اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق

اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق

اسلامی حکومت کے حکمرانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ اسلام جس رواداری ، حسن سلوک ، نرم روی، انصاف پسندی، عدل کا نہایت تاکیدی انداز میں پابند کرتا ہے، اس میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق و امتیاز روا نہیں رکھتا۔ بلکہ ان کو یہ سبق سکھاتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے اہل اسلام اور غیر اہل اسلام یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ سب پر کھلے رکھے ہیں، ہر ایک کو رزق، ہوا، پانی، روشنی اور آسمان و زمین کی بے شمار نعمتوں سے یکساں استفادے کا حق ہے، کسی کو کسی نعمت سے استفادہ کے حق سے محروم نہیں گیا، اسی طرح جو حکومت قانون الہی پر عمل پیرا ہو اس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس سنت الہیہ پر چل کر قرآن وحدیث کی روشنی میں عدل پر مبنی ایسا نظام حکومت قائم کرے جس میں مسلم و غیر مسلم کے امتیاز کے بغیر رعایا کے ہر فرد کو بنیادی حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی حاصل ہوں۔
اور اگر کوئی ایسا متعصب اور تنگ ظرف حاکم عہدہ حکومت پر براجمان ہو جائے جو بے شک مسلمانوں کے حقوق تو پورے طور پر ادا کرتا ہے مگر غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں تغافل برتا ہے، ان کی حق تلفی کرتا ہے، ان کو بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے مساوی نہ رکھتا ہو، تو قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کی روشنی میں باوثوق طریقے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ اور خود مسلم رعایا پر یہ ضروری ہے کہ یا اس حاکم سے اقلیتوں کے حقوق دلوانے کی کوشش کرے یا پھر اس کو حکومت سے الگ کر دے۔ اور اگر مسلم رعایا ایسا نہیں کرتی بلکہ یہ بھی خاموش تماشائی کی حیثیت سے ان کے حقوق کی پامالی کا نظارہ کرتی ہے تو یہ حاکم اور اس کی مسلم رعایا دونوں گناہ کی زد میں آجاتے ہیں۔ لہذا اسلام کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ اس میں اقلیتوں کے حقوق کا کوئی اعتبار نہیں کیا گیا، یا انہیں یکسر نظر انداز کیا گیا ہے، تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق

مسلمانوں کے مساوی حقوق

چند ایک اُمور بھی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان غیر مسلموں کو مسلمانوں جیسے حقوق سے نوازا ہے۔ صرف چند ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
شرف انسانیت اسلام نے انسان کو جو احترام اور عزت سے نوازا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی اور دین یا مذہب میں نہیں ملتی ، انسان مسلمان ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی ، زندہ ہو یا مردہ ۔ ہر حال میں مذہب اسلام نے اس کے لیے مخصوص عزت و حرمت کا ذکر فرمایا اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا اپنے پیروکاروں کو پابند بنایا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی اولا د بنایا ، اس لحاظ سے مسلمان ہوں یا کا فرسب شرف انسانی میں برابر ہیں ، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ تَخَلَقْنَا تَفْضِيلا (الاسراء: 70)

اور ہم نے اولاد آدم کو عزت سے نوازا اور انہیں خشکی وتری میں سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا فر مایا اور ہم نے انہیں اپنی کثیر مخلوق پر بڑی فضیلت عطا فرمائی۔

شرح انسانیت اسلام میں انسانی جان کی حرمت، عزت اور احترام کا اندازہ قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے لگا سکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ کسی جان کا ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے ، ارشاد باری تعالی ہے:

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنما أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة: 32)

جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے لہذا امسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ اور جو شخص کسی ایک کی جان بچانے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔ یہاں پر نفسا کا لفظ عام ہے اور اس کا اطلاق عموم پر ہوگا، یعنی کسی ایک انسانی جان کا ناحق قتل ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک یا علاقے کا رہنے والا ہو۔

احترام میت

اسلام نے انسانی جان کی یہ حرمت ، عزت اور تکریم انسان کی زندگی کے خاتمے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس کی موت کے بعد بھی اس کی حرمت اور عزت کو ملحوظ رکھا ہے، چنانچہ نبی کریم سلام نے مردہ انسان کی حرمت زندہ کی حرمت کے مترادف قرار دیتے ہوئے میت کو مثلہ، یعنی مردہ کے ہاتھ پاؤں اور کان ناک کاٹ دینے ، اس کی بڑی توڑنے ، اس کی لاش کو جلانے ، اس کی قبر کو روندنے کو حرام قرار دے دیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن زید انصاری رض فرماتے ہیں: صحیح البخاري: 2474

كان رسولُ الله صَلَّى الله عليه وَسَلَّمَ إذا أمر أميرًا عَلَى جَيْشِ، أَوْ سَرِيَّةٍ، أَوْصَاه في خَاصَّتِه بِتَقْوَى الله، وَمَن معه مِنَ المُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ قَالَ : اغْزوا بِاسْمِ الله في سبيل الله، قَاتِلُوا مَن كَفَرَ بِاللهِ اغْزُوا وَلَا تَغُلُوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَمْثْلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اس کی اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں، جو اس کے ساتھ ہیں، بھلائی کی تلقین کرتے ، پھر فرماتے: اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جو اللہ تعالی سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو، نہ خیانت کرو، نہ بد عہدی کرو، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔ صحیح مسلم: 1731

احترام جنازه

اسلام نے انسانی شرف وعزت کی حفاظت کی تعلیم دیتے ہوئے اپنے ماننے والوں کو غیر مسلموں کے جنازوں کے احترام میں کھڑا ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :

كَانَ سَهِلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدِ قَاعِدَيْنِ بِالقَادِسِيَّةِ، فَمَرُّوا عَلَيْهِمَا بِجَنَازَةٍ، فَقَامَا، فَقِيلَ مَا إِنَّهَا مِنْ أَهلِ الأَرْضِ أَي مِنْ أَهْلِ الذَّمَّةِ، فَقَالَا: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِه جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ لَهُ : إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيُّ، فَقَالَ : أَلَيْسَتْ نَفْسًا

سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہو گئے ۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جو کافر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہو گئے ۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے (جو کا فر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم سلام کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ سائیڈ اس کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟ صحیح بخاری: 1312

مذہبی آزادی کا حق

اسلام اللہ کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوت حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآن حکیم نے یوں بیان کیا:

أدعُ إلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبِّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ( النحل : 125)

(اے رسول معظم !) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث ( بھی ) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو ( بھی ) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو ( بھی ) خوب جانتا ہے”۔ اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

لا إِكْرَاہ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْفَي فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَبِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة : 256)

دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے ، سو جو کوئی معبودان باطل کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا ممکن نہیں ، اور اللہ خوب جانے والا ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:

لكُمْ دِينُكُمْ وَلِي دِينِ ( الكافرون : 6)

” (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔ شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی ۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا:

ولنجران وحاشيتهم جوار الله و ذمة محمد النبي رسول الله علي انفسهم وملتهم و ارضهم و اموالهم و غائبهم و شاهدهم و بيعهم و صلواتهم لا يغيروا اسقفا عن اسقفيته ولا راهبا عن رهبانية ولا واقفا عن وقفانيته وكل ما تحت ايديهم من قليل اوكثير.

نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص ، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گر جا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر
چیز کی حفاظت کی جائے گی ۔“ ابن سعد، الطبقات الكبري 1: 358,228

تمدنی اور معاشرتی آزادی کا حق

اسلامی ریاست میں اقلیتیں اپنی قومی اور تہذیبی روایات کے مطابق رہ سکیں گی یہاں تک کہ ان کے شخصی معاملات یعنی نکاح طلاق بایں حد کہ نکاح محرمات بھی اگر ان کے تہذیبی شعائر میں رائج ہو تو اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ اسلامی ریاست میں اندر سوائے حرم کے وہ جہاں چاہیں سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور اسی طرح ترک سکونت کا بھی انہیں اختیار ہے۔ حرم سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور اس میں مشرک کے داخلہ پر پابندی نص سے ثابت ہے اس لیے وہ وہاں نہ رہ سکیں گے۔ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے:

أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طيبٍ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

خبر دار ! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے ( مسلمان کے خلاف ) جھگڑوں گا ۔“ ستن ابی داود : 3052 قال الألباني: صحیح

اقلیتوں کے مال اور جان کا تحفظ

صعصعہ بن معاویہ نے ابن عباس بیان نے سوال کیا کہ ہم ذمیوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ ہمارے لئے مرغی یا بکری وغیرہ ذبح کر کے ہماری مہمانی نوازی کرتے ہیں چنانچہ ابن عباس اللہ نے پوچھا : اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا : ہم تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ تو عبد اللہ بن عباس رض نے فرمایا:

هذا كما قال أهل كتاب اليْسَ عَلَيْنَا فِي الأُميين سبيل) إنهم إذا أتوا الجزية لم تحل لكم أموالهم إلا بطيب أنفسهم

تم نے بھی وہی بات کی ہے جو اہل کتاب دوسروں لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ذمیوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے حالانکہ “جب وہ جزیہ ادا کر دیں تو پھر ان کی رضا مندی کے بغیر ان کا مال تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔ مصنف عبدالرزاق 916

نجی زندگی اور شخصی راز داری کا حق

مملکت اسلامیہ میں ہرفرد کوئی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کہ کوئی شخص بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ہر شخص کا مکان نجی اور پرائیویٹ معاملات کا مرکز اور اس کے بال بچوں کا مستقر ہوتا ہے۔ اس حق پر دست درازی خود فرد کی شخصیت پر دست درازی ہے اور یہ کسی طرح جائز نہیں۔ گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی صریح ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ عَلَى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (النور : 27، 28)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔ یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے ۔ پھر اگر وہاں کس کو نہ پاؤ تو وہاں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ سے خوب جانتا ہے“۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو ؛ اس لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بقول ان سے جزیہ اس لیے لیا جاتا ہے تا کہ ان کے جان و مال کی اسی طرح حفاظت کی جا سکے جس طرح ہمارے جان ومال کی حفاظت ہوتی ہے۔ ابن قدامة المعنى 9: 289

اقتصادی اور معاشی آزادی کا حق

غیر مسلم پر اسلامی حکومت میں کسب معاش کے سلسلہ میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، وہ ہر کارو بار کر سکتا ہے جو مسلمان کرتے ہوں ۔ سوائے اس کا روبار کے جو ریاست کے لیے اجتماعی طور پر نقصان کا سبب ہو۔ وہ جس طرح مسلمانوں کے لیے ممنوع ہوگا، اُسی طرح ان کے لیے بھی ممنوع ہوگا ، مثلاً سودی کاروبار، جو بالآخر پوری سوسائٹی کے لیے ہلاکت کا باعث بنتا ہے یا دیگر اس نوعیت کے کام وغیرہ۔ احکام القرآن میں آیت :

وأخذهم الربا وقد نهوا عنه و اكلهم اموال الناس بالباطل

اور

پايها الذين امنوا لا تكلوا أموالكم بينكم بالباطل

کے تحت امام جصاص اللہ فرماتے ہیں:

فوي بينهم و بين المسلمين في المنع من الربا

اللہ تعالیٰ نے ان ( ذمیوں ) اور مسلمانوں کے درمیان سود کی ممانعت کو برابر قراردیا ہے ۔“ احکام القرآن 19:4

پیشوں کے اعتبار سے وہ کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو اُجرت پر ان سے کام کروانے کی کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام میں کسی پیشہ کی وجہ سے کسی غیر مسلم سے کسی بھی نوعیت کی کوئی دوری رکھنے کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا تجارتی معاملات میں جو ٹیکس مسلمان دیتے ہیں وہ ان کوبھی دینا ہوگا۔

اقلیتوں سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرنا

دین اسلام میں ان غیر مسلموں کے ساتھ ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسر پیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیر خواہی ، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے:

لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الذِينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ( الممتحنة، 60 : 8)

(اے مسلمانو ! اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیکی کا برتا ؤ اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتاجو ،تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ( بلکہ ) اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ تحفظ اور سلامتی کا حق : اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ اگر اسلامی ریاست کا کسی دوسری قوم سے معاہدہ ہو تو اس قوم کے تحفظ و سلامتی کی ذمہ داری بھی اسلامی ریاست پر ہوگی :

وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقَ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مؤْمِنَةٍ ( النساء، 4 : 92)

اور اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن ( بھی ) ہو تو (صرف) ایک غلام باندی کا آزاد کرنا ( ہی لازم ) ہے اور اگر وہ ( مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان ( صلح کا معاہدہ ہے تو خون بہا ( بھی ) جو اس کے گھر والوں کے سپر د کیا جائے اور اور ایک مسلمان غلام باندی کا آزاد کرنا بھی لازم ) ہے۔“ اقلیتوں کی جان کی حرمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ سید نا عبداللہ بن عمرو رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا جس نے کسی ذمی کو (ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جاسکتی ہے ۔صحیح البخاری: 3066

مذہبی شعائر کا احترام

دین اسلام نے انسانی تکریم کے پیش نظر مسلمانوں پر حرام کر دیا ہے کہ وہ مشرکوں کے معبودوں کو گالی دیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس کے رد عمل میں اللہ کو گالی دیں۔ تو اس کا مقصد در حقیقت انسانی عزت کا تحفظ تھا، کیونکہ انسان جن چیزوں کو مقدس سمجھتا ہے، ان کے متعلق اس کے جذبات کا احترام کرنا در حقیقت اس کی تکریم ہی ہے، اگر مشرک اپنے معبودوں کی برائی نہیں گے تو رو عمل میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسلمانوں کے معبود کو برا بھلا کہیں گے۔ اگر چہ وہ توحید کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ بھی اللہ عزوجل کے وجود کو برحق مانتے ہیں ، اور جب مسلمان مشرکین کے معبودوں کو گالی دیں تو مشرک بھی رد عمل میں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں گے، جس طرح مسلمانوں نے ان کے جذبات کو مجروح کیا ہے اور یہ چیز ہر دو فریق کی عزت و تکریم کے منافی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ با ہم دونوں میں حسد و بغض اور کینہ پیدا ہوگا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( الانعام108)

اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے۔ امام قرطبی رحمہ اللّٰہ نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے:

لا يحل لمسلم أن يسب صلبانهم ولا دينهم ولا كنائسهم ولا يتعرض إلى ما يؤدي إلى ذلك لأنه بمنزلة البعث على المعصية

کسی مسلمان کے لئے یہ روانہیں ہے کہ وہ عیسائیوں کی صلیبوں، ان کے مذہب اور ان کے دیرو کلیسا کو برا بھلا کہے اور کوئی ایسا فعل انجام دے جو ان کی تو ہین کا باعث ہو۔ ایسا کرنا بذات خود ان کو معصیت کے ارتکاب پر برانگیختہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ (الجامع لأحكام القرآن: 617)‌

عبادت گاہوں کا تحفظ

نبی کریم سلام کے بعد دین اسلام کے سب سے بہترین طبقہ خلفائے کرام جب کوئی لشکر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے روانہ کرتے تو اس کے کمانڈر کو جنگ کے آداب کے متعلق با قاعدہ وصیت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اسامہ بن زید کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر بھیجا تو انہیں یہ وصیت کی :

إني موصيك بعشر : لا تقتلن امرأة ولا صبيا ولا كبيرًا هرما ولا تقطعن شجرا مثمرًا ولا تخربن عامرًا ولا تعقرن شاة ولا بعيرا إلا لماكلة ولا تغرقن نخلا ولا  تحرقنه، ولا تغلوا ولا تجبنوا وسوف تمرون بأقوام قد فرغوا أنفسهم في الصوامع فدعوهم وما فرغوا أنفسهم له

میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں ، کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا اور نہ ہی تخریب کاری کرنا سوائے کھانے کے کوئی اونٹ یا بکری ذبیح نہ کرنا، کھجور کے باغات کو ڈبونا نہ انہیں جلانا، خیانت کا ارتکاب نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا۔ تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جو معدوں میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں، ان سے اور ان کے کام سے تعرض نہ کرنا ۔ السنن الكبرى للبيهقي: 899 و تاريخ الطبرى: 2153

اپنا تبصرہ بھیجیں