مسئلہ حیاۃ انبیاء کرام علیہم السلام

مسئلہ حیاۃ انبیاء کرام علیہم السلام

مسئلہ حیاۃ انبیاء کرام علیہم السلام

اہل سنت والجماعت کا موقف

قرآن کریم کی نصوص قطعیہ کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر ایک مرتبہ موت کا آنا یقینی ھے۔اور اسکا منکر کافر ھے۔

كُلُّ نَفْسٍۢ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ

احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات بھی ثابت ہیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ یہ وعدہ قرآنی ( انک میت) پورا ہوچکا ھے اور آپکی وفات ہوچکی ہے۔ وفات کیبعد آپکے اس جسد عنصری ( جو مدینہ منورہ قبر شریف میں دفن کیا گیا ہے اور جس جسم کیساتھ آپ دنیا میں تشریف لائے تھے) کیساتھ آپکی روح مبارکہ کو ایسا تعلق ضرور حاصل ہیکہ جسکی وجہ سے آپ صلی الہ علیہ وسلم روضہ اطہر کے پاس پڑھا جانیوالا صلٰۃ و سلام یا کوئی بات بغیر واسطے کے سن لیتے ہیں۔ اس موقف کو سمجھنے کے لیے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو جو خاص نوعیت کی حیات حاصل ہےاسے حیاة دنیاوی بھی کہا جاتا ہے۔اور اس زندگی کے بعض آٹثار بعض دنیاوی احکام میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔جیسا کہ آپکی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کیساتھ کسی کا نکاح جائز نہیں تھا اور آپکی وراثت کا تقسیم نہ ہونا وغیر۔

دلائل

1- حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کی حدیث

إن من أفضل اياكم يوم الجمعة….. فأكثروا على من الصلاة …إن الله عزوجل حرم علي الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء

” تمہارے دنوں میں افضل جمعہ کا دن ہے۔۔پس تم اس دن مجھ پر درود کی کثرت کرو بیشک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ھے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا ! ” یارسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائیگا جبکہ آپکی ہڈیاں تو بوسیدہ ہوچکی ہونگی ۔۔۔” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” بے شک الہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسموں کا کھانا حرام قرار دیا ہے.”

2- قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

” الانبیاء أحیاء في قبورھم یصلون”

ترجمہ:-
‘ انبیاء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیںءنماز پڑھ رہے ہیں

3-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

“میں موسی علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرا ۔۔جبکہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔’

4-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہیکہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

“جب بھی کوئی میرے اوپر درود بھیجے تو اللہ تعالیٰ میری روح لوٹا دیتے ہیں تاکہ میں اسکے درود و سلام کا جواب دے سکوں۔”

5- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

“عیسیٰ ( زمین پر) اتریں گے اور فج کے راستے حج یا عمرہ کرنے آئیں گے اور میری قبر پر بھی آئینگے مجھے سلام کرینگے میں بھی انکو ضرور بالضرور جواب دونگا۔”

6- قال الله تعالیٰ

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ ۚ بَلْ أَحْيَآءٌۭ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اللہ کے راستے میں قتل ہوجانیوالوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ لیکن تم نہیں سمجھ سکتے۔”

شہداء کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے” احیاء”‘ فرمایا۔یعنی انکی روح کو انکے جسم کیساتھ عام مردوں کی نسبت زیادہ تعلق ھے اور شہدا کو یہ زندگی اللہ تعالیٰ کے دربار میں انکے بلند مقام و مرتبے کیوجہ سے ملی ہے۔ تو ظاہر ہیکہ انبیاء علیہم السلام کا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شہداء سے کہیں زیادہ بلند ہے اس لیے انبیاء کرام کیلیے بھی یہ زندگی ثابت ہونی چاہیے بلکہ انکی حیات عام شہداء کی حیات سے زیادہ قوی ہونی چاہیے۔

7- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” جس نے مجھ پر درود میری قبر کے پاس پڑھا تو میں اسکوٴ سنوں گا اور جو مجھ پر درود دور سے پڑھے گا تو وہ میرے تک پہنچا دیا جائیگا۔'”

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و موجود نہیں کہ دور سے پڑھا جانیوالا صلوٰۃ و سلام بھی سن لیں بلکہ وہ فرشتے ان تک پہنچاتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی اس نیت سے درود شریف پڑھے ” الصلاة والسلام علیک یا رسول”‘ کہ دل کی آنکھوں سے گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے پاس کھڑا ھے تصور میں تو یہ جائز ھے اور اسکا عقیدہ یہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس موجودِ سن رھے ہیں ۔۔۔ ان تمام احادیث سے إنبیاء کرام عَلھہم السلام کی زندگی ثابت ہوتی ھے۔

نوٹ:
عقائد کی دو قسیں ہیں ایک وہ عقائد ہیں کہ جنکا منکر کافر ہے اور دوسرے وہ عقائد کہ جنکا منکر کافر تو نہیں ہوگا البتہ سے گمراہ یا فاسق قرار دیا جائیگا۔

عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلّغ,اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان ٴجقائد میں سے ہیکہ جنکا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ و فاسق کہلائے گا۔

واللہ اعلم باالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں