معیشت کے اسلامی احکام

معیشت کے اسلامی احکام

معیشت کے اسلامی احکام

سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مختصر تعارف کے بعد معیشت کے جو چار بنیادی مسائل بیان کئے گئے تھے، ان کے بارے میں، اسلامی نقطہ نظر کیا ہے؟ یہ بات پہلے ہی قدم پر واضح رہنی چاہئے کہ اسلام کوئی معاشی نظام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک دین ہے، جس کے احکام ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں. جس میں معیشت بھی داخل ہے، لہذا قرآن و حدیث نے معروف معنوں میں کوئی معاشی فلسفہ یا نظریہ پیش نہیں کیا، جس کو موجودہ دور کی معاشی اصطلاحات میں تعبیر کیا گیا ہو۔ لہذا ترجیحات کا تعین، وسائل کی تخصیص، آمدنی کی تقسیم اور نہ آن کے عنوان سے قرآن وسنت یا اسلامی فقہ میں براہ راست کوئی بحث موجود ہے لیکن زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اسلام نے معیشت کے بارے میں بھی کچھ احکام دیئے ہیں، ان احکام کے مجموعی مطالعے سے ہم یہ مستنبط کر سکتے ہیں کہ مذکورہ چار مسائل کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ اور اسی مطالعے اور استنباط کا حاصل یہ ہے کہ؛
اسلام کے معاشی احکام اور تعلیمات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے بازار کی قوتوں یعنی رسد و طلب کے قوانین کو تسلیم کیا ہے، اور وہ حیثت کے مسائل کے حل کے لئے ان کے استعمال کا فی الجملہ حامی ہے، چنانچہ قر آن کریم کا ارشاد ہے :-

(نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْق بَعْضٍ دَرَجَتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا. (الزخرف:۳۲)

ترجمہ:۔
ہم نے ان کے درمیان معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ان میں سے ایک، دوسرے سے کام لے سکے”۔
ظاہر ہے کہ ایک دوسرے سے کام اس طرح لیا جائے گا کہ کام لینے والا کام کی طلب، اور کام دینے والا کام کی رسد ہے۔ اس طلب و رسد کی باہمی کشمکش اور باہمی امتزاج سے ایک متوازن معیشت وجود میں آتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی لہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب دیہاتی اپنی زرعی پیداوار شہر میں فروخت کرنے کے ئے لاتا تو بعض شہری لوگ اس دیہاتی سے کہتے کہ تم اپنا مال خود لے جاکر شہر میں مت بیچو، بلکہ یہ سامان مجھے دے دو، میں مناسب وقت پر اس کو فروخت کروں گا، تا کہ اس کی قیمت زیادہ ملے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہریوں کو ایسا کرنے نے روکا ، اور اس کے ساتھ ہی یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

دعوا الناس يرزق الله بعضهم عن بعض

” ترجمہ لوگوں کو آزاد چھوڑ دواللہ تعالی ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرمائے”
اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان تیسرے شخص کی مداخلت کو اس لئے مسترد فرما دیا تا کہ بازار میں طلب و رسد کا صحیح توازن قائم ہو۔ ظاہر ہے کہ دیہاتی جب براہ راست بازار میں کوئی چیز فروخت کرے گا تو اپنا مناسب نفع رکھ کر ہی فروخت کرے گا ، لیکن اسے چونکہ جلدی واپس جانا ہے، اس لئے اس کے پاس ذخیرہ اندوزی کی گنجائش نہیں اور خود اس کے بازار میں پہنچنے کی صورت میں طلب و رسد کا ایسا امتزاج ہوگا جو صحیح قیمت متعین کرنے میں مدد دے گا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی تیسرا آدمی ان دونوں کے درمیان آجائے اور مال کی ذخیرہ اندوزی کر کے اس کی مصنوعی قلت پیدا کرے، تو وہ طلب و رسد کے قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کرے گا۔ لہذا اس حدیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب و رسد کے قدرتی نظام کو تسلیم فرمایا اور اس کو باقی رکھنے کی کوشش فرما ئی ہے اسی طرح جب آپ سے یہ درخواست کی گئی کہ آپ بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتیں سرکاری طور پر متعین فرمائیں ، تو اس موقع پر بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے :-

ان الله هو المسعر القابض الباسط الرازق”.

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ہی قیمت متعین کرنے والے ہیں۔ وہی چیزوں کی رسد میں کمی کرنے والے اور زیادتی کرنے والے ہیں، اور وہی رازق ہیں۔”
اللہ تعالیٰ کو قیمت مقرر کرنے والا قرار دینے کا واضح مطلب اس حدیث کے سیاق میں یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے طلب ورسد کے فطری اصول مقرر فرمائے ہیں، جن سے قیمتیں فطری طور پر متعین ہوتی ہیں، اور اس فطری نظام کو چھوڑ کر خود سے قیمتوں کا تعین پسندیدہ نہیں۔
قرآن وسنت کے ان ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے قوتوں یعنی طلب رسد کے قوانین کو فی الجملہ تسلیم کیا ہے، اسی طرح ذاتی منافع کے محرک سے بھی فی الجملہ کام لیا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس محرک کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا، جس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوئیں جن کا ذکر پیچھے کیا گیا۔ اسلام نے ذاتی منافع کے محرک کو برقرار رکھتے ہوئے اور رسد و طلب کے قوانین کو تسلیم کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی سرگرمیوں پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کر دیں کہ ان پر عمل کی صورت میں ذاتی منافع کا محرک ایسے غلط رُخ پر نہیں چل سکتا جو معیشت کو غیر متوازن کرے یا اس سے دوسری اخلاقی یا اجتماعی خرابیاں پیدا ہوں۔ اسلام نے ذاتی منافع کے محرک پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، انہیں تین قسموں پر منقسم کیا جاسکتا ہے؛

1- خدائی پابندی

سب سے پہلے تو اسلام نے معاشی سرگرمیوں پر حلال و حرام کی کچھ ایسی ابدی پابندیاں عائد کی ہیں جو ہر زمانے میں اور ہر جگہ نافذ العمل ہیں۔ مثلاً سود، قمار، اکتناز، احتکار، یعنی ذخیرہ اندوزی اور دوسری تمام بیوع باطلہ کو کلی طور پر ناجائز قرار دے دیا، کیونکہ یہ چیزیں عموماً اجارہ داریوں کے قیام کا ذریعہ بنتی ہیں اور ان سے معیشت میں ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح ان تمام چیزوں کی پیداوار اور خرید و فروخت کو حرام قرار دیا جن سے معاشرہ کسی بداخلاقی کا شکار ہو، اور جس میں لوگوں کے نفلی جذبات بھڑ کا کرنا جائز طریقے سے آمدنی حاصل کرنے کا راستہ پیدا کیا جائے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یہ خدائی پابندیاں قرآن وسنت کے ذریعے عائد کی گئی ہیں، انہیں اسلام نے انسان کی ذاتی عقل پر نہیں چھوڑا کہ اگر اس کی عقل مناسب سمجھے تو یہ پابندی عائد کر دے، اور اگر مناسب نہ سمجھے تو عائد نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرنے کے لئے بسا اوقات انسانوں کی عقلوں میں تفاوت اور اختلاف ہوتا ہے۔ ایک انسان کی عقل ایک چیز کو اچھا اور دوسرے انسان کی عقل اس کو بُرا سمجھ سکتی ہے، لہذا اگر ان پابندیوں کو بھی محض عقل انسانی کے حوالے کیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ لوگ ان پابندیوں کو اپنی عقل کی روشنی میں نامناسب قرار دے کر معاشرے کو ان سے آزاد کر دیتے۔ اور چونکہ اللہ تبارک و تعالی کے علم میں یہ پابندیاں ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے ضروری تھیں اس لئے ان کو وحی کے ذریعے ابدی حیثیت دی گئی، تا کہ انسان اپنی عقلی تاویلات کے سہارے ان سے چھٹکارا حاصل کرکے معیشت اور معاشرے کو ناہمواریوں میں مبتلا نہ کر سکے۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ خدائی پابندیاں جو قرآن وسنت نے عائد کی ہیں، بہر صورت واجب العمل ہیں، خواہ انسان کو ان کی عقلی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا، موجودہ دور میں بیشتر سرمایہ دار ممالک بھی ذاتی منافع کے محرک پر کچھ نہ کچھ پابندیاں ضرور عائد کرتے ہیں، لیکن وہ پابندیاں چونکہ وحی الہی سے مستفید نہیں ہوتیں، اس لئے وہ متوازن معیشت کے قیام کے لئے کافی نہیں ہوتیں۔ چنانچہ ان سرمایہ دار ملکوں میں کہیں بھی سود، قمار اور سٹہ وغیرہ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، جو معاشی ناہمواریوں کا بہت بڑا سبب ہیں۔

۲- ریاستی پابندیاں

مذکورہ خدائی پابندیاں تو ابدی نوعیت کی تھیں، انہی کے ساتھ اسلامی شریعت نے حکومت وقت کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ کسی عمومی مصلحت کے تحت کسی ایسی چیز با ایسے فعل پر بھی پابندی عائد کر سکتی ہے جو بذات خود حرام نہیں بلکہ مباحات کے دائرے میں آتی ہے، لیکن اس نے کوئی اجتماعی خرابی لازم آتی ہے۔ یہ پابندی ابدی نوعیت کی نہیں ہوتی جو ہر زمانے میں اور ہر جگہ نافذ العمل ہو، بلکہ اس کی حیثیت وقتی حکم کی ہوتی ہے جو وقتی مصلحت کے تابع ہوتا ہے۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جب ہیضے کی وبا پھوٹ رہی ہو تو حکومت کو یہ اختیار ہے کہ خربوزے کی خریدوفروختپر پابندی لگا دے جب تک حکومت کی طرف یہ پابندیا باقی رہے، اس وقت تک خربوزا کھانا اور اس کا بیچنا شرعا بھی نا جائز ہو جائے گا۔ اسی طرح اُصول فقہ میں سے ذرائع کے نام سے ایک باب ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک کام فی نفسہ جائز ہو لیکن اس کی کثرت کسی مفسدے کا سبب بن رہی ہو تو حکومت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس جائز کام کو بھی ممنوع قرار دے ۔
اس اصول کے تحت حکومت تمام معاشی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکتی ہے اور جن سرگرمیوں سے معیشت میں ناہمواری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، ان پر مناسب پابندی عائد کر سکتی ہے۔ کنز العمال میں روایت منقول ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بازار میں آئے تو دیکھا کہ ایک شخص کوئی چیز اس کے معروف نرخ سے بہت کم داموں میں فروخت کر رہا ہے، آپ نے اس سے فرمایا کہ:

إما ان تزيد في السعر، وإما ترفع عن سوقى”.

ترجمہ: – یا تو دام میں اضافہ کرو، ورنہ ہمارے بازار سے اُٹھ جاؤ”.
روایت میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کس وجہ سے اس پر پابندی لگائی، ہو سکتا ہے کہ وجہ یہ ہو کہ وہ متوازن قیمت سے بہت کم قیمت لگا کر دوسرے تاجروں کے لئے جائز نفع کا راستہ بند کر رہا ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پابندی کی وجہ یہ ہو کہ کم قیمت پر مہیا ہونے کی صورت میں لوگ اسے ضرورت سے زیادہ خرید رہے ہوں، جس سے اسراف کا دروازہ کھلتا ہو، یا لوگوں کے لئے ذخیرہ اندوزی کی گنجائش نکلتی ہو۔ بہر صورت قابل غور بات یہ ہے کہ اصل شرعی حکم یہ ہے کہ ایک شخص اپنی ملکیت کی چیز جس دام پر چاہے فروخت کر سکتا ہے، لہذا کم قیمت پر بیچنا فی نفسہ جائز تھا، لیکن کسی اجتماعی مصلحت کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر پابندی عائد کی۔ اس قسم کی ریاستی پابندیوں کے واجب استعمال ہونے کا ماخذ قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے کہ

۔ يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمر منكم

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی، اور اولوالامراکی “.
چونکہ ایسی ابدی زندگی آنے والی ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں، اور انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنی دُنیوی زندگی کو اس آخرت کی زندگی کے لئے زینہ بنائے، اور وہاں کی بہبود کی فکر کرے۔ لہذا انسان کی اصل کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں چار پیسے زیادہ کما لے، بلکہ اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ آخرت کی ابدی زندگی میں زیادہ سے زیادہ عیش و آرام کا انتظام کرے، جس کا راستہ یہ ہے کہ دُنیا میں رہتے ہوئے وہ کام کرے جو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کا موجب ہو۔ جب یہ ذہنیت افراد میں پیدا ہو جاتی ہے تو ان کے معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی چیز صرف یہ نہیں ہوتی کہ کونسی صورت میں ہماری تجوری زیادہ بھرے گی، بلکہ بسا اوقات ان کے معاشی فیصلے اس بنیاد پر بھی ہوتے ہیں کہ کون سے کام میں مجھے آخرت میں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا ؟ اس طرح بہت سے معاملات میں شریعت نے کوئی وجوبی حکم (Mandatory Order) تو نہیں دیا، لیکن کسی خاص بات کے اُخروی فضائل بیان فرمائے ہیں جو ایک مؤمن کے لئے بہت بڑی کشش کا ذریعہ ہیں، اور ان کے توسط سے انسان خود اپنے اوپر بہت کی پابندیاں عائد کر لیتا ہے۔ اخلاقی پابندیوں سے مراد اس قسم کی پابندیاں ہیں۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس سرمایہ کاری کے لئے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ وہ اپنا سرمایہ کسی جائز تفریحی مگر تجارتی منصوبے میں لگائے ، جس میں اسے زیادہ آمدنی کی توقع ہو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ یہ سرمایہ بے گھر لوگوں کے لئے سستے مکان تعمیر کر کے فروخت کرنے پر صرف کرے، جس میں اسے نسبتا کم منافع کی توقع ہے۔ تو ایک سیکولر ذہنیت کا حامل شخص یقیناً پہلے راستے کو اختیار کرے گا، کیونکہ اس میں منافع زیادہ ہے، لیکن جس شخص کے دل میں آخرت کی فکر ہو، وہ اس کے برعکس یہ سوچے گا کہ اگر چہ رہائشی منصوبے میں مالی نفع نسبتاً کم ہے، لیکن میں غریب لوگوں کے لئے رہائشی مکان فراہم کر کے اپنے لئے آخرت میں اجر و ثواب زیادہ حاصل کر سکتا ہوں، اس لئے مجھے تفریحی منصوبے کے بجائے رہائشی منصوبے کو اختیار کرنا چاہئے۔اپنے میں سے با اختیار لوگوں کی اطاعت کرو۔ اس آیت میں “أولى الأمر ” (با اختیار افراد) کی اطاعت کو اللہ اور رسول کی اطاعت سے الگ کر کے ذکر کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ جن چیزوں میں قرآن وسنت نے کوئی معین حکم نہیں دیا، ان میں اولی الامر کے احکام واجب التعمیل ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہنا ضروری ہے کہ حکومت کو مباحات پر پابندی عائد کرنے کا یہ اختیار غیر محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے بھی کچھ اُصول وضوابط ہیں، جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، لیکن دو باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کا وہی حکم واجب التعمیل ہے جو قرآن وسنت کے کسی حکم سے متصادم نہ ہو، اور دوسرے یہ کہ حکومت کو اس قسم کی پابندی عائد کرنے کا اختیار صرف اس وقت ملتا ہے جب کوئی اجتماعی مصلحت اس کی داعی ہو۔ چنانچہ ایک مشہور فقہی قاعدے میں اس بات کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے کہ:

تصرف الامام بالرعية منوط بالمصلحة

ترجمہ: ۔ عوام پر” حکومت کے اختیارات مصلحت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں ”

لہذا اگر کوئی حکومت کسی اجتماعی مصلحت کے بغیر کوئی پابندی عائد کرے تو یہ پابندی جائز نہیں، اور قاضی کی عدالت سے اس کو منسوخ کرایا جاسکتا ہے.

۳- اخلاقی پابندیاں

جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا کہ اسلام ٹھیٹ معنوں میں کسی معاشی نظام کا نام نہیں بلکہ ایک دین کا نام ہے، اس دین کی تعلیمات اور احکام زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح معیشت سے بھی متعلق ضرور ہیں ۔ لیکن اس دین کی تعلیمات میں یہ بات قدم قدم پر واضح کی گئی ہے کہ معاشی سرگرمیاں اور ان سے حاصل ہونے والے مادی فوائد انسان کی زندگی کا منتہائے مقصود نہیں ہے۔ قرآن وسنت کا تمام تر زور اس بات پر ہے کہ دنیاوی زندگی ایک محدود اور چند روزہ زندگی ہے اور اس کے بعد ایکیہاں اگر چہ دونوں راستے شرعی اعتبار سے جائز تھے، اور ان میں سے کسی پر
کوئی ریاستی پابندی بھی عائد نہیں تھی، لیکن عقیدہ آخرت پر مبنی اخلاقی پابندی نے لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شخص کے دل میں ایک اندرونی رکاوٹ پیدا کر دی ، جس سے ترجیحات کا بہتر تعین اور وسائل کی بہتر تخصیص عمل میں آئی۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، لیکن اگر واقعتا اسلام کا عقیدہ آخرت دل میں پوری طرح جاگزیں اور مستحضر ہو تو وہ معاشی فیصلوں کی بہتری میں بہت زبردست کردار ادا کرتا ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ غیر اسلامی معاشروں میں بھی اخلاق کا ایک مقام ہے، اور بعض مرتبہ اخلاقی نقطۂ نظر معاشی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، لیکن چونکہ ان اخلاقی تصورات کی پشت پر آخرت کا مضبوط عقیدہ نہیں، اس لئے وہ بحیثیت مجموعی معیشت کے اوپر کوئی بہت نمایاں اثرات نہیں چھوڑتا۔ اس کے برخلاف اسلام اپنی تمان تعلیمات کے ساتھ بتمام و کمال نافذ العمل ہو تو اس کی اخلاقی تعلیمات کا اثر معیشت پر بہت نمایاں ہوگا، جیسا کہ ماضی میں اس کی بے شمار جیتی جاگتی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ لہذا اخلاقی پابندیوں کا یہ عصر ٹھیٹ اسلامی معیشت کے تناظر میں کسی بھی طرح کوئی کمزور عنصر نہیں، بلکہ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں