رسالت 1

ماہ ربیع الاول کے فضائل و احکام اور رسومات و بدعات

ماہ ربیع الاول کے فضائل و احکام اور رسومات و بدعات

ربیع الاول کے معنی

ربیع کے معنی ” بہار اور اول کے معنی ابتداء اور پہلا ہیں۔ یعنی : موسم بہار کی ابتداء، یا موسم بہار کے شروع کا زمانہ جس میں کلیاں اور پھول کھلتے ہیں۔ اور موسم بہار کا آخری زمانہ جس میں پھل پک جاتے ہیں، اسے ریح الآخر یا ربیع الثانی کہتے ہیں ۔ ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ ولادت و وفات ؛ دونوں کس تاریخ میں ہوئیں ، اس میں اختلاف ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت

تاریخ ولادت کے بارے میں دو، آٹھ ، دس، اور بارہ تاریخ کے اقوال اکثر ائمہ نے ذکر کیے ہیں۔ تہذیب الأسماء واللغات ] اس کے علاوہ سترہ ، اٹھارہ ، بائیس کے اقوال بھی ملتے ہیں۔ فلکمی حسابات وغیرہ کے ذریعے یہ بات تو کنفرم ہے کہ قطعی طور پر بارہ ربیع الاول کو تاریخ ولادت قرار دینا درست نہیں ہے ، اکثر حضرات نے آٹھ ربیع الاول کو ترجیح دی ہے قطعی اور حیح علم تو الہ کو وہی ہے۔

میں دو، بارہ تیرہ، چودہ ، اور پندرہ ربیع الاول کا قول زیادہ ملتا ہے۔ اور مشہور قول بارہ ربیع الاول کا ہے، حافظ ابن کثیر نے حضرت جابر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے نکل کیا ہے:

“وُلِدَ رَسُولُ اللهِ عامَ الْفِيلِ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعِ الْأَوَّلِ وَفِيهِ بُعِثْ وَفِيهِ عُرِجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَفِيهِ هَاجَرَ وَفِيهِ مَاتَ . ( البداية والنهاية : ٣٧٥/٣)

اگر چہ ابن کثیر نے اس کی سند کو منقطع کہا ہے، مگر اس کے الفاظ

وَفِيهِ هَاجَرَ وَفِيهِ مَاتَ

کو دیکھتے ہوئے جمہور سیرت نگاروں نے بارہ ربیع الاول ہی کو یوم وفات مانا ہے۔ [ تاریخ امت مسلمہ: ۳۹۱/۱] بہت سارے حضرات نے دور بیع الاول کے قول کو بھی ترجیح دی ہے۔

نبی صلی اللہ کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات میں یہ اختلاف کیوں؟

در اصل نبی صلی اللہ کی تاریخ ولادت یا تاریخ وفات کے ساتھ متعین طور پر امت کے لیے کوئی خاص نمی یا خوشی کا حکم وابستہ نہیں تھا ، اس لیے ان تاریخوں کی حفاظت کے لیے تکوینی طور پر ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کروایا گیا۔ چنانچہ اگر نبی صلی اللہ کے بعد یا آپ کے دور میں ہی ان تاریخوں میں جشن ولادت رسول وغیرہ کا کوئی اہتمام یا رواج ہوتا تو یقین تاریخوں کا یہ اختلاف نہ ہوتا۔ باوجودیکہ وحی کے ذریعے من جانب اللہ بھی اور منجانب نبی بھی تاریخ ولادت کو بتادینا ممکن تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، اور یہ بات بھی ممکن نہیں کہ نبی صلی اللہ نے بتایا ہو، لیکن آپ صلی اللہ کے صحابہ کو یاد نہ رہا ہو۔ ماہ ربیع الاول کی فضیلت ولادت نبی صلی اللہ کی وجہ سے یہ مہینہ یقینا معظم و محترم اور شرافت، برکت و فضیلت والا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے

صلى الله م اللہ ہیں، دوسرے سے مراد موسم بہار ہے، اور تیسرے سے مراد ماہ ربیع الاول ہے۔ یعنی: ولادت نبی صلی اللہ بھی موسم بہار کی طرح ہے، زمانہ بھی حقیقت میں بہار کا تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا ، اس طرح تین ربیعیں یعنی : تین بہاریں جمع ہوگئی تھیں۔ بہر حال اس مہینے کے فضیلت والے ہونے کے

ربيع في ربيع في ربيع

ونور فوق نور فوق نور

ایک بہار میں دوسری بہار اور دوسری میں تیسری بہار جمع ہے، اور نور کے اوپر نور اور اس کے اوپر پھر نور ہے۔ اس شعر میں پہلے ربیع سے مراد نبی با وجود اس مہینے میں کسی مخصوص عمل کو متعین نہیں کیا گیا۔

ماہ ربیع الاول کی فضیلت حاصل کرنے کا طریقہ

اب اس مہینے کی فضیلت و شرف حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خصوصیت سے اس مہینے میں نبی صلی اللہ کی سیرت پر چلنے کا ارادہ کیا جائے ، گناہوں کو ترک کیا جائے ، نہ یہ کہ اس ماہ پہلے سے بھی زیادہ گناہوں کے اندرا بتلاء ہو جائے ، جیسا کہ ماہ ربیع الاول بالخصوص 12 ربیع الاول کو مشاہدہ ہوتا ہے۔

ماه ربیع الاول کی رسومات و خرافات

١٢٤ / ربیع الاول کو اجتماعی قرآن خوانی کی مجالس کا اہتمام کرنا کئی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
ایصال ثواب کے لیے قرآن مجید پڑھنے کے لیے ایک جگہ اکٹھے اور جمع ہونا ضروری نہیں ، لیکن اس موقع پر اس اجتماع کو ضروری خیال کیا جاتا ہے، اور باقاعدہ اس مقصد کے لیے جمع کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید پڑھ کر یاکسی بھی نیک عمل کے ذریعے ایصال ثواب کے لیے اپنی طرف سے کسی خاص دن یا تاریخ کو متعین کر لینا درست نہیں ہے۔ جبکہ یہاں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔

ایصال ثواب کے لیے پڑھا جانے والا قرآن اخلاص سے پڑھنا ضروری ہے، جبکہ یہاں اس قرآن خوانی کے بعد کچھ نہ کچھ کھانا پلانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بارہ ربیع الاول کو کھانا کھلانا اور سبیلیں لگانا۔ ربیع الاول میں قبرستان جانا، قبروں پر لیپ کرنا، چادر میں وغیرہ چڑھانا۔( بارہ ربیع الاول کا روزہ مسنون یا مستحب نہیں ہے، (البتہ پیر کا روزہ ثابت ہے لیکن اس کا بارہ ربیع الاول سے کوئی تعلق نہیں ہے))۔ بارہ ربیع الاول کو کاروبار کرنا حرام نہیں ہے۔ عیسائیوں کے کرسمس کے مشابہ اس دن کے جشن کا اہتمام ہوتا ہے۔ کیک کاٹا جاتا ہے۔ نماز عید میلادالنبی ادا کی جاتی ہے۔ پوری رات گاڑی پر بڑے بڑے اسپیکر لگا کر مختلف پروگرام میوزک اور بلا میوزک پیش کیے جاتے ہیں۔ ں کے طرز پر اب بیت اللہ اور روضہ رسول اللہ صلی اللہ کی شبیہ بنائی جاتی ہے۔ ) نو جوان لڑکے ولڑکیاں بے پردہ نئے خوبصورت لیکن خلاف شرع لباس پہن کر نکلتے ہیں۔ جلوس والی جگہ پر مردوزن کا اختلاط ہوتا ہے۔ میوزک و موسیقی کا استعمال ہوتا ہے۔ بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرارد بینا، جبکہ دونوں قسم کی عیدین میں فرق ہے، عید کے دن کی مشروعیت ہم مسلمانوں کے ہاں دین و شرع شریف سے ثابت ہے …..

قد أبدلكم بهما خيرا منهما يوم الأضحى ويوم

الفطر، عیدین میں روزہ رکھنا نا جائز ہے، عید میلادالنبی میں روزے کی ممانعت نہیں ہے۔ عیدین میں نماز عید مشروع ہے، جب کہ عید میلادالنبی میں نماز عید خود ساختہ ہے۔ عیدین میں شرعا کئی مسنون اعمال ثابت ہیں، جبکہ عید میلاد النبی میں ایسے کوئی اعمال شریعت میں نہیں ملتے ۔ الغرض اس دن کو عید قرار دینا نبی کریم صلی اللہ کے مقابلے میں ایک نیا حکم لانے کے مترادف ہے۔ پھر یہ مہینہ محض ولادت کا نہیں ہے، بلکہ وفات کا بھی ہے تو پھر اس مہینے میں جشن کا کیا مقام ؟؟! یعنی: ہر سال عید میلادالنبی کے نام سے جشن منانا اور اس مہینے میں ہی نبی صلی اللہ کے وصال کو نظر انداز کر دینا یقینا عقلمندی نہیں کہلائے گا۔

رنگین روشنیوں سے گلی محلوں کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، اس کی قباحتیں درج ذیل ہیں

1. بعض جگہ اس کے لیے چوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے، ایسا شخص پوری قوم کا مجرم ہے۔
2. بعض جگہ اس کے چندہ کیا جاتا ہے۔
3 ۔ اسراف و تبذیر کا گناہ لازم آتا ہے۔
4۔ اور یہ سب کچھ دین اور ثواب کے نام ہوتا ہے۔

بے ریش بچوں اور بچیوں کا نعتیں پڑھنا

اس میں بھی کئی مفاسد ہیں۔ البتہ ! اگر درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نعتیں جائیں تو بلا شبہ کوئی حرج کی بات نہیں ہیں

1. نعتوں کے مضامین صحیح ہوں ۔
2. پڑھنے والے امر دیعنی: بے ریش اور قریب البلوغ یا بالغہ بچیاں نہ ہوں۔
3۔ میوزک کے بغیر ہوں۔
4۔ گانوں کی طرز پر نہ ہوں۔
5۔ نام ونمود اور ریا کاری یا کسی غرض فاسد سے نہ پڑھی جائیں۔
6۔ اس کے مضامین میں نبی کریم صلی اللہ کی تعریف کرتے ہوئے غلونہ کیا گیا ہو،
مثلا :
اللہ کے قبضے میں وحدت کے سوا کیا ہے؟ جو کچھ ہمیں لینا ہے، لے لیں گے محمد سے ہو، مالک روز جزا ہو تم مختار کل رحمت کا ہے مقام کہ خاص خدا ہو تم.

اپنا تبصرہ بھیجیں