قرآن کا پیغام
قرآن کا پیغام
اللہ تعالی کو راضی کرنا سب سے ضروری ہے
وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( سورۃ النور :31)
“اور اے مومنو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو”
امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں انسان کی زندگی کا سب سے بہترین دن وہ ہے جس دن وہ اللہ کے سامنے سچی توبہ کرتا ہے. ایک روایت میں ہے جب بندہ اللہ تعالی سے توبہ کرتا ہے تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ فلاں بندے نے اپنے رب سے صلح کر لی ہے جب انسان کو کوئی مخلص دوست ہو اور پھر دونوں کے درمیان کوئی ناراضگی ہو جائے تو انسان طرح طرح سے اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ دوبارہ اس سے ان کے تعلقات خوشگوار ہو جائیں اللہ تعالی اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کو راضی کیا جائے اس لیے جب تم میں سے کوئی ایسا کام ہو جائے جس سے تمہارے دل میں جو اللہ تعالی کی محبت ہے اس کی وجہ سے پریشانی پیدا ہو جائے تو اپنے رب کو بھی طرح طرح سے راضی کرنے کی کوشش کرو جیسے دنیاوی محبوب کو راضی کرتے ہو صدقہ دے دو کبھی استغفار کرو کبھی نفل نماز پڑھو اور کبھی تلاوت قران مجید کرو اچھے انسان کو جب کوئی راضی کرے تو وہ راضی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے حالانکہ وہ ارحم الراحمین ہے
اللہ تعالی سے اچھا گمان رکھیں:
قرة عين لي ولك.( سورة القصص :9)
“یہ بچہ میری اور تمہاری انکھوں کی ٹھنڈک ہے”
یہ بات سید اسیہ مذاہب نے اپنے شوہر فرعون کو سیدنا موسی علیہ السلام کے بارے میں کہی تھی اس بات کے جواب میں فرعون نے کہا تھا یہ بچہ تمہارے لیے انکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو مجھے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
اس ذات کی قسم جس کے نام کا حلف لیا جاتا ہے اگر فرعون بھی یہ مان لیتا کہ موسی علیہ السلام اس کے لیے انکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے جیسا کہ اس کی بیوی حضرت اسیہ نے کہا تھا تو اللہ تعالی اس سے بھی ویسے ہی ہدایت عطا فرما دیتا جیسا کہ اس کی بیوی کو ہدایت عطا فرمائی لیکن اللہ تعالی نے فرعون کو ہدایت سے محروم رکھا.
بہت سے معاملات میں ائندہ کے فیصلے اپ کی باتوں پر اٹکے ہوتے ہیں اس لیے اچھائی کا گمان رکھا کریں اپ کو اچھائی ہی ملے گی جو شخص کوئی ملازمت ملتے ہی سمجھتا ہے کہ اس کے لیے منہوس ثابت ہوگی تو یقینا وہ ملازمت اس کے لیے منحوس ہی بن جاتی ہے جو شخص شادی کرتا ہے اور دل میں یہ بات بٹھا لیتا ہے کہ میں نے تو بڑے نقصان کا سودا کیا تو یقینا ایسا ہی ہوگا جیسا اس نے سوچ رکھا ہے اپنی سوچ اپنے گمان اور اپنی بات کو اچھا بناؤ کیونکہ کبھی انسان صرف اپنی زبان کی وجہ سے ہی مصیبت میں پھنس جاتا ہے.
اکثر لوگوں کے حالات یہ ہیں:
قل الحمد لله بل أكثرهم لا يعقلون. (سورة العنكبوت:63)
“کہہ دیں تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے”
اگر اپ دیکھیں کہ قران مجید میں اللہ تعالی نے اکثر انسانوں کے بارے میں کیا صفات بیان فرمائی ہیں تو اپ کو پتہ چلے گا کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا:
لا یعلمون وہ جانتے نہیں ہیں
لا یشکرون وہ شکر ادا نہیں کرتے
لا یعقلون وہ عقل سے کام نہیں لیتے
اس کے مقابلے میں ارشاد باری تعالی ہے:
وقليل من عبادي الشكور.(سبأ :13)
“اور میرے بندوں میں بہت کم شکر ادا کرنے والے ہیں”
اس لیے اپ لوگوں کے پیچھے زیادہ نہ پڑھا کریں ان کے جو حقوق اپ کے ذمے ہیں وہ ادا کیا کریں اور اپنے حق اللہ تعالی سے مانگیں.
امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا انسان لوگوں کی برائی سے کیسے بچ سکتا ہے حضرت حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا اپنا مال ان پر خرچ کریں لیکن ان کے مال سے کچھ نہ لیں اور وہ اپ کو تکلیف دیں تو اپ انہیں تکلیف نہ دیں امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا اے حاتم یہ تو بہت مشکل ہے حاتم رحمہ اللہ نے کہا پھر شاید ہی اپ بچ سکیں.