زکوٰۃ

زکوٰۃ

زکوۃ

زکوۃ کے معنی

زکوۃ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ جس فعل سے نکال ہے اس کے لفظی معنی ہیں: (1)پھلنا پھولنا، بڑھنا ، زیادہ ہونا(2)اور پاک صاف ہونا۔ زکوۃ کسی چیز کے نہایت عمدہ اور بہترین حصے کو بھی کہتے ہیں۔ اپنے اصطالحی معنوں میں لفظ زکوۃ اپنے دونوں لفظی معنوں سے تعلق رکھتا ہے۔ زکوۃ سے مال پاک اور صاف ہو جاتا ہے ( جو کمایا ہی حرام طریقے پر ہو یہ اس کی بات نہیں ہے) ، اور اپنی برکتوں (محض روحانی نہیں بلکہ اقتصادی بھی اور معاشرتی بھی ) کے لحاظ سے یہ مال کی زیادتی کا باعث بھی بنتی ہے.

اصطالح میں زکوۃ ایک مالی عبادت ہے جس میں شریعت نے مال کی مقدار ، زکوۃ کی شرح اور اس کے مصارف کا تعین کر نکالنا۔ زکوۃ کے لیے قرآن کریم میں دوسرا لفظ صدقۂ دیا ہے یعنی اپنے مال میں سے مقررہ قوانین کے مطابق ایک حصہ الزماً جس کی جمع صدقات ہے ، استعمال ہوا ے۔ صدقہ اس مال کو کہتے ہیں جو کسی کو ثواب اور نیکی کا کام سمجھ کر دیا جائے۔تحفہ یا انعام یا بخشش وغیرہ کے طور پر نہیں۔ اسے صدقہ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس سے گویا انسان اپنے مالک (ہللا تعال ٰی) کے سامنے اپنی عبودیت اور اقرار بندگی کو سچا ثابت کرتا ہے۔ اسی لیے ہمارے نبی اکرمصلى الله عليه وسلمنے صدقے کا مفہوم صرف “مال دینے کی بجائے زیادہ وسیع کر دیا۔ ایک طویل حدیث میں آنحضورصلى الله عليه وسلمنے انصاف کرنا ، کسی کا ہاتھ بٹا دینا ، سامان اٹھانے یا سوار ہونے میں مدد کر دینا ، اچھی بات کرنا ، نماز کی طرف چلنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ، کسی بے کس محتاج کی امداد کرنا ، بھالئی کا حکم دینا، سب کو صدقہ کہا حتی کہ فرمایا: اور کچھ نہیں کر سکتے تو لوگوں کے ساتھ برائی کرنے سے باز رہنا بھی صدقہ ہے۔

اصطالح میں اب صدقات کا لفظ عام ہے۔ یہ واجب اور غیر واجب (نفلی) صدقات سب پر بوال جاتا ہے زکوۃ کا لفظ معین اور فرض صدقے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی آپ جان چکے ہیں کہ زکوۃ کی جگہ کسی غیر عربی لفظ نے نہیں لی بلکہ فارسی ، اردو ، پنجابی، ترکی وغیرہ میں قرآن کریم کا اصل لفظ زکوۃ ” ہی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

زکوۃ کی اہمیت

اسالم میں زکوۃ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل امور سامنے رکھیے : قرآن کریم میں ساٹھ جگہ زکوۃ ادا کرنے اور نماز کو قائم کرنے کا حکم ساتھ ساتھ مال کر دیا گیا ہے۔ نماز کی اہمیت پر پہلے بات ہو چکی ہے اس کے عالوہ انفاق ) مال خرچ کرنا ( اور صدقے کے الفاظ سے بھی زکوۃ کا حکم متعدد جگہ آیا ہے۔
نماز کی طرح زکوۃ کو بھی پہلے انبیاء نے دین کا ضروری حصہ قرار دیا۔ حضرت اسماعیل اور حضرت عیسی علیہم السالم کے پابند زکوۃ ہونے کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ پہلی امتوں کے نیک لوگوں اور اس اُمت کے عند ہللا بلند مرتبہ پانے والوں کی ایک خاص صفت زکوۃ ادا کرنا اور اپنے مال میں مستحق کا حق ماننا بیان ہوئی ہے۔
ہمارے نبی کریم صلى الله عليه وسلمنے نماز کی طرح زکوۃ کا بھی ایک معین نظام قائم فرمایا اور اس نظام کو چالنا حکومت کا فریضہ قرار دیا۔ بڑی تفصیل کے ساتھ اس کے احکام جاری فرمائے۔ یہی وجہ تھی کہ حضورصلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے منکرین زکوۃ کو بھی مرتدین کی طرح اسالم کے باغی قرار دے کر ان سے جہاد کیا۔

