قبولیت اعمال

قبولیت اعمال

قبولیت اعمال

ہمارے اعمال کیسے قبول ہوسکتے ہیں ؟

ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ اللہ کے ہاں قبولیت عمل کی شرائط کیا ہیں؟ یعنی اللہ ہمارے کو نے اعمال قبول کرتا ہے؟ کہیں ایسانہ ہوکہ ہم اعمال تو بہت زیادہ کریں اگر وہ اعمال اللہ کی شرائط پر پورے ہی نہ اتریں اور ہمارے سارے کے سارے اعمال ضائع اور برباد ہو جائیں۔ اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ ان اسباب کو جانے کی کوشش کریں جن کی بدولت ہمارے کئے ہوئے نیک اعمال کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے۔

قبولیت عمل میں معاون اسباب

عمل صالح کب بنتا ہے؟

اللہ پر ایمان کامل: اعمال کی قبولیت میں پہلی شرط ایمان باللہ ہے، اگر اللہ تعالی پر ایمان نہ ہو تو جتنے مرضی نیک کام کرتے جائیں وہ عند اللہ قابل قبول نہ ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنْ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةٌ طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿سورة النحل: 97)

جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشر طیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَيكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (بني اسرائیل: 19)

اور جو آخرت چاہتا ہے اور اس کے لیے مناسب کوشش بھی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسےلوگوں کی کوشش مقبول ہوگی۔

اس کے مقابلے میں وہ شخص جو ایمان نہ لائے ، اس کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتا۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ هَلْ نَنبئکمْ بِالْأَخسَرِينَ أَعْمَالاً الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنعًا أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزنا (الكهف: 103 / 105)

کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں۔ وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوگئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے رو برو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ البتہ وہ شخص جو پہلے تو مومن نہیں تھا، پھر ایمان لے آیا۔ ایمان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے پہلے اعمال کو بھی نیکیوں میں تبدیل فرمادے۔ چنانچہ سید نا حکیم بن حزام رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الجَاهِلِيَّةِ مِنْ صَدَقَةٍ أَوْ عَتَاقَةٍ، وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَجْرِ؟

اے اللہ کے رسول ! مجھے ان کاموں کے بارے میں بتائیں جنہیں میں زمانہ جاہلیت میں نیکی سمجھ کر کیا کرتا تھا۔ مثلاً صدقہ کرنا، غلام آزاد کرنا اور صلہ رحمی تو کیا ان کا موں کا مجھے اجر ملے گا؟

أسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ

تم نے اپنی سابقہ نیکیوں سمیت اسلام قبول کیا ہے۔ صحیح البخاری: 1436

اخلاص

اخلاص یہ ہے کہ نیک عمل خالصتا اللہ کیلئے ہو اور اس کا مقصود دنیا کا حصول، ریا کاری یا غیر اللہ کی خوشنودی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذلِكَ دِينُ الْقَيْمَةِ ( سورة البينة: 5)

اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں دین کو اسی کیلئے خالص کرتے ہوئے بالکل یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی مقام دین ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الَّذِينَ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ (سورة الزمر : 3)

پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں ، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے خبر دارا اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے رسول اللہ سلام نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ، وَلَا إلَى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ “

بے شک اللہ تعالیٰ تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کی طرف دیکھتا ہے۔“ صحیح مسلم: 2564
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتَغِي بِهِ وَجْهُهُ

بلاشبہ اللہ تعالی صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا گیا ہو اور اس عمل سے اللہ کی رضا ہی مقصود ہو۔
سنن النسائي : 3140 قال الألباني: صحيح

محبت الہی اور خشیت الہی

یہ دونوں شرائط بھی ضروری ہیں کیونکہ ہر وہ عمل جو خشیت الہی اور محبت الہی پر مبنی نہ ہو، وہ عبادت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حد درجے کی محبت جو عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو ، مطلوب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحب اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواأَشدُ حبا لله ( سورة البقرة : 165)

ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حد درجے کی محبت جو عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو، مطلوب ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبْ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ( سورة البقرة: 165)

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے ساتھ اور وں کو شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیئے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔

اتباع سنت

اعمال کی قبولیت میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو۔ اگر ہمارا کیا ہوا کوئی عمل سنت کے مطابق نہ ہوا تو قابل قبول نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌ و

جس نے بھی کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں تو وہ عمل مردود ہے”۔ صحیح مسلم: 1718

چنانچہ سیدنا انس بن مالک رض بیان فرماتے ہیں:

جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنَا أَخْبَرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُوهَا، فَقَالُوا، وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أَصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا

عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ نبی کریم صلی علیہ وسلم اس کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کرلوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا:

أَنتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأَفْطِرُ، وَأَصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي

کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ صحیح البخاري: 5063

ریا کاری سے اجتناب

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نیک اعمال قبول ہوں ۔ تو اس کی ایک شرط یہ ہے کہ ہمارے اعمال میں ریا کاری نہ ہو۔ ہمارے سارے اعمال ریا کاری کے بغیر ہوں۔ کیونکہ ریا کاری سے کیا گیا کوئی بھی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نے رسول اللہ علی ایم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأَتِي بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ : فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ : قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ : كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ : جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى ألقي في النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأْتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا،

قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہوگا جسے شہید کر دیا گیا۔ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ شخص ) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی ، اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا ، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی ، اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے ( یہ ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے ، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا ، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا ؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا : تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے ( یہ سب ) اس لیے کیا تا کہ کہا جائے ، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

قَالَ : فَمَا عَمِلتَ فِيهَا؟ قَالَ : تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِيِّ، فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِي فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأْتِي بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ : فَمَا عمِلْتَ فيها؟ قَالَ : مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ : كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ : هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِي فِي النَّارِ
صحیح مسلم: 4923

اس کا معنی یہ ہے کہ عمل صالح کی اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کی جائے ۔ احادیث نبویہ میں احتساب کا ذکر کثرت سے آتا ہے ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا ، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ صحیح البخاری :37

اسی طرح سید نا ابو ہریرہ علی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان میں روزے رکھے، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ صحیح البخاری: 38

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے لیلتہ القدر کا قیام کیا، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ تو ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جو بھی کام کرنا چاہیے اس میں ثواب کی نیت ہونی چاہیے۔

صدق في العمل

صدق في العمل یعنی انسان اپنے عمل میں سچا ہو ۔ صدق کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کمال عزم کے ساتھ اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے نیک عمل کرے جس عمل پر ابھارنے والی چیز صرف اللہ کی رضا ہو اور اس عمل سے دنیاوی امور یا نفسانی خواہشات کا تعلق نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (سورة الحشر: 8)

ان فقراء مہاجرین کیلئے ہے کہ جو اپنے گھروں اور اموال سے نکال دیئے گئے کہ وہ اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی بچے لوگ ہیں.

اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اللہ کی کتاب کا تاثر قبول کرنا

مومن اللہ سے ملاقات کا شوق اور اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کی کتاب سے متاثر ہونے کا مطلب ہے کہ یہ اچھی طرح کتاب الہی میں جو حکم ہے اس کی اتباع اور پیروی میں سعادت ہے اور اس کی مخالفت میں ہلاکت ہے۔ غیر اللہ سے متاثر ہو کر کوئی عمل کرنا، مثلاً کوئی شخص نیک عمل کرتا ہے لیکن اللہ کاحکم سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی پارٹی، فرقہ، امام ، پیر ومرشد وغیرہ سے متاثر ہوکر تو یہ کسی بھی طرح اعمال صالحہ قرار نہیں پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

قُلْ هَلْ ننبئكُم بِالْأَخسَرِينَ أَعْمَالاً الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزُنًا (سورة الكهف : 103 / 105)

آپ فرمادیجئے: کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتلا میں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام کر رہے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا پس ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ۔ اس لئے ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گئے۔

حرام کاموں سے اجتناب

قبولیت عمل کے لیے حرام کام سے اجتناب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا:

يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حرام، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامَ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟

ایک شخص دور دراز کا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے ، اے رب ! اے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام ہوتا ہے ، اس کا پینا حرام ہوتا ہے اس کا لباس حرام ہوتا ہے اور حرام ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہوتی ہے تو اس کی دعا کہاں قبول ہوگی ؟ صحیح مسلم: 1015

گناہوں کو چھوڑ دینا

بہت اچھاہ ہوگا اگر نیک کام کرنے سے پہلے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگ لی جائے، کیونکہ گناہوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ نیک کام قبول نہیں فرماتے ، جیسا کہ ارشاد ہے:

قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ

(سورة- کہہ دو تم خوشی سے خرچ کرو یا نا خوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، بے شک تم نافرمان لوگ ہو
التوبة: 53)

حقوق العباد کو ادا کرنا

حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بہت ضروری ہے، یہ بات رسول اللہ کی ایک حدیث مبارکہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ کرام رض سے پوچھا :

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَّا دِرْهُمْ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِس مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَمَّمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأكل مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطْرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرح فِي النَّارِ

تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ بھی ہر نے کہا ہم تو مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ یا مال ومتاع نہ ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نمازیں روزے اور زکاۃ و خیرات لے کر آئے گا لیکن اس حال میں آئے گا کہ کسی فلاں کو اور کچھ اس فلاں کو دے دی جائیں گی، حق والوں کا حق پورا ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان ( حق والوں ) کی خطا میں اس پر ڈال کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا. صحیح مسلم: 2581
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت میں جانے کے لیے صرف حقوق اللہ کی ادائیگی ہی ضروری نہیں بلکہ حقوق العباد کا بھی خیال کرنا ہوگا۔

نیک اعمال کے بعد دعا کا اہتمام کرنا

اعمال صالحہ کی تو فیق، اسکی قبولیت اور حفاظت کیلئے دعاؤں کا اہتمام کرنا نہایت ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے بعد پڑھنے کی جو دعا سکھائی ہے وہ اعمال صالحہ کیلئے جامع دعا ہے۔ چنانچہ سید نا معاذ بن جبل رض سے روایت ہے رسول اللہ کی تعلیم نے انکا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : اے معاذ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا نہ چھوڑنا:

اللَّهُمْ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ

“اے اللہ میری مدد کر اپنے ذکر و شکر کرنے پر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر.

اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کی دعا:

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ

(سورة النمل: ”اے میرے پروردگار! مجھے ہمیشہ توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر یہ ادا کر سکوں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔)

بیت اللہ کی تعمیر کے بعد سید نا ابراہیم علیہ السلام کی دعا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السميعُ الْعَلِيمُ (سورة البقرة : 127)

اد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا ر ہے تھے. تو دونوں دعا کر یں کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے ( یہ خدمت) قبول فرمالے، بیشک تو خوب سننے والا دب جانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور انہیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں