مختصر اور مکمل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
مختصر اور مکمل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله محمد واله و اصحابه اجمعين. اما بعد!
12 ربیع الاول عام الفیل بمطابق 22 اپریل 571ء کو حضرت آمنہ بنت وہب کے ہاں دو جہاں کے تاجدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی ۔ دادا عبد المطلب نے محمد ﷺ نام رکھا، ساتویں دن عقیقہ کیا اور اہل مکہ کی دعوت کی قریش کی شاخ بنو ہاشم سے تعلق کی بناء پر آپ ﷺ کا نسب تمام انساب سے اعلیٰ ہے۔ ذاتی نام محمد ﷺ اور احمد ہے صفاتی ناموں کی تعداد میں کئی اقوال ہیں مشہور یہی ہے کہ آپ ﷺ کے صفاتی نام 99 ہیں ۔ والد محترم عبد اللہ آپ کی ولادت سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے ۔ آپ ﷺ کی والدہ کے بعد سب سے پہلے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا پھر یہ سعادت حضرت حلیمہ رضي الله عنها کومل گئی اور چار سال تک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حضرت حلیمہ سعدیہ رضي الله عنها کے پاس پرورش پاتے رہے ۔ واقعہ شق صدر کے بعد حضرت حلیمہ آپ ﷺ کو آپ کی والدہ کے پاس لے آئی اور عرصہ دو سال تک والدہ کی صحبت میں رہے پھر جب آپ ﷺ چھ سال کے ہوئے تو والدہ بھی اس دنیا سے کوچ کرگئی ۔ پھر اپنے دادا عبدالمطلب کے پاس رہنے لگے ۔ آٹھ سال کے ہوئے تو آپ ﷺ کے داداجان بھی اس دنیا سے پردہ فرما گئے ۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ له چا ابو طالب کے پاس چلے آئے ۔ بارہ سال کی عمر میں شام کا پہلا سفر کیا ۔ میں سال کی عمر میں جنگ فجار میں شریک ہوئے اُس کے بعد معاہدہ حلف الفضول میں شرکت فرمائی ۔ حد درجہ امانت ، سچائی اور پرہیز گاری کی وجہ سے آپ ﷺ کا لقب صادق وامین پڑ گیا ۔ پچیس سال کی عمر حضرت خدیجہ کا سامان تجارت لے کر شام کا دوسرا سفر کیا ۔ واپسی پر حضرت خدیجہ سے نکاح فرمایا اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک پچپیں سال اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس تھی آپ ﷺ کی تمام اولاد ( قاسم عبد اللہ لقب طاہر وطيب ) ، زینب ، رقیه، ام کلثوم ، فاطمہ ) ماسوا ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے حضرت خدیجہ سے ہے ۔ پینتیس سال کی عمر میں حجر اسود کی تنصیب ب میں شریک ہوئے ۔
عبادت کرنے کی غرض سے آپ ﷺ غار حرا جایا کرتے تھے ماہ رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام غار حرا میں آپ ﷺ کے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آئے اور آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اس وقت آپ ﷺ کی عمر چالیس (40) سال تھی ۔ اولا اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی پھر قبائل قریش کو دعوت دینے کی غرض سے کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور یوں اعلانیہ دعوت کا آغاز ہوا۔ مشرکین مکہ جب آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے صحابہ کو اعلامیہ تبلیغ کی وجہ سے ستانے لگے، تو آپ ﷺ نے ارقم بن الارقم مخزومی کے گھر کوخفیہ دعوت و عبادت اور تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا مزید صحابہ کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جس کے نتیجہ میں 5 نبوی کو بارہ مرد اور چار عورتوں پر مشتمل ایک جماعت نے حبشہ کی جانب ہجرت فرمائی ۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد ایک اور جماعت نے (جسمیں بیاسی مرد اور اٹھارہ عورتیں شامل تھے ) حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ ان افراد کی واپسی کے لیے مشرکین نے نجاشی کو بہت سارے تحائف دیئے لیکن جعفر طیار کے مکالمہ نے مشرکین مکہ کو وہاں سے نامراد واپس لوٹا دیا ۔ 6 نبوی کو حضرت حمزه و حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا اور یوں آہستہ آہستہ اسلام پھیلتا گیا ۔ مشرکین کی جب تمام تدابیر کام نہ آئی تو انہوں نے تمام قبائل کو بنو ہاشم سے قطع تعلق پر آمادہ کر دیا ایک تحریر لکھوا کر کعبہ میں آویزاں کر دیا جس کے نتیجہ میں بنو ہاشم ایک گھائی میں محصور ہو کر رہ گئے ۔ تین سال کی محصوری کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک فریق کو خبر دی کہ وہ معاہدہ جو مسلمانوں کے خلاف مشرکین نے لکھوایا تھا ماسوا اللہ کے نام کے سب کو دیمک کھا چکا ہے ۔ جب مشرکین نے دیکھا کہ واقعی معاملہ اسی طرح ہے جس طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اطلاع دی ہے تو بنو ہاشم سے مقاطعے کے خاتمے کا اعلان کر دیا ۔ اس اعلان کے چند دن بعد ابو طالب بیمار ہو کر فوت ہو گئے پھر کچھ عرصہ بعد ام المؤمنین حضرت خدیجہ اس دنیا سے پردہ فرما گئی ان دو واقعات کی وجہ سے تاریخ میں اس سال ( 10 نبوی) کو عام الحزن کہا جاتا ہے ۔ اسی سالحضرت سودہ سے نکاح ہوا حضرت سودہ کے بعد حضرت عائشہ حضور ﷺ کی زوجیت میں آئی ۔ حضرت عائشہ کا نکاح شوال 11 نبوی کو ہوا ۔ اسی سال آپ تبلیغ دین کی خاطر طائف تشریف لے گئے اہل طائف نے آپ ﷺ کو بہت ستایا لیکن آپ ﷺ نے اُن کے حق میں بد دعا نہیں دی ۔ اس کے بعد شق القمر کا واقعہ پیش آیا غالباً انہی ایام میں معراج کا واقعہ پیش آیا ۔ جس زمانے میں اسلامی دعوت مکہ میں مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی تھی اُسی زمانے میں مکہ سے باہر کے کچھ لوگ ایمان لے آئے ۔ اولا مدینہ منورہ کے بارہ افراد نے موسم حج کے دنوں میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ پھر 13 نبوی کو موسم حج کے موقع پر 73 افراد کی ایک جماعت نے آپ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کو بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ تکمیل بیعت کے بعد حضور نے اُن میں سے بارہ نقیب مقرر فرمائے ۔ کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت شروع کر دی اور وہ وقت بھی آیا جب رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم ملا۔ آپ ہ ماہ ربیع الاول میں حضرت ابو بکر صدیق کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ دورانِ سفر غار ثور میں تین دن قیام فرمایا پھر مقام قبا میں شہرے اور وہاں ایک مسجد کی بنیا د رکھی ۔ جو اسلام کی پہلی مسجد ہے۔