زکوۃ کے احکام

نبی اکرم صلى الله عليه وسلمسے زکوۃ کی جو تفصیالت ثابت ہیں ان کا بیان خاصا طویل ہے۔ چند اہم اور اصولی امور مختصرا لکھے جاتے ً ہیں ۔ آپ صلى الله عليه وسلمنے اموال کی نشاندہی فرمادی ، جن پر زکوۃ واجب ہو گی س ا میں :۔

زرعی پیداوار (1)
معدنیات یا کوئی دفینہ (۲)
سونا، چاندی ، نقدی اور مال تجارت (۳)
مویشی (اونٹ، بھیڑ ، بکری اور گائے ) شامل ہیں۔ (۴)

ان میں سے ہر ایک چیز کی (ماسوائے دفینہ یا معدنی دولت کے ) وہ کم از کم مقدار مقرر فرمائی جس پر زکوۃ لی جائے گی۔ اس مقدار کو اصطالح میں “نصاب” کہتے ہیں۔ جن چیزوں پر زکوۃ واجب تھی، آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کی شرح زکوۃ بھی مقرر فرما دی۔ جس کی چار قسمیں کی جاسکتی ہیں ، یعنی %20 فیصد ، %10 فیصد ، %5 فیصد اور 5.2 %فیصد مصارف زکوۃ خود قرآن کریم نے بیان کر دیئے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اہل بیت پر زکوۃ لینا حرام قرار دیا۔

یہ ہیں وہ بنیادی باتیں جن سے مختلف اسالمی مذاہب کے ائمہ نے زکوۃ کے مختلف مسائل نکالے ہیں۔ آپ جسے درست سمجھتے ہیں ، اس کے قول پر عمل کیجئے ۔

زکوۃ کے مقاصد

زکوۃ کا نظام بنیادی طور پر اس اصول پر قائم ہوا ہے کہ دراصل ہر چیز کا مالک ہللا تعال ٰی ہے، اس نے بندوں کو حق ملکیت انسان کی تکریم اور اس پر اعتماد کے لیے دیا ہے۔ ملکیت کی لذت بھی انسان کے اندر فطری طور پر رکھی گئی ہے اور اس کرہ ارض پر انسان کی ترقی میں اس فطری جبلت کا بڑا ہاتھ ہے۔

اگر نماز براِہ راست ہللا تعال ٰی کے ساتھ رابطے کی صورت ہے تو زکوۃ براِہ راست خدا کے )غریب و مستحق ( بندوں کے ساتھ رابطے کو الزمی قرار دیتی ہے۔ اسالمی حکومت بھی اموال ظاہرہ ) جسے بآسانی دیکھا جا سکتا ہو ( کی زکوۃ وصول کرتی ہے۔ مثالً زیورات وغیرہ( کی زکوۃ خود مستحقوں تک اموال باطنہ ) وہ مال جس کا مالک کو علم ہے دوسرے معلوم ہی نہیں کر سکتے پہنچانا فرض ہے۔ زکوۃ ایسی عبادت ہے جس کا اصل مقصد مخلوق کو نفع پہنچانا ہے۔ یہ کام بندوں سے براہ راست رابطے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اگر زکوۃ اور دوسرے صدقات اسی اصول اور جذبے سے ادا کیے جائیں تو معاشرے میں گدا گر کوئی نہ رہے، بلکہ نظام زکوۃ کا مقصد ہی گداگری کو روکنا ہے۔ جب ہر زکوۃ دینے واال خود ہللا کے ان بندوں ے رابطہ پیدا کرنے کی پیشہ وارانہ گداگری کوشش میں لگا ہو گا، جب سوال کرنے والے مستحقین کو خود تالش کیا جائے گا، تو گداگری اور خصوصاً کی وصلہ شکنی ہوگی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے زکوۃ اور صدقات کو الٹا گداگری کے فروغ کا سبب بنا دیا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے پیشہ ور شخصوں یا اداروں یا انجمنوں یا جماعتوں کو زکوۃ دینے میں سہولت سمجھی اور مستحق کی تالش ایک مشکل کام نظر آیا یا پھر غریب ، عزت نفس رکھنے والے محتاج سے براِہ راست رابطے کو شاید اپنی وجاہت اور وقار کے خالف سمجھا۔

