ربیع الاول کی فضیلت

ربیع الاول کی فضیلت

ربیع الاول کی فضیلت

اس ماہ مبارک کی یہ فضیلت کافی ہے کہ یہ زمانہ حضور پرنورفخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ کا زمانہ ہے ۔ ہم اس ماہ کی فضیلت کے منکر نہیں، فضیلت اس میں ضرور ہے ۔ اگر اس میں فضیلت نہ ہوتی تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیوں پیدا کیے جاتے بلکہ جس زمانہ میں آپ کی ولادت ہوئی ہو وہ مہینہ ایسا نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے اس میں شرف نہ آئے جیسے کہ ولادت شریفہ کا مکان اسی وجہ سے معظم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت یعنی پیدائش کی جگہ ہے چنانچہ آج تک وہ موضع شریف محفوظ ہے اور لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ زمانہ بھی شریف ہوگا جس زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ۔ جیسے جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور سب سے افضل دن ہے کیونکہ اس دن میں حضرت آدم علیہ السلام کے تین واقعے ہیں، ایسا ہی یہاں بھی ربیع الاول میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تین واقعے ہیں۔ ایک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ولادت شریفہ کہ بالاتفاق اسی ماہ میں ہے جو آدم علیہالسلام کی ولادت کے مشابہ ہے ۔ اور دو سرے حضور صلی الہ علیہ وسلم کی بعثت اور نبوت ملنے کا واقعہ بعض روایات کے مطابق اسی ماہ میں ہوا، جو آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہونے کے مشابہ ہے ۔ اور تیسرا واقعہ وفات شریف کا ہے جو اسی ماہ میں ہوا.

ربیع الاول کو فضیلت پہلے سے تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے اس میں فضیلت آگئی؟

اس مہینہ کو فضیلت حاصل ہے خواہ وہ فضیلت اس طرح ہو کہ اس ماہ کو پہلے سے فضیلت عطا ہو گئی تھی اور اس ماہ کے فضیلت والا ہونے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ کے لیے اس کو خاص فرمایا اور اس طرح دوشنبہ کے دن میں فضیلت پہلے سے ہو، اور کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں پیدا کیا گیا ہو، جیسے جمعہ
میں فضیلت پیدا کر کے حضرت آدم علیہ السلام کو اس میں پیدا کیا گیا۔
اور ایسا ہی احتمال جمعہ میں بھی ہے کہ خود ولادت آدم علیہ السلام اور دیگر واقعات سے اس میں فضیلات آگئی ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے سے فضیلت ثابت ہو ، اور ان واقعات کو علامت کے طور پر ذکر فرمایا ہو۔ اسی طرح حضور صلے اللہ علیہ وسلم پیر کے دن روزہ رکھتے تھے او اس کی وجہ یہ بیان فرماتے تھے کہ

فِیهِ وَلدتُ وَفيهِ أُنزِلَ عَلَى

کہ اس دن میں پیدا کیا گیا اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا اس میں بھی دونوں احتمال ہیں کہ چونکہ میری ولادت اور بعثت سے اس میں فضیلت آگئی ہے اس لیے روزہ رکھتا ہوں یا یہ کہ یہ دن پہلے سے فضیلت کا ہے جس تو دونوں احتمال دونوں جگہ ہیں ، اور فضیلت کے ثبوت میں دونوں مفید ہیں خواہ وہ فضیلت سبب ہو یا مستب یعنی یہ اس کی فضیلت کا سبب ہو یا وہ اس کی فضیلت کی علامت ہو، دونوں میں کچھ مضائقہ نہیں ۔

ماه ربیع الاول زیادہ افضل ہے یا رمضان المبارک

اس ماہ ربیع الاول کی ایسی فضیلت و منقبت ہے جو بعض حیثیتوں سے تمام مہینوں کی فضیلت پر بڑھی ہوئی ہے اور یہ بعض حیثیتوں سے اس لیے میں نے کہا کہ رمضان المبارک کی فضیلت تو حق تعالے نے بھی بیان فرمائی ہے۔ پس رمضان المبارک کی فضیلت تو بنائی بھی ہے اور بتلائی بھی ہے اور ربیع الاول کی صرف بنائی ہے، بتائی نہیں، تو جس کی فضیلت بتائی بھی اور بنائی بھی وہ افضل ہے، اس ماہ سے جس کی فضیلت صرف بنائی ہو اور بتائی نہ ہو، اسی ہے لیے میں نے کہا کہ بعض حیثیت سے یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے اور بے وہ حیثیت یہی ہے کہ اس ماہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، پس خاص اس حیثیت سے اس کو رمضان پر بھی فضیلت ہے ۔ اور اگر نظر کو زیادہ وسیع کیا جائے تو رمضان المبارک کو اس حیثیت سے بھی ربیع الاول پر معنی فضیلت ہو سکتی ہے اس لیے کہ ربیع الاول میں یہ شرف کہاں سے آیا ؟ آپ کی ولادت شریفہ کا ظرف ہونے سے ، اور رمضان المبارک میں شرف کیوں ؟ آپ کی عبادت شریفہ کا ظرف ہونے سے پس ربیع الاول شریف تو ولادت شریفہ کا ظرف ہے اور رمضان المبارک عبادت مبارک کا ظرف ہوا، اور ظاہر ہے کہ حضور کی عبادت آپ کی ولادت سے افضل ہے اس لیے کہ ولادت (پیدائش) سے مقصود اور اس کی غایت عبادت ہی ہے، پس عبادت شریفہ کا ظرف ولادت شریفہ ولادت سے افضل ہے اس لیے کہ ولادت (پیدائش سے مقصود اور اس کی غایت عبادت ہی ہے ، پس عبادت شریفہ کا ظرف ولادت شریفہ کے ظرف سے افضل ہوا ۔ لیکن تاہم ربیع الاول کو اس خاص حیثیت سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں ولادت با سعادت ہوئی ہے ربیع الاول کی فضیلت بے شک ثابت ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی عبادت کی تخصیص درست نہیں کیوں کہ فضیلت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس فضیلت والے زمانہ کو شرعی دلیل کے بغیر جس عبادت کے لیے چاہے خاص کر لیا جائے.