مدینہ منورہ پہنچ کر باذن الہی حضرت ابوایوب انصاری کے ہاں قیام فرمایا اسی دوران مسجد نبوی ﷺ کی بنیاد رکھی گئی ۔ پھر دو سال بعد ماہ رمضان میںغزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا ۔ معرکہ بدر کے بعد غزوہ بنو قینقاع ، غزوہ سویق قبل کعب بن اشرف سر یہ قردہ کے واقعات پیش آئے پھر سن 3ھ کو اُحد کا مشہور معرکہ ہوا۔ اسکے بعد غزوہ حمراء الاسد ، واقعہ رجیع وئر معونہ ، غزوہ بنو نضیر اور بد ردوم کا معرکہ ہوا۔ پھر غزوہ خندق ، غزوہ بنوقریظہ غز وہ بنو المصطلق (غزوہ مریسیع ) کا وقوع ہوا، اس کے بعد 6 ھ کو صلح حدیبیہ ہوا صلح حدیبیہ کے فوراً بعد امراء اور بادشاہوں کے نام رسول اللہ اللہ نے خطوط بھیجے ۔ 7 کو رسول اللہ ﷺ یہودیوں کے مشہور قلعہ خبیر کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلنے والے ہی تھے کہ غزوہ قر دکا واقعہ پیش آیا اور اس واقعہ کے فوراً غزوہ خبیر کا وقوع ہوا جو بعد میں فتح خبیر میں تبدیل ہوا۔ رسول الله الله خیبر کے بعد وادی القری تشریف لے آئے ان کو بھی اہل خبیر کی طرح شکست ہوگئی بعد میں ان کے ساتھ بھی اہل خبیر جیسا معاملہ کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ سے نکاح کیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد غزوہ ذات الرقاع کا وقوع ہوا جس میں صلوۃ الخوف مشروع ہوئی ۔ ذیقعدہ 7 ھ میں رسول اللہ ﷺ اس عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوئے جس پر صلح حدیبیہ میں اتفاق ہوا تھا مکہ میں تین روز قیام فرمایا اس دوران حضرت میمونہ سے نکاح فرمایا۔ عمرہ قضاء سے واپس آکر رسول اللہ ﷺ نے مختلف جہات میں چند سرایا روانہ فرمائے ان سب میں زیادہ اہمیت سر یہ موتہ کو اور پھر سر یہ ذات السلاسل کو حاصل ہےپھر رمضان 8ھ کو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو مکہ فتح کرنے کا شرف بخشا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں 19 دن قیام فر مایا پھر قبیلہ ثقیف و هوازن و غیره کی سرکوبی کے لیے 6 شوال کو جنین کی جانب روانہ ہوئے ۔ 10 شوال کو مسلمانوں کی جماعت حنین پہنچی ۔ اہل حق و باطل کا معرکہ ہوا بالا خر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اُس کے فورا بعد رسول اللہ ﷺ نے طائف کا رخ کیا اہل طائف کا محاصرہ کیا گیا اور یہ محاصرہ تقریباً 20 دن تک جاری رہا۔ پھر بغیر قتال کے آپ ﷺ نے وہاں سے کوچ کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔ ماہ ذیقعدہ میں عمرہ جعرانہ کی دائیگی کے بعد مدینہ منورہ کی طرف واپسی فرمائی ۔ رجب 9ھ کو غزوہ تبوک کا وقوع ہوا پھر ماہ ذیقعد 90 در کو حضرت ابو بکر صدیق کو تین سو سواروں کے ہمراہ ادئیگی حج کے لیے روانہ فرمایا۔ اس کے بعد سورت برآت کی آیات نازل ہوئی جس میں تمام مشرکین سے عہد توڑنے کا حکم تھا۔ 9ھ کو دربار نبوی ﷺ میں بکثرت وفود کا آنا شروع ہوا اس لیے اس سال کو عام الوفود بھی کہتے ہیں۔ جب جزیرہ عرب میں دعوت کی تبلیغ مکمل ہوگئی اور اللہ نے اہل ایمان کی ایک مضبوط جماعت پیدا فر مادی تو اللہ نے اپنے محبوب محمد ﷺ کو ادا ئیگی حج کا حکم دیا ۔ آپ 26 ذی قعدہ کو مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے ۔ ہفتہ بھر سفر کے بعد مکہ مکرمہ پہنچے چند دن قیام کے بعد ایام حج میں ارکان حج ادا کئے ۔ مجھہ الوداع کا مشہور خطبہ ارشادفرمایا پھر مدینہ منورہ کی طرف واپسی فرمائی ۔ ماہ صفر کے آخری ایام میں رسول اللہ ﷺکو در دسر لاحق ہوا۔ یہ آپ ﷺ کی بیماری کی ابتدا تھی پھر آہستہ آہستہ بیماری میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان ایام میں حضرت ابو بکر مسجد نبوی ﷺ میں امامت کا فریضہ سر انجام دیتا رہا ۔ 12 ربیع الاول 11ھ بروز پیر آپ کے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر شریف 63 سال پوری ہو چکی تھی۔ آپ ﷺ کے ازواج کی تعداد گیارہ ہے ۔