عام لوگ زکوۃ کو ایک ٹیکس کہہ دیتے ہیں۔ یادرکھیے زکوۃ ٹیکس نہیں ،عبادت ہے۔ سرکاری ٹیکس تو ایک طرح کا جرمانہ سمجھ کر بامر مجبوری ادا کیا جاتا ہے۔ زکوۃ میں تو الٹا یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بارگاہ الہی میں قبول ہی نہ ہو۔ زکوۃ اور حکومت کے ٹیکسوں میں بنیادی فرق ایسا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں۔ زکوۃ امیروں سے لے کر غریبوں کو دی جاتی ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:
ترجمہ؛
ان (مسلمانوں) کے امیروں سے لی جاتی ہے اور ن ا کے فقراء (غریبوں) کی طرف لوٹائی جاتی ہے)۔
اس کے برعکس دنیا بھر کی حکومتوں کے ٹیکس عموما غریبوں سے لیے اور امیروں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ براِہ راست یا ً بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ غریب پر پڑتا ہے، مگر براِہ راست یا بالواسطہ اس کا زیادہ حصہ حکومت کے بڑوں کے کام آتا ہے۔

زکوۃ اور ربا (سود) ایک دوسرے کے یکسر مخالف نظام بلکہ دو باہم متضاد ذہنیتوں کا مظہر ہیں۔ سودی نظام عصر حاضر کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ اسالم نے اسی لیے سود کو قعطاً حرام اور زکوۃ کو واجب قرار دیا ہے۔ رہا (سود) سے محنت کے بغیر زیادہ سے زیادہ دولت اپنی تجوریوں میں بھرنے کا جنوں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے (Risk )اور خطرے (Labour) برعکس زکوۃ خطرات اور مشکالت کا مقابلہ کر کے سخت محنت سے کمائے ہوئے پیسے میں بھی دوسروں کو حصہ دار بنانے .کا ایک نظام ہے۔ ایک صرف “ لینے میں ہی مسرت حاصل کرتا ہے دوسرا دینے کی لذت سے آشنا ہوتا ہے

آج کل معیشت اور اقتصاد کی اصطالحوں میں بات کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ نظام معیشت کے لیے گردش زر اب آب حیات سمجھا جانے لگا ہے۔ اسالم نے اپنے بہت سے احکام کے ذریعے سے اس گردش (Wealth of Circulation) زر کا انتظام کیا ہے۔ زکوۃ ان میں سے ایک ہے۔

زکوۃ دولت کو منجمد رکھنے کی بجائے ، سرمایہ کاری کی ترغیب دیتی ہے ، جو مال ایک سال تک زائد از ضرورت پڑا رہے، اس پر زکوۃ لگتی ہے اور اگر وہ سال گزرنے سے پہلے کسی تجارت وغیرہ میں لگا دیا جائے تو نہ صرف اس پر زکوۃ ہوگی بلکہ اس کے منافع پر بھی ہوگی۔ اس طرح زکوۃ نہ صرف ہمارے روحانی تزکیہ کا سبب بنتی ہے کہ وہ ایک عبادت ہے ، بلکہ ہماری معاشرت اور معیشت کے بہت سے روگوں کا عالج بھی بہم پہنچاتی ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ زکوۃ آدمی کے مال میں سے کم از کم لینے کے اصول پر فرض ہے۔ زکوۃ کے عالوہ نفلی صدقات اسالمی تعلیمات کا ایک نمایاں باب ہیں۔ سب سے بڑھ کر قرآن کریم نے یہ معیار دیا ہے کہ ضرورت سے زائد سب محتاجوں پر خرچ کر دو۔ اور ضرورت سے زائد کا تعین کون کرے گا ؟ عقیدہ توحید اور عقیدہ آخرت کے اصل اثرات ظاہر ہونے کا مقام یہی ہے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام اور خلفائے راشدین اور ان میں سے بھی خصوصا رضي هللا عنه اور حضرت علی رضي هللا عنه نے اس کی عملی مثالیں قائم کر دیں کہ حکمران ً حضرت عمر فاروق
ہوتے ہوئے بھی خود اپنی خوراک ، لباس اور مکان وغیرہ کا معیار زندگی اس سے اونچا نہیں ہونے دیا جو وہ اپنی رعیت کے افراد کو کم از کم دے سکتے تھے.

اپنا تبصرہ بھیجیں