ماہ ربیع الاول میں خصوصیت کے ساتھ مجالس منعقد کرنا

یہ تاریخ اگر چہ با برکت ہے لیکن چونکہ اس کی تخصیص اور اس میں اس ذکر کا التزام ثابت نہیں اس لیے بدعت ہے ۔ اس لیے اس تاریخ کی تخصیص کو ترک کر دیں گے بلکہ ہمارا اعتقاد ہے کہ تخصیص لازم کے بغیر اس ماہ ربیع الاول) میں ذکر میلاد جائز ہے

اس امت پر سب بڑا احسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے۔

لَقَدْ مَنَّ الله عَلَى المُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِم يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ. وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلمُهُمُ الكتب والحكمة وَإِن كَانُوا مِنْ تَبُلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينَ – وَالِ عمران)

یعنی حق تعالے نے مؤمنین پر احسان فرمایا کہ ان میں ایک رسول ان کی جنس سے بھیجا کہ وہ ان کو آیتیں اور احکام پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو ظاہری و باطنی نجاست و گندگیوں سے پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت سکھلاتے ہیں اور بے شک وہ اس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں تھے۔ اصل چیز اور احسان یہ ہے کہ حضور ہمارے لیے سرمایہ ہدایت ہیں ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خوش ہونے کی بہت سی چیزیں ہیں مثلاً حضور کی ولادت اور حضورصلی الله وسلم کی بعثت نبوت) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر تمام حالات مثلا معراج وغیرہ …. یہ سب حالات واقعی خوش ہونے کے ہیں لیکن اس حیثیت سے کہ ہما رے لیے یہ ہدایت اور ابدی سعادت ہمیشہ کی کامیابی کے ذرائع اور مقدمات ہیں اس لیے کہ آیت میں بعثت کے ساتھ یہ صفات بھی بڑھائی یتلوا علیهم ایاته پس بلاغت کے قاعدہ سے ثابت ہوتا ہے اور عقل میں بھی یہ بات آتی ہے، کہ اصل احسان کی چیز یہ صفات ہیں باقی بذات خود ولادت شریفہ یا معراج وہ بھی زیادہ باعث خوشی اس لیے ہیں کہ اس بڑی دولت کا مقدمہ دینی ذریعہ اور واسطہ ہیں۔ اس لیے کہ اگر ولادت شریفہ نہ ہوتی تو ہم کو یہ نعمت کیسے ملتی ۔ اس فرق کی وجہ سے خوشی میں بھی فرق ہو گا کہ جسا قدر خوشی ولادت شریفہ پر ہونا چاہئے۔ اس سے زائد نبوت شریفہ پر ہونا چاہیئے۔ اگر ولادت شریفہ کے ذکر کے لیے مجلس منعقد کی جائے تو بنوت مبارکہ کے ذکر کے لیے بدرجہ اولیٰ کی جائے۔

اسی طرح اہل مجالس کو چاہئے کہ اگر مجلس کریں تو معراج شریف اور فتح مکہ معظمہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات مبارکہ اور ہجرت کی بھی مجلسیں منعقد کیا کریں۔ اس لیے کہ جیسے ولادت شریفہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حال ہے۔ اسی طرح یہ بھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حالات ہیں ، بلکہ ان میں بعض حالات ولادت شریفہ سے بڑھ کر ہیں ۔ الغر من حق تعالیٰ کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ خوشی کے قابل یہی شی یعنی بنوت اور احکام شریعت ہیں ۔ اب بتلائیے اس پر کون اظہار خوشی کرتا ہے ؟
ایمان اور اعمال صالحہ بہت بڑی نعمت ہیں۔ اس لیے اس وقت ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت صرف ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے تو ہم اس دولت سے بالکل محروم رہتے. ہمارے اوپر حق تعالئ شانہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کی برکت سے ہم کو اس دولت سے سرفراز فرمایا۔ اسی کو حق تعالے شانہ نے احسان جتلا کر جا بجا قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے۔ کہیں فرماتے ہیں :

وَلَو لَا فَضْلُ الله عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَنَ الأَقلِيْلًا

دوسری جگہ ارشاد ہے :

ولولا فضل الله عَلَيْكُمُ وَرَحْمَة لكنتُم مِنَ الخَسِرِينَ

: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان مواقع میں فضل اللہ اور رحمت کی تفسیر بعثت محمدیہ یعنی آپ کی نبوت سے کی ہے تو آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اگر محمد صل اللہ علیہ وسلم کو مدعو فرما کر خدا تعالے تم پر فضل اور رحمت نہ فرماتے تو تم نا کام اور محروم رہتے۔ اور اگر اللہ تعالئے بعثت محمدیہ سے تم پر رحم و کرم نہ فرماتے تو تم شیطان کا اتباع کرنے لگتے سوائے تھوڑے سے آدمیوں کے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل فضل اور رحمت جو مسرت اور خوشی کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی برکت سے ایمان و اعمال صالحہ کی توفیق ہوئی اور اتنی بڑی نعمت حاصل ہوئی جس سے ہماری دنیا و آخرت سنور گئی۔ اور انشاء اللہ اس کی برکت سے ہم جنت میں خوشیاں منائیں گے ۔

لیکن اب لوگ حضور صلی الہ علیہ وسلم کے ظہور دینی پیدائش وغیرہ کے متعلق برکات کو بیان کرتے ہیں۔ معنوی برکات یعنی ایمان معرفت الٰہی ،جنت حاصل ہوگی۔ دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوگی۔ یہ سب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے حاصل ہوئی ہیں، ان برکات کو لوگ آج کل بیان ہی نہیں کرتے، بالکل ہی چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ زیادہ ضرورت اسی کے بیان کرنے کی ہے کیوں کہ آپ کے ظہور کا اثر اور اس کی برکت کے آثار تو محسوس ہیں کہ تمام عالم کا وجود آپ کے نور کے طفیل سے ہوا۔ اور اس کے آثار یعنی ایمان و اعمال کے آثار قیامت اور جنت میں معلوم ہوں گے اور یہاں ان کی طرف سے غفلت ہے اس لیے زیادہ ضرورت اسی کے بیان کرنے کی ہے۔ نیز آپ کے ظہور کا اثر تویہ ہوا کہ ہم موجود ہو گئے مگر صرف موجود ہونے سے کچھ زیادہ فضیلت نہیں ہو سکتی۔ پوری فضیلت ایمان و معرفت الہی اور اعمال صالحہ ہی سے حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ اس لیے بھی اس کے بیان کرنے کی زیادہ ضرورت ہے ) کے.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بہت بڑی نعمت ہے

اس نعمت کا شکریہ اور اس پر فرحت ضروری ہے اس میں کسی مسلمان کو شک وشہ نہیں کہ حق تعالے کی ہر نعمت قابل شکر ہے خصوصا جو بڑی نعمت ہو، پھر خصوصا جو دینی نعمت ہو، اور دینی نعمتوں میں سے بھی جو بڑی نعمت ہو۔ پھر ان میں بھی خاص وہ نعمت جو تمام دینی اور دنیاوی نعمتوں کی اصل ہے ۔ اور وہ نعمت کیا ہے ؟ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کیونکہ دنیوی نعمتوں کے سرحشیہ بھی آپ ہی ہیں اور صرف مسلمانوں ہی ۔ لیے نہیں بلکہ تمام عالم (ساری دنیا) کے لیے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ الأَرَحْمَةُ لِلْعَالَمِينَ

: یعنی اے محمدصلی اللہ وسلم نے نہیں ہیں آپ کو مگر جانوں کی قیت کے واسطے ۔

دیکھئے عالمین میں کوئی تخصیص نہیں ۔ اس میں انسان غیر انسان مسلمان یا غیر مسلمان کی کوئی تخصیص نہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی الہ علیہ وسلم کا وجود ہر شئی کے لیے باعث رحمت ہے۔ خواہ وہ حضور کے زمانہ سے مقدم ہوں یا موخر کیوئی اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وجود سب سے پہلے پیدا فرمایا اور وہ نور کا وجود ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وجود نوری کے اعتبار سے سب سے پہلے پیدا ہوئے ہیں اور آخر زمانہ میں اس امت کی خوش قسمتی سے اس نور نے جید عنصری میں جلوہ گر و تاباں ہوکر تمام عالم کو نور فرمایا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم اول و آخر اتمام عالم کے لیے باعث رحمت ہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام نعمتوں کی اصل ہونا ثابت ہوا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام نعمتوں کی اصل ہے اور نعمتوں پر شکر اور فرحت خوشی کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے لیے معیار شریعت ہے، شریعت کے قواعد سے جو خوشی جائز ہے اس کی تو اجازت ہے اور جونا جائز ہے وہ ممنوع ہے۔ مثلا نماز ایک دینی نعمت ہے اس پر اگر کوئی شخص خوش ہوا اور خوشی میں اگر یہ کرے کہ بجائے چار رکعت کے پانچ رکعت پڑھنے لگے تو بجائے اس کے کہ ثواب ہو، الٹا گناہ ہو گا۔ اس لیے کہ اس نے شریعت کے قاعدہ سے تجاوز کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں