پچے اور ہماری ذمہ دارياں

رمضان المبارک کیسے گزاریں

رمضان المبارک کیسے گزاریں

رمضان المبارک کی آمد قریب ہے ان شاء اللہ۔

اللهم بارك لَنَا فِي شَعْبَانَ وَيَلْغْنَا رَمَضَانَ

رمضان گناہوں کو جلانے والا مہینہ، شیطانوں کی شامت والا مہینہ، رحمتوں برکتوں اور مغفرتوں کے نزول کا مہینہ قرآن والا، جہاد والا بدر والا اور روزوں والا مہینہ سبحان اللہ اللہ تعالی اسے ہم سب کے لیے مبارک بنائے اور ہم سب کو خوب برکتیں رحمتیں اور بخشش عطاء فرمائے ۔ رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے لیے اسے کیسے گزارا جائے؟ کن اعمال کی کثرت جائے؟ کن چیزوں سے بچا جائے

ادب احتیاط اور عاجزی سے رہیں

رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت اور رحمت والا ہے اس مہینے کے دن بھی بابرکت اور اس کی راتیں بھی پرنور اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس مہینے کے داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ادب، عاجزی اور احتیاط کی کیفیت ایسا نہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہیں نفس کا جن بوتل سے باہر آ جائے اور گناہ کے کام اور شرار تیں شروع ہو جائیں۔۔۔

الٹی چھلانگ سے بچنا چاہئے

انسان کا نفس امارہ اور شیطان اس کو الٹی راہ پر ڈالتا ہے رمضان المبارک کا اصل مطلب ہے قربانی یعنی کم کھانا کم پینا، کم سونا زیادہ مال خرچ کرنا اور خوب جہاد کرنا اب شیطان نے انسانوں کو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے ، خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے ، خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آجائے اور خوب مال کمانا کہ ہر وقت بازار کے فساد زدہ ماحول میں بیٹھنا پڑے۔

کچھ کام بڑھادیں

رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ ، عبادات میں محنت کرنی چاہئے اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے، رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر آخری دن سورج غروب ہونے تک محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے چنانچہ فوری طور پر یہ کام بڑھا رینے چاہئیں.
1. نماز : یعنی فرائض و واجبات کا خوب اہتمام اور نوافل کی کثرت رمضان المبارک میں تراویح بہت بڑی نعمت ہے کوئی مسلمان اس نعمت سے محروم نہ ہو اور تہجد کا بھر پور اہتمام کیا جائے۔
2. تلاوت : کم از کم تین پارے اور زیادہ جس قدر ممکن ہو.
3. صدقات: یعنی خوب سخاوت کی جائے خوب مال خرچ کیا جائے ان مسلمانوں تک افطار اور کھانا پہنچایا جائے جو دشمنان اسلام سے ٹکر لے رہے ہیں یا اپنے گھروں سے محروم ہجرت پر مجبور ہیں.
4. جہاد: رمضان المبارک جہاد کا مہینہ ہے غزوہ بدر اس مہینے میں پیش آیا ۔ اس لیے غزوہ بدر کی ہر یاد تازہ کرنی چاہئے ، جان کی قربانی، مال کی قربانی جہاد کی دعوت مجاہدین کے اس ضروریات کی فراہمی یا جس کام پر تشکیل ہو جائے.
5. آخرت کی فکر : ہم نے اس دنیا میں نہیں رہنا اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، یہ فکر اور عقیدہ انسان کی اصلاح کے لئے لازمی ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ محاسبہ اور مذاکرہ کیا جائے جب فضول کو ٹھیاں بنانے ، مال جمع کرنے اور اس دنیا کی خاطر ذلیل ہونے کے عذاب سے نجات مل جائے گی اور اعمال میں اخلاص پیدا ہوگا یہ پانچ کام زیادہ کرنے ہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر عمل کی جان اخلاص اور ذکر میں ہے یعنی ہر عمل اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیا جائے اور ہر عمل میں اللہ تعالی کا ذکر اور اس کی یاد کا نور بھرا ہوا ہو تب وہ عمل قبول ہوتا ہے

کچھ کام بند کر دیں

1. بد نظری اپنی آنکھوں کی خوب حفاظت کرنی چاہئے ورنہ رمضان المبارک کا نور حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
2. ٹی وی بالکل بند کر دیں نہ خبریں نہ کچھ اور۔
3. گناہ والی مجالس وہ مجالس جن میں بے حیائی کی باتیں غیبت اور جھوٹ کا چلن ہو ان مجالس میں بیٹھنا بند کردیں۔

چند کام کم کردیں

کھانا، سونا، جائز لذت حاصل، گفتگو کرنا، دنیوی اخبارات ورسائل پڑھنا یہ تمام کام عام دنوں سے کم کر دینے چاہئیں۔

روزانہ کا سوال

روزانہ بلاناغہ دو رکعت نماز صلوۃ حاجت پڑھ کر دعا کیا کریں یا اللہ اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے رحمت ، مغفرت ، جہنم سے نجات اور عافیت والا مہینہ بنا ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن پر تیرا فضل ہے اور جن کی بخشش ہوئی ہے اور ہمیں اپنی پناہ عطاء فرما ان لوگوں میں شامل ہونے سے جو رمضان تو پاتے ہیں مگر ان کی بخشش نہیں ہوتی.

آخری عشرے کی حفاظت

رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ عید کے لئے نیا جوڑا بالکل ضروری نہیں ہے اور نئے جوتے کے بغیر بھی عید کی خوشیاں پوری طرح سے مل جاتی ہیں رمضان المبارک کا آخری عشرہ بازاروں میں ضائع کرنا افسوسناک ہے ۔ اس لیے جس طرح بھی انا پڑے آخری عشرے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اس عشرے کے دن اور رات قیمتی بنائے جائیں، افسوس کہ عید کی خریداری کے نام پر اپنی اصل خوشیوں کو برباد کرنے کا رواندا مسلمانوں میں عام ہو چکا ہے۔ ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہمارا آخری رمضان ہو اس لیے ہم اسے قیمتی بنالیں ہم اسے پالیں۔۔۔۔

چار اعمال کی کثرت

بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں چار کاموں کی کثرت کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو ان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے ذریعے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو گے اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے وہ دو کام جن سے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہوگی:
1. لا الہ الا اللہ کا ورد رکھنا۔
2. اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتے رہنا یعنی استغفار کرناف.
اور وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے ہو یہ ہیں:
1. جنت کا سوال کرنا۔
2 . جہنم سے پناہ مانگنا۔
رمضان المبارک میں روزانہ اگر پچیس سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کا معمول بنا لیں تو ان تیس دن میں 70 ہزار کلمے کا نصاب بھی پورا ہو جائے گا بلکہ کچھ تعداد زیادہ ہو جائے گی بہت سے اللہ والوں نے 70 ہزار کلمے کو مغفرت کے لیے بہت موثر عمل قرار دیا ہے اور رمضان المبارک میں تو ہر عمل کا اجر ویسے ہی ستر گنا بڑھ جاتا ہے ضروری نہیں کہ اپ باقاعدہ مصلے پر بیٹھ کر پڑھیں چلتے پھرتے کھاتے پیتے کپڑے دھوتے ہر وقت زبان پر ذکر اور درود شریف جاری رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے اسی طرح استغفار روزانہ 300 کا معمول ہو جائے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی کثرت 300 سے شروع ہوتی ہے اور جنت کے سوار اور جہنم سے پناہ کی دعا بھی تھی سو بار ہو جائے۔
اسی طرح ہر روزے کے لیے صحیح نیت اور سچی شرط ضروری ہے تا ہم نفس کو روکنے کی شرائط بہت سی ہیں چنانچہ کوئی شخص اسی وقت حقیقی روزہ دار ہوگا جب وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے بچائے اور اپنی انکھ کو شہوت کی نظر سے کان کو غیبت کے سننے سے زبان کو بےہودہ اور فضول گفتگو کرنے سے اور جسم کو دنیا کی تابعداری اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا کہ جب تو روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرا کان تیری انکھ تیری زبان تیرا ہاتھ اور تیرا ہر عضو روزہ رکھے اور نیز فرمایا بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوکا اور پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

افطار پارٹیوں سے بچیں

رمضان المبارک میں شیطان کا ایک پھندھا غفلت زدہ افطار پارٹیاں ہیں ان پارٹیوں میں کھانے کی حرص فضول گپ بازی اور قیمتی وقت کا ضیاع ہےنہ اپ کسی کو پارٹی دیں نہ کسی کی پارٹی میں جائیں ہاں کوئی دینی اجتماع ہو تو اس میں شرکت کر سکتے ہیں افطار کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے غریبوں کے گھر شہدائے کرام کے ورثاء کے گھر علمائے دین کی خدمت گاروں کے گھر افطاری اور کھانا بھجوا دیں افطاری کی رقم مجاہدین اور مہاجرین کو بھجوا دیں اگر کسی کو افطاری پر گھر بلائیں تو فضائل اعمال اور فضائل جہاد کی تعلیم کا اہتمام کریں ایک دوسرے کے مقابلے پر دعوتیں نہ کریں بلکہ اپنے وقت کو قیمتی بنے اور افطاری کا کھانا بھجوا دیا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں