بھر کے تمام دنوں میں کیے جانے والا کوئی نیک عمل بھی اللہ کے نزدیک ان ذوالحجہ کے ( پہلے ) دس دنوں میں کیسے گئے نیک عمل سے زیادہ پسندیدہ نہیں ۔ صحابہ کرام نے عرض کی : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ سلیم نے فرمایا نہیں، مگر کوئی شخص اپنی مال وجان کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے، پھر کسی بھی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے، یعنی شہید ہو جائے۔ مسنداحمد: 51/11(6505) صحیح یا درکھیں ! عام دنوں میں اپنے مال کے ساتھ نکلنے والا مجاہد، شہادت کے درجات کو پالے تو ان ایام عشرہ میں نیکیوں میں لگا ہوا مسلمان اس درجہ کو پہنچ سکتا ہے، البتہ انہی ایام عشر میں ایک آدمی ان عبادات میں مکن جبکہ ایک مجاہد دین کی سر بلندی کے لئے کفار کے خلاف صف آراء ہو تو پھر اس خوش بخت کی قسمت کے کیاکہنے۔

ان دنوں میں عرفہ کے دن کی فضیلت: سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ يَوْمَ أَكْثَرَ مِنْ، أن يُعتق الله عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ : مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ “

اللہ عز وجل عرفہ کے دن سے زیادہ کسی اور دن بندوں کو آگ سے آزاد نہیں کرتا۔ اللہ عز وجل ( بندوں سے ) قریب ہوتا ہے، پھر اور قریب ہوتا ہے، پھر ان کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے اظہار فخر فرماتا ہے، اورکہتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ 3014 صحیح

ان دنوں میں یوم نحر کی فضیلت

سید نا عبد اللہ بن قرط رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أعظم الأيام عِنْدَ اللهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرَ

اللہ تبارک و تعالی کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم انحر ( دس ذوالحجہ، عید الاضحی ) ہے، اور اس کے بعد یوم القر ہے۔ مسند احمد: 427/31(19075) قال شعیب استاده صحیح یوم القر کی وضاحت ایک دوسری روایت سے معلوم کی جاسکتی ہے، جسے امام ابن خزیمہ ہم نے سیدنا عبد اللہ بن قرط عل لا کے حوالے سے نقل فرمایا ہے:

أَعْظَمُ الأيَّامِ عِندَ اللهِ يَوْمُ النحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَر قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَوْمَ الْقَرْ يَعْنِي يَوْمَ الثَّانِي مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ

اللہ تبارک وتعالی کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم النحر ( دس ذوالحجہ ) ہے، اور اس کے بعد یوم القمر ہے۔ ابو بکر فرماتے ہیں: یوم القمر سے مراد یوم نحر کے بعد والا دن (11 ذوالحجہ ) ہے۔ صحیح ابن عزیمہ: 2066 قال الاعظمی اسناده صحیح اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے ایام کی نسبت پہلے دن کی قربانی ، ذکر ودعاء اور انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ سب سے افضل ہے۔

عشرہ ذوالحجہ میں کرنے کے کام

انیک اعمال میں خوب محنت کیجئے
چونکہ یہ زمانے کے سب سے بہتر دن ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہیے، جیسا کہ ہمارے سلف کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ان دنوں میں بہت زیادہ نیک اعمال کیا کرتے تھے:

كان سعيد بن جبير إذا دخل أيام العشر اجتهد اجتهادا شديدا حتى ما يكاد يقدر عليه

سیدنا سعید بن جبیر علی الا عشرہ ذوالحجہ میں اعمال صالحہ میں خوب لگے رہتے ، یہاں تک کہ اس پر قادر ہونا دشوار ہو جاتا۔
(سنن دارمی: 1718

تمام قسم کے گناہوں سے کلی اجتناب کیجئے

ماہ ذوالحجۃ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اس میں بطور خاص ظلم وزیادتی قبل و غارت وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ القَيمُ فَلَا تَظلمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ (سورة التوبة 36)

بلا شبہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ اللہ کی کتاب ( لوح محفوظ ) میں ، جس دن سے اس نے آسمان وزمین کو بنایا ہے، ان میں چار حرمت والے ہیں ، یہی دین کا سیدھا راستہ ہے، تو ان مہینوں میں اپنےآپ پر ظلم نہ کرو۔

تکبیرات کا اہتمام کیجئے

سید نا عبد اللہ بن عمررض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَأَكثرُوا فيهن من التهليل والتكبير، والتَّحْمِيدِ

اللہ تعالی کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والے کوئی دن نہیں اور ان دس دنوں میں کیے جانے والے اعمال میں سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ لہذا کثرت سے تہلیل

(لا الہ الا اللہ ) تکبیر (اللہ اکبر ) اورتحمید (الحمد للہ )

پڑھا کرو۔
امام بخاری اللہ فرماتے ہیں

كان ابن عمر وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إلى السُّوقِ في أَيَّامِ العَشْرِ يُكَبَرانِ وَيُكَبَرُ النَّاسُ بتكبيرهما

سید نا عبد اللہ بن عمر میں لیا اور سیدنا ابو ہریرہ رض ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکلتے تو دونوں تکبیرات پڑھتے اور لوگ بھی انہیں دیکھ کر تکبیرات پڑھتے ۔ صحیح البخاری قبل الحديث: 900
تکبیرات کے الفاظ :

سید نا عبد اللہ بن مسعود رض ان الفاظ میں تکبیرات پڑھا کرتے تھے:

اللَّهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ سب سے بڑاہے، اللہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ:

سیدناعبداللہ بن عباس رض کے بارے میں آتا ہے کہ وہ عید کے موقع پر یہ تکبیرات پڑھتے :

الله أكبر، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ . وَلِلَّهِ الْحَمْدُ اللهُ أَكْبَرُ وَأَجَلَّ اللهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا

اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اللہ سب سے بڑا اور جلالت والا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ( اس کی یہ تمام تعریفیں ) اس وجہ سے ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی ہے۔

السنن الکبرى للبھیقی: 6280 صحیح

اسی طرح ابراہیم نخعی بلائے یوم عرفہ کو یہ تکبیرات پڑھا کرتے تھے:

اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ اللہ

سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ: 5650، صحیحح

قربانی کا ارادہ رکھنے والے بال اور ناخن نہ کاٹیں

سیدہ ام سلمہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی ہم نے فرمایا:

مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَجِّي، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ

جو ماہ ذوالحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ (جب تک قربانی نہ کر لے ) اپنا ہال اور ناخن نہ کائے۔ سنن الترمذی: 1523

حج و عمرہ کی ادائیگی کیجئے

حج کے ان ایام میں حج و عمرہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ سیاللہ نے ان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

تابعوا بين الحج والعُمْرَةِ، فَإِنَّهُما يَنْفِيانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ، وَالذَّهَبِ، وَالفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوَاب إِلَّا الجَنَّةُ۔

اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے ادا کرو، اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹادیتے ہیں مٹی لو ہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹادیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ تو صرف جنت ہی ہے۔ سنن الترمذی: 810 ، قال الالباني: صحيح

روزوں کا اہتمام کیجئے

چونکہ یہ افضل ایام الدنیا ہیں، اس لیے ان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے چاہیے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے بارے میں سیدہ حفصہ رض فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالخَمِيسَ

رسول اللہ کریم ذوالحجہ کے ابتدائی نوروزے ، یوم عاشور ، ہر مہینے کے تین اور ہر جمعرات و پیر کے روز روزہ رکھتے تھے۔ سنن ابی ابو داؤد: 2437 قال الالبانی: صحیح

بالخصوص عرفہ کا روزہ رکھیں

سید نا ابوقتادہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ سے میں اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے پچھلے سال کے اور آئندہ سال بھر کے گناہ معاف فرما دے گا۔ صحیح مسلم:1162

قربانی کیجئے

عشرہ ذوالحجہ کا آخری دن دس ذالحجہ یوم النحر کہلاتا ہے۔ اس روز قربانی کرنا زیادہ افضل ہے، چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن قرط رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَعْظَمُ الْأَيَّامِ عِنْدَ الله يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِ قَالَ أبو : يَوْمَ الْقَرْ يَعْنِي يَوْمَ الثَّانِي مِنْ يَوْمِ النَّحْر۔

صدقہ و خیرات کیجیےخوشی کے ان لمحات میں ہم جہاں اپنے والدین، بیوی، بچے، عزیز واقارب وغیرہ کو یاد رکھتے ہیں اسی طرح پڑوسی اور تمام مسلمانوں میں بتامی، فقراء، مساکین اور مستحقین کو بھی یا درکھنا چاہیے۔ تا کہ وہ بھی خوشی کے ان حسین لمحات میں خوش ہوسکیں۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں