مایوس کن حالات میں امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے

مایوس کن حالات میں امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے

مایوس کن حالات میں امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے

اللہ تعالی بنی نوع انسان کو اپنی عبودیت و بندگی کیلئے معرض وجود میں لایا ہے۔ موت وحیات کی تخلیق باری تعالی نے اس لئے کی ہے تا کہ وہ آزمائے کہ کون زیادہ بہتر عمل کرتا ہے، کون اس کے امتحانات و ابتلاءات میں کامیاب و سرخ رو ہوتا ہے اور کون ناکام و نامراد؟ انسانی زندگی کو اللہ تعالی نے خوشی وغم کا سنگم بنایا ہے۔ اس میں امید ، دکھ سکھ قلق و راحت اور نشیب و فراز کا لامتناہی سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔ حلاوت ایمان سے آشنا افراد سکھ دیکھ کے سارے لمحات کو خندہ پیشانی کے ساتھ گزار لیتے ہیں ۔ مسرت و شادمانی کے وقت اللہ کا شکر بجالاتے ہیں اور حزن و ملال کے موقعے پر صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ دولت ایمان کی شیرینی سے محروم اشخاص خوشی کے لحظات سے تو خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن غم کا ناگوار سایہ جب ان کی زندگی پر پڑتا ہے تو تلملا اٹھتے ہیں۔ ان کے لب نا شکر گزار پر زندگی سے نالانی و پریشانی کے گلے شکوے رقص کناں ہو جاتے ہیں۔ وقتی مصیبت پر صبر وثبات کا مظاہرہ کرنے کی بجائے پاس وقنوط کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی وسعت رحمت سے نا امید ہو کر آخرت کو بر باد کرنے کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کو بھی موت سے بدتر اور جہنم زار بنا لیتے ہیں۔ ملک کے معاشی اور سیاسی حالات ہمارے اندر مایوسی کو پیدا کر رہے ہیں، ہر کوئی ایک دوسرے سے شکوے کر رہا ہے، اپنے مستقبل کو شدید خطرات کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ جب کہ ہم بھول گئے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے امتی ہیں، ہم مسلمان ہیں، ہم بہترین امت ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے حق میں دعائیں ہیں ، اللہ نے دنیا کا بہترین خطہ ہمیں عطا کیا، ہمیں مذہبی اور مسلکی آزادی کی نعمت سے نوازا۔ مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے؟

اللہ تعالی کی وسعت رحمت سے لاعلمی

اللہ تعالی کی وسیع رحمت، بے پایاں احسانات و انعامات اور لا محدود اکرامات و نوازشات سے جہالت و لاعلمی کی بنا پر بندہ مصائب و آلام شدائد و مشکلات اور آفات و بلیات کے وقت نا امیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ کی ذات پاک قادر مطلق ہے وہ جو کام کرنا چاہے اس کیلئے اسے صرف لفظ ” کن ہی کافی ہے۔ اگر وہ کسی کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو نجات دینے والا بھی وہی ہے۔ اس کا شامیانہ رافت تمام دنیا پر سایہ فگن ہے۔ اس کی ردائے رحمت نے کل عالم کو اپنی وسعتوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کا فرمان ہے:

رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الأعراف : 156)

میری رحمت تمام چیزوں پر محیط ہے۔
لاریب اس کی رحمت ہمہ گیر ہے اور اس عالم آب و گل میں اس کا فیضان اس قدر عام ہے کہ اس کو حیطہ شمار میں لانا اور اس کی وسعتوں کی پیمائش کرنا ممکن نہیں۔ اس لئے مصیبت زدہ انسان کو چاہیئے کہ وہ اللہ کی وسعت رحمت پر کامل یقین رکھے اور اس کی ہمہ گیر رحمت کی صحیح معرفت حاصل کرنے کیلئے بھر پور تنگ و تاز کرے۔

خوف الہی میں غلو و افراط :

بندہ تقاضائے بشریت کسی عظیم گناہ یا شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے نہاں خانہ دل میں اپنے جرم و گناہ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دلی اعتبار سے پشیماں ہو کر گناہوں سے تائب بھی ہونا چاہتا ہے۔ لیکن ود اپنے گناہ کی سنگینی اور جرم کی شدت کی بنا پر اللہ کے خوف میں غلو آمیزی و افراط کا شکار ہوکر یاس و قنوط میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کیلئے بخشش کے دروازے مسدود ہو چکے ہیں۔ چنانچہ امام ابن قیم فرماتے ہیں: کہ کوئی شخص اللہ کا اس قدر غلو آمیز ا نہ خوف نہ کھائے کہ خوف کی شدت اسے قنوط میں مبتلا کر دے اور اللہ کی رحمت سے نا امید بنادے۔ اس لئے کہ ایسا خوف مذموم ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کوفر ماتے ہوئے سنا کہ خوف الہی کی حد یہ ہے کہ وہ تمہیں معاصی وسیئات کے ارتکاب سے روک دے۔ خوف الہی کی اس حد کو تجاوز کرنا درست نہیں۔ نیز ایسا خوف جو مایوسی میں مبتلا کر دے دراصل اللہ کی رحمت کے ساتھ بے ادبی ہے (مدارج السالكين: 371/2)

قنوطی افراد کی صحبت

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور اسے اپنے رب پر بھروسہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ اس پر نظر کرم ضرور فرمائے گا۔ دیر ہی سے صحیح اس کے سر پر منڈلانے والی مصیبت کی مہیب گھٹا ضرور چھٹے گی۔ لیکن اسے ایسے لوگوں کی معیت و صحبت میسر ہوتی ہے جو ہمیشہ یاس و قنوط کی وادیوں میں بھٹکنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ کی رحمت و مغفرت کا ذکر کم اس کے غیظ و غضب کا ذکر ہمیشہ ان کے لبوں پر رہتا ہے۔ نتیجتا اس قنوطیت زدہ صحبت کے برے اثرات اس کے نقشہ ذہن پر دیر سویر مرتب ہو ہی جاتے ہیں۔

قلت صبر اور حصول نتائج کی جلدی

مصائب و آلام پر صبر و حمل انسان کے اندر امید کی کرنیں روشن رکھتا ہے۔ اس کے اندر شدائد ومشکلات سے نبرد آزمائی کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ صابر و تحمل شخص اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے اور نہ ہی نتائج کے حصول کیلئے جلدی بازی سے کام لیتا ہے۔ کیونکہ جلدی بازی پیمانیہ صبر کو بہت جلد لبریز کردیتی ہے۔ پھر انسان صبر کا دامن ترک کر کے شکستہ خاطر ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر نا امیدی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔ اسی لئے ایک حدیث میں قبولیت دعا کی جلدی بازی سے منع کیا گیا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ علی نظر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا

يُستجاب لأحدكم ما لم يعجل، يقول : دعوت فلم يستجب لي

تم میں سے کسی کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے، کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔(صحیح البخاري: 6340)

دنیا سے دل کی حد سے زیادہ وابستگی

جب انسان کو دنیا کے مال و منال اور اسباب تعیش و سے بہت زیادہ لگاؤ ہوتا ہے تو راحت طلبی اس کا لازمہ حیات بن جاتی ہے۔ ہمیشہ اسے سکون واطمینان صحت و تندرستی، پر از اشتیاق طرز حیات اور پرشکوہ اسلوب زندگی کی خواہش ہوتی ہے۔ راحت میں اترانا اور مصیبت میں نا امید ہونا اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يَقْنَطُونَ (الروم : 36) اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہونچے تو ایک دم وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں۔ مایوسی کے بعض مضر اثرات

وإذا أذقنا الناس رحمةٌ فَرِحُوْا بِها وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيَهُمْ إِذَا هُمْ

نا امیدی کافروں وگمراہوں کا شیوہ ہے:

ایک مؤمن بندہ پر خواہ لاکھ شدائد و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں ، اس کے پائے ثبات پر تزلزل پیدا نہیں ہوتا۔ سخت سے سخت حالات میں بھی وہ صبر و رضا کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اسے اپنے رب کریم کی وسیع و ہمہ گیر رحمت پر کامل یقین ہوتا ہے۔ وہ کبھی نا امیدی کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتا کہ نا امیدی تو محض کافروں و گمراہوں کا شیوہ ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا القَوْمُ الطَّالُونَ (الحجر: 56)

کہا اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔ نا امیدی اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب ہے:
اللہ کی وسعت رحمت دیکھئے کہ اس سے صرف مؤمن و صالح افراد ہی فیضیاب نہیں ہور ہے بلکہ رحمت الہی کی کشادگی سے صالح و فاسق اور مؤمن و کافر دونوں ہی محظوظ ہورہے ہیں ۔ جدھر دیکھو رحمت الہی کے فیوض ہی نظر آئیں گے، اس لئے کہ بارگاہ خداوندی سے فقط رحمت ہی کا صدور و ظہور ہوتا ہے۔ اس کا فرمان ہے:

كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (الأنعام : 120)

اللہ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ رحمت فرمائے۔ بنابریں اگر کوئی شخص اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے تو گویا وہ ان آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کا مکذب منکر قرار پاتا ہے جن میں رحمت الہی کی وسعت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نا امیدی کفر و شرک اور ہلاکت وضلالت میں واقع ہونے کا سبب ہے: اللہ کی رحمت کے فیوض سے نا امید شخص اپنی توحید کی حفاظت نہیں کر پاتا ہے۔ اپنی حرماں نصیبی پر افسردہ خاطر ہو کر دیکھ و درد کا درماں کفر و شرک کے اڈوں میں تلاشنے لگتا ہے۔ حالانکہ اسے لامحالہ اتناہی مل سکتا ہے جتنا اس کے نوشتہ تقدیر میں ہے۔ اس لئے اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا اپنے آپ کو ہلاکت و بربادی کی کھائی میں دھکیلنا ہے۔ اور اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ہلاک کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:

وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَهْلُكَةِ (البقرة : 195)

اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ محمد بن سیرین املئے اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

الإلقاء إلى التهلكة هو القنوط من رحمة الله

یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے۔ (معالم التنزيل : 217/1)

اذکار و عبادات میں کاہلی

نا امیدی کے مضر اثرات جب کسی کے ذہن و دماغ کے پردہ اسکرین پر مرتب ہوتے ہیں تو وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں بھی فروگذاشت کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات اعمال کے فوائد سے ناامید ہو کر طاعت و بندگی سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔ ابن حجر ہیتمی اللہ فرماتے ہیں

القائط آئس من نفع الأعمال، ومن لازم ذالك تركها

یعنی مایوس آدمی چونکہ اعمال کے فائدے سے نا امید ہوتا ہے، اس لئے وہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ (الزواجر: 122/1)

معاصی و سیئات پر استمرار و مداومت

ابوقلابہ اللہ فرماتے ہیں

الرجل يُصِيبُ الذنب فيقول : قد هلكت ، ليس لي توبةٌ، فَيَيأس من رحمة الله، و ينهمك في المعاصي فنهاهم الله تعالي عن ذالك، قال تعالى : [ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن روح الله إلا القوم الكافرون] (يوسف : 87)

جب آدمی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ہلاک ہو گیا، میرے لئے تو بہ نہیں، چنانچہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر گناہوں میں ( مزید ) منہمک ہو جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے لوگوں کو نا امیدی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ” یقین رب کی رحمت سے کا فرلوگ ہی نا امید ہوتے ہیں۔ (معالم التنزيل : 217/1)

ہم مایوسی کیسے دور کر سکتے ہیں؟

اللہ تعالی کے اسماء و صفات پر ایمان
بندہ اگر اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر مکمل ایمان وایقان رکھے، ان کے معانی و مطالب پر تدبر و تفکر کرے، اور ان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے زندگی گزارے تو وہ کبھی بھی نا امیدی کی وادی میں نہیں بھٹک سکتا۔ کوئی شخص اگر کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے اللہ تعالی کی صفت رحمت کو یاد کر کے اس سے رحم و کرم طلب کرنا چاہیئے کہ وہ رؤف ہے، رحمن ہے، رحیم ہے۔ اس کے رحم وکرم کا شامیانہ تمام دنیا پر سایہ فگن ہے، یقیناً اس پر رحم فرمائے گا۔ کوئی بندہ کسی جرم و گناہ کا ارتکاب کر کے پشیماں ہے تو اسے اللہ تعالی کی صفت مغفرت کو یاد کرنا چاہیئے کہ وہ غفور ہے، غفار ہے، تو اب ہے، وہ اپنے بندوں کی تو بہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اس کی تو بہ کو یقیناً شرف قبولیت عطا کرے گا۔ اگر کوئی آدمی مہلک ولا علاج مرض میں مبتلا ہے، دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ پھر بھی اسے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ جس نے بنی نوع انسان کو علم طب سے روشناس کیا ہے، اس کے پاس تمام طرح کے امراض عویصہ کا علاج موجود ہے۔ اس نے کوئی ایسی بیماری ہی نہیں پیدا کی ہے جس کا علاج نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ طبابت کی رسائی وہاں تک نہیں ہو سکی ہے۔ الغرض ہر درد کا درماں، ہر مصیبت سے رستگاری اللہ کے دربار میں ممکن ہے، بشرطیکہ بندہ مکمل ایمان ویقین کے ساتھ اس کا طلب گار ہو۔

اللہ سے حسن ظن

نا امیدی کے گرداب سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ بندہ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ سے حسن ظن رکھے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ ہی اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم سلام نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:

أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه، ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملأ ، ذكرته في ملأ خير منه، وإن تقرب إلي بشير تقربت إليه ذراعاً، وإن تقرب إلي ذراعاً تقربت إليه باعاً وإن أتاني يمشي أتيته هرولة

میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جب مجھے وہ یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا م اپنے فوت شدہ چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا۔

مصائب و آلام کے وقت صبر و شکیبائی کا مظاہرہ

اللہ تعالی نے مصیبت کے وقت مایوس ہونے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے، جبکہ مصیبت پر صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اس مذمت سے مستثنی قرار دے کر انہیں مغفرت اور بڑے اجر کا حقدار گردانا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَئِن أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَا رَحْمَةٌ ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَؤُوْسٌ كَفُورٌ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاء بَعْدَ ضَرَّاء مَسَّتْهُ لَيَقُولُنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَلَى إِنَّهُ لَفَرِح فَحُوْرٌ إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (هود: 9 – 10 – 11)

اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی نا امید اور بڑا ہی نا شکر ابن جاتا ہے۔ اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھا میں اس سختی کے بعد جو اسے پہونچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں ، یقیناً وہ بڑا ہی اترانے والا شیخی خورہے۔ سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کیلئےبخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی۔

قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کرنا

جلدی بازی سے گریز کرتے ہوئے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کرنا بھی مایوسی سے بچنے کا بہترین علاج ہے۔ بارگاہ الہی میں وہی دعا مقبول ہوتی ہے جو اجابت کے یقین کے ساتھ کی گئی ہو، لا پرواہی اور بے توجہی سے مانگی گئی دعا قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ چنانچہ ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أدْعُو الله وَأَنتُمْ مُوْقِنُونَ بِالإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ لَا يَسْتَجِيْبُ دُعَاءاً مِنْ قَلْب غافِل لاہ “

نہ ہوں اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی ۔ اور جان لوکہ اللہ تعالی ہے پر واہ اور لہو و لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔(سنن الترمذی: 3479، قال الألباني: حسن)

جائز اسباب اختیار کرنا

اگر کوئی شخص کسی مرض یا مصیبت میں مبتلا ہے تو اسے چاہیئے کہ اس سے نجات پانے کیلئے ان معاون اسباب کو اختیار کرے جنہیں اللہ تعالی نے جائز قرار دیا ہے۔ کوئی مریض ہے تو ڈاکٹر سے اپنا علاج کرائے اور اللہ کی ذات سے شفایابی کی مکمل امید رکھے۔ مصیبت کے وقت نا امید نہ ہونے اور جائز اسباب اختیار کرنے کی اہمیت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ یعقوب ، یوسف علیہ السلام کی جدائی کے بعد پھر جب بنیامین کے تازہ صدمے سے دو چارئے تو انہوں نے کہا:

يا بَنِي اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُوسُفَ وَأَعِيْهِ وَلَا تَيْأَسُوْا مِنْ زَوْجِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ زَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُوْنَ (يوسف : 87)

میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش 12/14 اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ یقینا اللہ کی رحمت سے کا فرلوگ ہی ناامید ہوتے ہیں۔

دنیا سے بے رغبتی

نا امیدی کے بنیادی اساس میں سے ایک سبب دنیا کے مال و منال اور اسات حیات سے غلو آدمی نا امیدی کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب دنیا کے مال و منال اور اسباب حیات سے غلو آمیز وابستگی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی دنیاوی مرغوبات و ملذات کے فقدان پر اس قدر افسردہ ہو جاتا ہے جتنا نہیں ہونا چاہیئے ۔ اس بات کو اچھی طرح دل و دماغ کی گہرائیوں میں اتار لینا چاہیئے کہ للہ تعالی دنیا اپنے پسندیدہ و نا پسندیدہ ہر بندے کو دیتا ہے لیکن آخرت صرف اور صرف اپنے پسندیدہ ومحبوب بندوں کو ہی عطا فرمائے گا۔ آپ ذرا غور کریں کہ ہمارے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب و مکرم تھے، پھر بھی دنیا اور دنیا کے مرغوبات و ملذات سے اللہ تعالی نے آپ سلام کو دور رکھا۔ کتب احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی کئی دن آپﷺ نے فاقہ کشی میں گزار دیئے ۔

یاد رکھنے کی بات

اسباب کتنے ہی نا پید ہوں اور حالات کتنے ہی بگڑ جائیں مسلمان پھر بھی داعی خیر میں ہی رہیں گے؟ کیونکہ :

وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِين (الأعراف: 128)

انجام کار مومنوں کے حق میں ہی ہوگا۔

اس لیے اپنے بارے میں اللہ سے ڈرو، امت میں مایوسی اور افواہیں پھیلانے سے بچو ؛ کیونکہ یہ بھی حربی چالیں ہیں اور دشمن کی جانب سے مسلمانوں میں مایوسی پھیلانے کی تدبیر ہے۔ اس لیے نوید اور امید کا دامن نہ چھوڑو اللہ تعالی پر مکمل بھروسا رکھو، تم ہی غالب رہو گے، اللہ فرماتے

سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (الصافات: 171 – 173)

اور بلاشبہ یقینا ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے ہماری بات پہلے طے ہو چکی کہ یقینا انہی کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں