مبارک ثانی قادیانی کیس اور اس کا پس منظر

مبارک ثانی قادیانی کیس اور اس کا پس منظر

مبارک ثانی قادیانی کیس اور اس کا پس منظر

24 جولائی کو جو محفوظ فیصلہ سنایا گیا ہے۔اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی پہلے پس منظر دیکھیے.

7 مارچ 2019ء چناب نگر میں قادیانی نظارت تعلیم کے اہتمام قادیانی تعلیمی اداروں کی مشترکہ تقریب منعقد ہوئی، جس میں لڑکوں اور لڑکیوں میں مرزا محمود کی تفسیر صغیر تقسیم کی گئی۔ (یاد رہے کہ یہ وہ تحریف شدہ تفسیر صغیر ہے جس میں صحابہ ومحدثین اور چودہ سو سالہ امت مسلمہ کے مفسرین کی تفسیر کے خلاف تحریف کی گئی ہے۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے معجزات کا انکار کیا گیا ہے۔ )6دسمبر 2022 کو تحریف شدہ تفسیر صغیر کی تقسیم پر تھانہ چناب نگر میں اس تفسیر کے تقسیم کرنے پر مبارک ثانی پر 295b اور295c اور قرآن ایکٹ 2011 ءکےتحت مقدمہ درج کرایا گیا۔(مارچ 2019 تا نومبر 2022 تک کسی ملزم کو ایک سال بعد مبارک احمد ثانی قادیانی کو گرفتار کیا گیا۔اس کی گرفتاری پر قادیانیوں نے چناب نگر تھانہ پر حملہ بھی کیا ۔ جس پر کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
کیس سیشن کورٹ میں گیا ملزم پر فرد جرم عائد ہوئی، ایڈیشنل جج راجہ اجمل نے ستمبر2023 میں ضمانت خارج کردی۔ ضمانت کا کیس ہائی کورٹ لاہور میں گیا نومبر 2023 میں جسٹس فاروق حیدر نے ضمانت خارج کردی۔ ضمانت کا کیس سپریم کورٹ میں گیا، قادیانیوں نے ضمانت کی درخواست دی تو 6فروری 2024 کو ملزم مبارک احمد قادیانی کو ضمانت پر سپریم کورٹ نے بری کردیا۔ ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند ہوئی ، جس پر حکومت پنجاب ، اور مذہبی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔ جس پر سپریم کورٹ نے 26 فروری 2024 کو ملک کے اہم اداروں سے رائے طلب کی۔ جن میں سے بعض اداروں کے نام یہ ہیں:
جامعہ دار العلوم کراچی، جامعہ نعیمیہ، اسلامی نظریاتی کونسل، جامعہ سلفیہ، جامعہ امدادیہ، قرآن اکیڈمی، جامعہ محمدیہ بھیرہ، وغیرہ

28 مارچ 2024 کو نظر ثانی کیس کی تاریخ تھی جس میں عدالت نے کہا اداروں کی آراء آچکیں ہیں۔ لیکن ہم نے ابھی اس کو دیکھنا ہے۔ تین ہفتوں بعد دوبارہ سماعت ہوگی؛ دوبارہ 28مئی کو تاریخ سماعت کا اعلان ہوا لیکن سماعت نہ ہوسکی پھر 29 مئی کو سماعت ہوئی۔ سماعت تین رکنی سپریم کورٹ کے بینچ نے کی۔ جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ ، اور جناب جسٹس عرفان سعادت خان اور جناب جسٹس نعیم اختر افغان تھے۔

ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کے وکلاء اور لیڈران اس سماعت پر موجود تھے۔ وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے عدالتی حکم پر نظرثانی کے کیس پر ایک جامع رائے کئی صفحات پر لکھی، دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد تقی عثمانی، جامعہ نعیمیہ کراچی کے مولانا مفتی محمد منیب الرحمن، جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے حضرت مولانا محمد یٰسین ، جامعہ امدایہ فیصل آباد، قرآن اکیڈمی، ان پانچ اداروں نے متفقہ طور پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی رائے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دستخط کردئیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور دوسرے اداروں نے اپنی علیحدہ آراء جمع کرائیں۔ ان تمام اداروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ چیف جسٹس کا قادیانی مبارک احمد ثانی کیس کی ضمانت کا فیصلہ درست نہیں، تصحیح طلب ہے۔ گورنمنٹ پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل، مدعی کے وکلاء اور دیگر تیس کے لگ بھگ ادارے شخصیات جو نظر ثانی میں فریق تھے ۔ سب تحریری طور پر متفق تھے کہ عدالتی فیصلہ درست نہیں۔

مفتی محمد شیر خان نے عدالت میں اپنی بات کہی جو یہ ہے

*عوامی مقامات پر قادیانیوں کو تبلیغ وترویج کی اجازت نہیں، ایسا کرنا قانوناً جرم ہے، تومذہب کی تبلیغ وترویج کے بارے عدالتی فیصلہ واپس لینے پر سب مکتبہ فکر کے ادارے اور علماء متفق ہیں۔*
قادیانی پرائیویٹ طور پر اپنی چار دیواری یا عبادت گاہ یا گھر میں بھی اسلامی اصطلاحات یا اسلامی اعمال نہیں کرسکتے۔ جس سے ان کا مسلمان ہونا سمجھاجائے۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔ وہ گھر پر اپنے کفر کو اسلام کے نام پر پیش کریں۔ جب پتہ چلے تو قانون ان کے اس خلاف قانون اور خلاف اسلام راستہ کو روکے۔
کیونکہ
*مسجد ضرار منافقین کی پرائیویٹ جگہ اور پراپرٹی تھی علیحدہ چار دیواری تھی وہ اپنے کفر ونفاق کو اسلام کے نام پر وہاں علیحدہ چار دیواری میں استعمال کرتے تھے۔ مگر قرآن مجید نے ان کی اس ساری جدوجہد کو بیخ وبن سے ادھیڑ دیا* ۔

مسیلمہ کذاب اور اسکا گروہ

مسیلمہ کذاب کا گروہ اپنے حلقہ میں پرائیویٹ طور پر اپنے ہاں اذان، نماز، ذبیحہ، کلمہ، قرآن کا استعمال کرتا تھا۔ مگر سیدنا صدیق اکبر رض نے ان کی سازشوں کا قلع قمع کردیا۔
کیا کوئی پرائیویٹ طور پر خفیہ اپنا رزق کمانے کے نام پر ہیروئن رکھ سکتاہے؟
کیا کوئی پرائیویٹ خفیہ اپنے گھر میں بدکاری کا اڈہ چلا سکتا ہے؟
کیا کوئی خفیہ اپنے گھر میں خلاف قانون اسلحہ اسٹور کرسکتا ہے؟

نہیں نہیں!

تو پھر خلاف قانون اسلامی اصطلاحات واسلامی شعائر اپنے گھر میں بھی قادیانی استعمال نہیں کرسکتے۔(جیسے قربانی، اور تفسیر صغیر کا تقسیم کرنا)
جس پر عدالت عالیہ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو اب 24جولائی کو سنایا گیا۔ اب جو فیصلہ آیا ہے جس کو تمام مذہبی وسیاسی جماعتون اور وکلاء تنظیموں، طلباء تنظیموں نے مسترد کردیا ہے اور احتجاج کی کال دی ہے۔
فیصلے میں کچھ بھی نیا نہیں۔

نظر ثانی کیس میں چند بنیادی باتوں پر اعتراضات

نظر ثانی کیس میں جن بنیادی باتوں پر اعتراضات کئے گئے تھے انہیں مخاطب بنانے اور ان پر بات کرنے کی بجائے ایک مبہم فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔

مثلاً1:- فیصلہ کی شق نمبر 6 میں ہے۔ کہ مبارک ثانی پرپنجاب قرآن بورڈکی دفعہ 7 لاگونہیں ہوتی۔بلکہ اس کااطلاق ممنوعہ کتاب کے مصنف۔ناشر۔طابع۔یاریکارڈتیارکرنے والے پرلاگوہوتی ہے۔مبارک ثانی ملزم۔نہ۔مصنف نہ طابع وناشر ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ تفسیرصغیرکتب کی طابع اورناشرتوجماعت مرزائیہ ہے اس پرکوئی ایکشن لیاگیا؟اس پر اس قانون کا اطلاق ہوگا یا نہیں، اگر ہوگا تو کب؟

2:- شق نمبر7۔۔اس شق میں کہاگیا کہ 298-سی لاگونہیں ہوتاکیونکہ تفسیر صغیرمرزائی ادارہ میں تقسیم کی گئ ہے۔ گویاچیف جسٹس صاحب نے لائنسس دے دیا کہ مرزائی اپنے اداروں میں تحریف شدہ تراجم۔اورکفریہ عبارتوں پرمبنی لٹریچر مرزائی تقسیم کرسکتے ہیں۔اس پر 298سی لاگونہیں ہوگا۔حالانکہ یہ قانون بنا ہی انہیں کی ان حرکتوں کی وجہ تھا۔

3:- شق نمبر41میں طاہرنقاش بنام ریاست کاذکرکیا گیا کہ مرزائیوں کااپنی۔عبادت گاہ میں کلمہ۔طیبہ لکھنا۔توہین۔رسالت نہیں ہے۔اس پر 295:سی لاگونہیں ہوگا۔جج صاحبان کومعلوم ہی نہیں کہ قادیانی کلمہ میں محمدسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں بلکہ مرزاملعون کولیتے ہیں۔( قادیانی رسالہ کلمۃ الفصل کو دیکھا جاسکتا ہے )

4:- شق نمبر42: اس شق میں کہا گیا””عوامی سطح پرخودکومسلمانوں کے طورپرپیش نہیں کریں گے۔تاہم اپنے گھروں۔عبادت گاہوں ۔اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندرانھیں قانون کے تحت مقررکردہ “”معقول قیود”” کے اندر””گھرکی خلوت “” کاحق حاصل ہے۔یعنی اپنی حدود میں اسلامی شعائراستعمال کرسکتے ہیں۔ *(گویا جب گھر میں اسلامی شعائر استعمال کریں گے تو وہ مسلمان ہوں گے۔ اور جب باہر آئیں گے تو غیر مسلم ۔ جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ اور عقل کے بھی خلاف ہے عقل ایک ہی شخص کو گھر میں مسلمان اور گھر کے باہر غیر مسلم کس قاعدے کے مطابق مانیں؟؟)*
جس ذات اقدس کی عزت وناموس کے تحفظ کے بابت کیس تھا اسی ذات اقدس کے اقوال اور اس پر نازل ہونے والی کتاب سے غلط استدلال کیاگیا۔
۔ اس طرح قادیانیوں کو نوازنے کی کوشش کی گئی۔

ستمبر 2024 میں عدالتی فیصلہ

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ حالیہ مہینوں میں سپریم کورٹ کے لیے ایک حساس اور اہم قانونی مسئلہ رہا ہے۔
ستمبر 2024 میں سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کے
حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی، جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے۔ اس کیس کا تعلق احمدیہ جماعت کے ایک فرد مبارک احمد ثانی سے ہے، جن پر توہینِ مذہب کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
7 ستمبر 2024 کو، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مبارک احمد ثانی کی ضمانت برقرار رکھی، جو انہیں فروری 2024 میں دی گئی تھی۔ اس فیصلے نے مذہبی آزادی اور احمدیوں کے حقوق سے متعلق متعدد نکات کو دوبارہ زیر بحث لایا۔ فیصلے میں احمدیوں کے حقوق کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے تسلیم کیا گیا، اور ان پر عائد کردہ کچھ الزامات کو آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا . تاہم، عدالت نے فیصلے کے کچھ متنازعہ حصوں کو مذہبی حلقوں کے اعتراضات پر حذف کر دیا تھا، جس میں احمدیوں کے مذہبی حقوق سے متعلق اہم نکات شامل تھے۔
یہ کیس پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، اور 7 ستمبر 1974 کے فیصلے کے بعد ایک اہم قانونی پیشرفت سمجھی جا رہی ہے۔

اس مقدمے کی خاص بات

یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے احمدیوں کے آئینی حقوق پر زور دیا اور کہا کہ احمدی شہری ہونے کے ناطے، آئین کے تحت دیے گئے مذہبی آزادی کے حق کے مستحق ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگرچہ انہیں قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، لیکن ان کے مذہبی شعائر کی ادائیگی پر صرف اسی صورت پابندی لگائی جا سکتی ہے جب وہ خود کو مسلمان ظاہر کریں یا اسلامی اصطلاحات کا استعمال کریں۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ایک بار پھر پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کے موضوع پر بحث کو جنم دیا ہے، خاص طور پر احمدیہ جماعت کے حوالے سے جو ہمیشہ سے حساسیت کا شکار رہی ہے۔ عدالت نے اس فیصلے میں متعدد مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کو سنا اور کچھ متنازعہ نکات کو حذف کر دیا تاکہ فرقہ وارانہ تناؤ میں اضافہ نہ ہو۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب 7 ستمبر 1974 کے تاریخی فیصلے کے 50 سال پورے ہونے کو تھے ، جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اس لیے اس کیس کی سماعت اور اس کا فیصلہ پاکستان کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں