
واقعہ افک
واقعہ افک
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے شعبان المعظم میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ ھے لیکن اس کے پہلے بطور تمہید ایک اور واقعہ ہوگا
غزوہِ مریسیع
شعبان المعظم 5 ہجری کو ایک اہم واقعہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار اپنے قبیلے اور کچھ دیگر قبائل کے لوگوں کے ہمراہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے بنو مصطلق کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی اور واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے باخبر کیا کہ واقعی بنو مصطلق اور دیگر قبائل کے لوگ حارث بن ابی ضرار کی قیادت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رض کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور مورخہ 2 شعبان 5 ہجری کو بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں امہات المومنین میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ ۔ اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت ساتھ تھی جو اس سے پہلے کسی غزوے میں شریک نہیں ہوئی تھی۔
حارث بن ابی ضرار اور اس کے قبیلے کے لوگوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ لشکر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بنو مصطلق کی طرف آ رہا ہے مزید یہ کہ انہیں اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوئے۔ بنو مصطلق کے علاوہ جو دیگر قبائل کے لوگ ان کے ساتھ تھے وہ سب خوف کے مارے واپس ہو گئے۔ ادھر لشکر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مقام قدید کے قریب “چشمہ مریسیع “تک پہنچ گئے۔ حارث بن ابی ضرار نے یہ صورت حال دیکھی تو آمادہ جنگ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صف بندی فرمائی۔ اسلامی لشکر کے جھنڈ ا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہا کو دیا اور خاص انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں۔ یہ جنگ کچھ دیر تک جاری رہی، دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یکبارگی حملہ کیا اور بنو مصطلق کے قدم اکھڑ گئے، مسلمان فتح یاب ہو گئے اور مشرکین نے شکست کھائی۔ بنو مصطلق کے گیارہ آدمی مارے گئے جن میں سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر مسافع بن صفوان بھی شامل تھے اور چھ سو کے قریب گرفتار ہوئے۔ ان قیدیوں میں بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برہ ( حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا) بھی تھیں۔
افک کا دلخراش سانحہ
یہ بات ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ اس سفر میں امہات المومنین میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ دشمنان اسلام منافقین نے آپ کی عفت و پاکدامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عرفِ عام میں ” واقعہ افک “ کہا جاتا ہے یہ بہت دلخراش سانحہ تھا کئی دنوں کے صبر و استقلال کے بعد بالآخر اللہ رب العزت نے آپ کی پاکدامنی پر قرآنی مہر ثبت کر دی، قرآن کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
افک کا معنی :-
افک جھوٹ، تہمت اور بد عنوانی کے جھوٹے الزام “ کو کہتے ہیں۔ جبکہ بعض اہل لغت کے ہاں ایک محض جھوٹ کو نہیں بلکہ ایسے بڑے جھوٹ کو کہتے ہیں جو اصل معاملے کی ساری صورتحال کو یکسر بدل دے۔
مدینہ منورہ سے پہلے ذی قرع ایک بستی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ لشکر کی روانگی سے کچھ پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ جب واپس تشریف لا رہی تھیں تو اتفاقا آپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ اپنے گلے پر پڑا، ایک دم ٹھٹک کر رہ گئیں کیونکہ اپنی ہمشیرہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے جو ہار عاریت لائی تھیں وہ گلے میں موجود نہیں تھا بلکہ کہیں گر چکا تھا۔ چنانچہ آپ واپس پلٹیں اور ہار تلاش کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف لشکر مدینہ منورہ کی طرف جانے کے لیے بالکل تیار تھا، آپ رضی اللہ عنہا نے یہ خیال کیا کہ ہار ابھی مل جائے گا اور میں واپس آجاؤں گی۔ لیکن بار تلاش کرنے میں کافی دیر ہو گئی۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جاتے وقت کسی کو اطلاع نہیں دی کہ میں قضائے حاجت کے لیے جا رہی ہوں، ساربانوں (جو کجاوے کو اٹھا کر اونٹ پر باندھتے ہیں ) نے خیال کیا کہ آپ کجاوے میں سوار ہیں۔
نوٹ: یہ کجاوہ ڈولی نما ہوا کرتا تھا جس میں مستورات سفر کرتی تھیں۔ چونکہ پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے اس لیے ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین سفر میں باپردہ ہی رہتی تھیں۔ اس کجاوے کے پر دے نیچے لٹکے ہوئے تھے، ساربانوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ آپ رضی اللہ عنہا کجاوے کے اندر موجود ہیں۔ کجاوہ اونٹ پر کسا اور لشکر کے ساتھ چل دیے۔ اُس زمانہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بمشکل 15/14 سال برس تھی اور آپ رضی اللہ عنہا کا جسم بھی دبلا پتلا تھا۔ اسی لیے کجاوہ کسنے والے ساربانوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپ سوار ہیں یا نہیں۔؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں: میں کافی دیر ہار تلاش کرتی رہی، بالآخر بار مجھے مل گیا لیکن ایک پریشانی بھی ساتھ لاحق ہو گئی کہ قافلہ مجھے سے دور جا چکا تھا۔ غالباً ساربانوں نے میرا کجاوہ اٹھایا اور اونٹ پر باندھ دیا یہ سمجھ کر کہ میں بھی اس میں سوار ہوں حالانکہ میں بار تلاش کرنے گئی تھی۔ اب اس میدان میں سوائے سیدہ عائشہ کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے قافلے کے پیچھے جانے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ قافلہ والے جب مجھے اپنے اندر نہ پائیں گے تو لازماً تلاش کرنے کے لیے یہیں لوٹیں گے اس لیے آپ رضی اللہ عنہا چادر لپیٹ کر سو گئیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہا کو نیند آگئی۔ جب لشکر کسی معرکے کے لیے نکلتے تو قافلے کے تین حصے ہوتے تھے۔ قافلے سے آگے کچھ فاصلے پر چند افراد ہوتے جنہیں حفاظتی دستہ یا مقدمہ الجیش کہا جاتا۔ پھر قافلہ اور آخر میں چند افراد یا کسی ایک کی ذمہ داری ہوتی کہ قافلے والوں کی کوئی چیز راستے میں گر گئی ہو تو وہ اسے اٹھاتے۔
چونکہ قافلہ جا چکا تھا، قافلہ کے آخری حصہ کے ذمہ دار حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ تھے ، وہ وہاں پہنچے اور دیکھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو آرام فرمارہی ہیں ۔ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو پردہ
کے حکم نازل ہونے سے قبل چونکہ دیکھا ہوا تھا، اس لیے آپ رضی اللہ عنہا کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور
اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
پڑھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کانوں میں جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کی آواز پڑی تو آپ فوراً جاگ گئیں اور جھٹ سے پردہ کر لیا۔ آپ خودرضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں: اللہ کی قسم ! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور ان کی زبان سے سوائے
انا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
کے میں نے کوئی کلمہ نہیں سنا.
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
صفوان نے اپنا اونٹ میرے قریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے ، میں اس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم دو پہر کو لشکر کے ساتھ آکر ملے اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، اُنہوں نے کہا اور مجھ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مدینہ پہنچ کر میں بیمار ہو گئیں۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گزرا، بہتان طرازوں اور افتراء پردازوں نے طوفان بر پا کرنے والے اپنے کام میں لگے رہے مگر مجھے ان باتوں کا کچھ علم نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہربانی میں کمی آجانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں میرے ساتھ رہی، دلی طور پر پریشان کن تھا کہ آخر کیا بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کر کے واپس ہو جاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپ کے اس انداز سے میری تکلیف میں اضافہ ہوتا تھا۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایسے حالات نے مجھے دل گرفتہ کر دیا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں ، میں وہاں چلی جائوں تاکہ وہ میری تیمار داری اچھی طرح سے کر سکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں ان باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہو چکی تھی۔ ہم عرب لوگ تھے ، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ ام مسطح تھیں۔چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں الجھ کر ٹھو کر لگی اور گر گئیں تو ان کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو ( مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔
یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم ! تم نے ایک بدری مہاجر کو بد دعاء دے کر برا کیا۔ تو ام مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکر ! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں ؟ میں نے پوچھا کون سی؟ تو ام مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہو چکی ہے ؟
ام مسطح نے کہا: ہاں واللہ ! یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہو گئے اور میں بغیر رفع حاجت کے واپس چلی آئی، واللہ ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں
اور شدت آگئی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں ؟ ۔ ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تہمتیں تراشتے ہیں۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا ابو جان کو بھی اس بات کا علم علم ہے ؟ تو والدہ نے جواب دیا کہ : ہاں۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اے میری ماں ! اللہ تمہاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اس کا چر چا ہے اور آپ نے مجھ سے اس کا ذکر تک نہیں کیا، کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میری چیچنیں نکل گئیں۔ میرے والد جو بالا خانہ پر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آگئے اور میری ماں سے میرے بارے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اسے ساری بات کا علم ہو گیا ہے۔ یہ سن کر میرے والد بھی رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا ، میری والدہ نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئے گزر گئی۔ ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اس طرح صبح ہو گئی۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبان سے شدت غم سے صرف یہ جملہ نکلا: اللہ کی قسم ! ایسی بات تو ہمارے بارے میں زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نے نہیں کہیں، اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اس کے بعد کیسے
ممکن ہے؟”
جب اس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کے اہل خانہ ہیں، ہم ان میں سوائے خیر و بھلائی کے کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل پریشانی اور رنج و غم کو دور کرنے کے لیے عرض کی: یارسول اللہ ! اللہ تعالی نے خواتین کے معاملے میں آپ پر تنگی نہیں رکھی۔ (آپ مزید پریشان نہ ہوں،
چنانچہ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ نے پورے قبیلے کی طرف سے ترجمانی کرتے ہوئے گفتگو فرمائی اس کے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی۔ اختلاف مزاج کے بشری تقاضوں کے تحت
بد مزگی سی محسوس ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور دونوں کو خاموش رہنے کا حکم فرمایا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں : میرا یہ سارا دن بھی روتے ہوئے گزرا، ایک لمحہ بھر کے لیے بھی آنسو نہیں تھے۔ رات بھی اسی طرح گزری، میری اس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں روئے جا رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی۔
اسی دوران اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کر کے میرے قریب بیٹھ گئے۔ جب سے جھوٹا منفی پروپیگنڈا عام ہوا کبھی آپ میرے پاس آکر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے انتظار میں ایک مہینہ گزر چکا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان فرمائی۔ اس کے بعد یہ فرمایا: اے عائشہ ! مجھے تیرے بارے میں ایسی ایسی بات پہنچی ہے، اگر تو اس بری ہے تو دیکھنا عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور بری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم فرمائی تو اسی وقت میرے آنسو تھم گئے۔ یہاں تک کہ آنسو کا کوئی ایک قطرہ بھی میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا
ابو ! آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں، اُنہوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں ؟
پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ اس کے بعد میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا
اللہ کو بخوبی علم ہے کہ میں اس سارے معاملے میں بری اور بے قصور ہوں لیکن (منفی پروپیگینڈے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر اس کے اثرات گہرے پڑ چکے ہیں۔
اگر میں یوں کہوں کہ میں اس سے بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بری ہوں، تو تم سب یقین کرو گے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا:
اللہ کی قسم ! میں اُس چیز سے کبھی تو بہ نہیں کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے غلط منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا
فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ
صبر بہتر ہے اور اللہ ہی مدد گار ہے اُس بات کی حقیقت ظاہر فرمانے پر جو تم بیان کرتے ہو۔
اس موقع پر آپ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام نہیں لیا اس کی وجه خود بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اس لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کہا”
آپ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں: اُس وقت میرے دل کو کامل یقین ہو گیا کہ ضرور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بری ثابت فرمائیں گے ، لیکن یہ تو میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالی ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میرا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری بر آت اپنے رسول کو خواب دکھا دیں گے ۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں پر تشریف فرما تھے کہ آپ پر وحی نازل ہو نا شروع ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور ایک چادر اوڑھادی گئی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: با وجود شدید سردی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔
وحی الہی کا نزول ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا :
يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللهُ فَقَدْ بَرَأَكِ
اے عائشہ ! اللہ نے تمہاری پاکدامنی بیان فرمادی ہے۔ چنانچہ سورۃ نور کی 11 سے لے کر 20 تک دس آیات مبارکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازل ہوئیں۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میری والدہ نے مجھے کہا کہ عائشہ اٹھو! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! سوائے اللہ تعالی کے جس نے میری برات نازل فرمائی، کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ النور کی ان آیات مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے سامنے مذکورہ آیات تلاوت فرمائیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْؕ-لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْؕ-بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِۚ-وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(11)
“بیشک جو لوگ بڑا بہتان لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے۔ تم اس بہتان کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کیلئے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا اور ان میں سے وہ شخص جس نے اس بہتان کاسب سے بڑا حصہ اٹھایا اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔”