کیا ماہ صفر منحوس ہے ؟

کیا ماہ صفر منحوس ہے ؟

کیا ماہ صفر منحوس ہے ؟

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے۔ اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اور اس دین مبین میں خرافات و بدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے غلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دیگر مہینوں کی طرح ماہ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے غلط باتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے صفر المظفر “ کہا جاتا ہے۔

صفر کی وجہ تسمیہ

امام علی بن محمد علم الدین السخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سمي بِذَلِكَ لِخُلُو بُيُوتِهِمْ مِنْهُ حِينَ يَخْرُجُونَ لِلْقِتَالِ وَالْأَسْفَارٍ، يُقَالُ : صَفِرَ الْمَكَانُ: إِذَا خَلَا

اہل عرب ( اس ماہ میں ) اپنے گھروں سے جنگ و جدال اور سفروں کے لئے نکل جاتے تھے اور ان کے گھر خالی ہو جاتے تھے، اسی لئے اس ماہ کو صفر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جب کوئی جگہ خالی ہو جائے تو کہا جاتا ہے: “صفر المکان”۔ تفسير ابن کثیر بتحقیق عبد الرزاق المهدي : 347/3

نحوست اور بدشگونی کسے کہتے ہیں؟

نحوست اور بدشگونی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی چیز یا مل کو نفع ونقصان کا مالک سمجھنا۔ مثال کے طور پر:

سفر کرنے سے پہلے کالی بلی کے نظر آجانے سے یہ سمجھنا کہ یہ سفر میرے لیے سود مند نہیں ہوگا۔

دکان کھولنے پر اگر پہلے شخص نے ادھار کر لیا تو میرا سارادن برکت سے خالی گزرے گا۔

ماہ صفر میں کسی بھی خیر کا کام محض اس لیے شروع نہ کرنا کہ یہ مبینہ خوں ہے۔ وغیرہ ۔

ماه صفر جاہلیت کے عقائد کی روشنی میں ماہ صفر کے تعلق سے عرب جاہلیت کے ہاں دو غلط باتیں پائی جاتی تھیں: اس ماہ کو وہ آگے پیچھے کر دیا کرتے تھے اور اعلان کروایا کرتے تھے کہ اس سال صفر کا مہینہ پہلے اور محرم کا مہینہ اس کے بعد ہو گا۔ ان کے اس عمل کی تردید کرتے ہوئے اور اسے کفر قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ في الكُفْرِ (سورة التوبة : 37)

مہینوں کو آگے پیچھے کر دینا، کفر میں زیادتی ہے۔

اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے۔ جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَا طِيرَةَ وَ لَا صَفَرَ

کوئی بدشگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے“۔ (صحیح البخاري: 5757 سنن ابی داؤد: 3911)

یہ بدشگونی کا عقیدہ قریبا ہر دو سے چلا آرہا ہے،جیسا کہ علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے اپنے زمانے میں ہی کہا تھا

وكثير من الجهال يتشاءم بصفر وربما ينهى عن السفر فيه والتشاؤم بصفر هو من نجنس الطيرة المنهى عنها

بہت سے جاہل ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور بسا اوقات وہ اس مہینے میں سفر کرنے سے رکے رہتے ہیں اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنا، یہ بدشگونی کی جنس سے ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (لطائف المعارف فيما المواسم العام من الوظائف ص 74)

کیا ماہ صفر منحوس ہے

اس مہینے کی بابت لوگوں میں مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی:

لا عدوى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةً وَلَا صَفَرَ

اللہ کی مشیت کے بغیر ) کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بدشگونی لینا جائز ہے، نہ الو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ ماہ صفر کی نحوست “۔ (صحیح البخاري: 5757 سنن ابی داؤد:3911)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں نفی اور نہی دونوں معانی صحیح ہو سکتے ہیں لیکن نفی کے معنی اپنے اندر زیادہ بلاغت رکھتے ہیں کیوں کہ نفی طیرہ (نحوست ) اور اس کی اثر انگیزی دونوں کا بطلان کرتی ہے، اس کے بر عکس نبی صرف ممانعت دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث سے ان تمام امور کا بطلان مقصود ہے جو اہل جاہلیت قبل از اسلام کیا کرتے تھے۔

ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں ماہ صفر کو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا تطیر ( بدشگونی) کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں ۔ اہل جاہلیت یعنی مشرکین ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے، لہذا اس حدیث میں ان کے اس عقیدہ اور قول کی تردید کی گئی ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
اہل جاہلیت ماہ صفر کو منحوس سمجھتے اور کہتے کہ یہ منحوس مہینہ ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس نظریے کو باطل قرار دیا۔

بد شگونی اور نظریہ اسلام

اس حوالے سے چند باتیں قابل ذکر ہیں:

پہلی بات:

سب سے پہلے اس بات کا یقین ضروری ہے کہ ہے انسان نے جو بھی عمل کرنا ہے وہ رب تعالیٰ نے پہلے سے لکھ رکھا ہے محض کسی چیز کے دیکھ لینے سے یا کوئی خاص دن یا مہینے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نبرأها (سورة الحديد: 22)

کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے
پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔

دوسری بات:

انسان کے لیے اصلا اگرنحوست کسی چیز میں ہے تو وہ اس کے اپنے اعمال بد ہیں، جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشورى:30)

جو مصیبت بھی تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے کیے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے“۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (سورة التوبة: 51)

اے پیغمبر کہ دیجیے میں صرف اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا اللہ جل شانہ نے ہماری تقدیر میں ازل سے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا حامی وناصر ہے ، اسی ذات پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔
تیسرے مقام پر فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْها وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

سورة فصلت کیونکہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتا“۔
چوتھے مقام پر فرمایا:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ (سورة الروم:41)

زمین اور سمندر میں فساد ظاہر ہونا انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ جس نے نیک کام کیا تو اپنے فائدہ کے لیے کیا ، اور جس نے برائی کی تو اس کا وبال اسی پر ہے.

تیسری بات:

کسی دن یا مہینے کو منحوس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ( نعوذ باللہ) ہم اللہ کو نحوس کہ رہے ہیں، کیونکہ مہینہ زمانہ ہے اور زمانہ کو برا کہنا درحقیقت اللہ کو برا کہنا ہے۔

قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلب: اللَّيْلَ وَالنَّهار

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو بدلتا رہتا ہوں۔ (صحیح بخاري : 4826)

اس حدیث قدسی سے معلوم ہوا ہے کہ زمانے کو برا بھلا کہنا منع ہے ۔ اگر ماہ وغیرہ میں کوئی نحوست ہوتی تو اللہ رب العالمین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور وضاحت فرما دیتے جیسا کہ بارہ مہینوں سے چار مہینوں کی حرمت کو واضح فرمایا ہے۔ چوتھی مجس نے نیک کام کیا تو اپنے فائدہ کے لیے کیا، اور جس نے برائی کی تو اس کا وبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

چوتھے مقام پر فرمایا:

ظهرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ (سورة الروم : 41)

زمین اور سمندر میں فساد ظاہر ہونا انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
چوتھی بات:

حالات جیسے بھی ہوں، اللہ تعالیٰ پر توکل مضبوط کر لیجئے اور یہ عقیدہ بنا لیجئے کہ دنیوی ظاہری اعمال میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو جائے۔ اللہ کے حکم کے بغیر میرا بدن تو کیا سر کا ایک بال بھی نہیں حرکت کر سکتا۔ یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو سمجھاتے ہوئے فرمایا:

اعْلَمُ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدکتب اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ، رُفعت الأقلام وَجَفَّتْ الصُّحُفُ

جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تھیں کچھ فائدہ پہنچا میں وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچا ئیں تو وہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔ قلمیں اٹھالی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں“۔ سنن الترمذي: 2516، قال الألباني: صحیح

اپنا تبصرہ بھیجیں