ناموس رسالت کی حفاظت کیجئے

ناموس رسالت کی حفاظت کیجئے

ناموس رسالت کی حفاظت کیجئے

سورہ ہمزہ کی وضاحت

ہمزہ کے معنی
باری تعالی فرماتے ہیں

وَبَل لِكُلِّ هُمَزَةٍ لمرة

بڑی خرابی اور تباہی ہے اس شخص کے لئے جو پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائی کرنے والا ہو، اور منہ پر لوگوں کو طعنے دینے والا ہو، همزة کے معنی وہ شخص جو غیبت کرنے کا عادی ہو، یعنی لوگوں کے پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں بیان کرتا ہو، مزے لینے کے لئے اور مجلس آرائی کی خاطر اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے دوسروں کی برائی بیان کرنے والا ہو۔
لمزة کے معنی

اور لمزۃ کے معنی وہ شخص جو لوگوں کے منہ پر ان کو طعنے دینے والا ہو، دیکھیں ایک یہ کہ کسی شخص کو خیر خواہی کے تحت اس کی کوئی غلطی اس کو بتا دینا، تا کہ وہ اپنی اصلاح کرلے، یہ تو خیر خواہی کی بات ہے، لیکن منہ پر طعنے دینا، اور اس کی وجہ سے لوگوں کا دل دکھانا ، یہ بہت بڑا گناہ ہے، اور ” لُمَزَة ” ایسے ہی شخص کو کہتے ہیں

الذِی جَمَعَ مَالاً وعَدَدَة

وہ شخص جس نے مال جمع کر کے رکھا ہے، اور اس کو گنتا رہتا ہے کہ آج میرا مال اتنا ہو گیا، آج اتنا ہو گیا

يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ اخْلَدَهُ

وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا ، یعنی میر امال مجھے موت سے نجات دلوادے گا ، اور میں ہمیشہ اس مال کی بدولت زندہ رہوں گا۔

ایسے شخص کا انجام

كَلَّا لَيُنْبَدَنَّ فِي الْحُطَمَة

باری تعالیٰ فرماتے ہیں: ایسا ہر گز نہیں ہوگا، بلکہ ایسا شخص جو غیبتیں کرتا ہو، لوگوں کو طعنے دیتا ہو، اور مال کو جمع کر کے اس کو گنتار ہتا ہو، اس کے اوپر جو حقوق و فرائض اللہ تعالیٰ نے عائد کئے ہیں، ان کو ادا نہ کرتا ہو، ایسے شخص کو ضرور بالضرور ایسی آگ میں پھینکا جائے گا جو ہڈیاں توڑ دیگی ۔ پھر فرمایا

وَمَا أَدْرَكَ مَا الْحُطَمَة

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرمایا کہ آپ کو کیا پتہ کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے والی آگ کیسی ہے

نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَة

وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہے، جو انسانوں کے دلوں تک جاپہنچے گی۔ یہ اس سورت کا ترجمہ ہے۔

سورۃ کا موقع نزول

یہ سورت اس موقع پر نازل ہوئی تھی جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اسلام کی دعوت کا آغاز فرمایا تو بہت سے لوگ آپ کے دشمن ہوئے ، اور دشمنی میں حد سے تجاوز کرنے لگے، اسی دشمنی کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وہ لوگ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پیچھے برائیاں بھی کرتے تھے، اور آپ کو برا بھلا بھی کہتے تھے، اور اگر کبھی سامنے آجاتے تو سامنے بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو طعنے دیا کرتے تھے۔

محمد دال کے بجائے مذمم نام پکارنا

طعنے بھی اس طرح دیتے تھے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان کافروں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طرح طرح کے نام رکھے ہوئے تھے۔ العیاذ بااللہ ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی تو محمد تھا، اور ماں باپ کا رکھا ہوا تھا، اور محمد کے معنی ہیں تعریف کیا ہوا شخص ، یعنی ایسا شخص جس کی سب تعریف کریں ، اور در حقیقت یہ نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا تھا، ایسا نام ہے کہ نام کے اندر ہی تعریف داخل ہے، یعنی وہ ذات جس کی سب تعریف کریں ، وہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، لیکن کفار قریش اپنی جلن کے مارے، حسد کے مارے آپ کو محمد کے بجائے مذمم کہتے تھے، مدمم کے معنی محمد کے بالکل الٹ ہے یعنی وہ ذات جس کی مذمت اور برائی کی جائے۔ ، اس کو مندمم کہتے ہیں، کفار قریش کا طوطی بولتا تھا، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا تھوڑی تھے، اس کے علاوہ وہ کفار قریش بری بری بددعائیں دیتے تھے ، برے برے کلمات آپ کے لئے استعمال کرتے تھے، بعض اوقات لعنت کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔

اللہ نے مجھے بچا لیا

ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے ان کی بد دعاؤں اور لعنتوں سے کس طرح بچایا ہے کہ جب لعنت کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مذمم پر لعنت ہو، اور میں محمد ہوں ، لہذا یہ لوگ لعنت کرتے ہیں، میں تو مذمم نہیں ہوں ، ماں باپ کی طرف سے بھی اور اللہ کی طرف سے بھی میرا نام محمد ہے۔ لہذا ان کی لعنت مجھ پر نہیں پڑتی، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرح ان کی لعنت سے بچایا ہوا ہے، غرض یہ کہ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کا ہر طریقہ اختیار کیا ہوا تھا، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ پیٹھ پیچھے بھی آپ کی برائیاں بیان کرتے اور سامنے آکر بھی طعنے دیا کرتے تھے، جس پر یہ سورت ہمزہ نازل ہوئی۔

بہر حال یہ سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی ایسے بد باطن ، ایسے پست ذہنیت رکھنے والے موجود تھے، جن کے پاس دلیل سے اپنا مدعی ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا، جب کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری اور آپ کی رسالت پر، آپ کی سچائی پر ، آپ کی امانت اور دیانت پر ساری دنیا گواہ ہے، اور ان بد باطن پست ذہنیت رکھنے والے دشمنان اسلام کے پاس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں تھا ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ اللہ ایک ہے، اور یہ پتھر کے بت جو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں، تمہارے پیدا کئے ہوئے ہیں، ان کو تم نے اپنا خالق اور اپنا معبود مان لیا؟ یہ ایسی بات تھی کہ اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فلاں بت ہمیں رزق دیتا ہے، فلاں بت ہمیں اولا د دیتا ہے، فلاں بت فلاں مقصد کے لئے ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ کس نے آکر تمہیں بتادیا کہ یہ فلاں بت تمہیں رزق دے رہا ہے؟ حالانکہ یہ رزق دینے والا بت خود تم نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر یہاں رکھا ہے، یہ تمہیں رزق کیسے دے گا؟ یہ تمہیں اولاد کیسے دے گا ؟ وہ ذات جس نے زمین پیدا کی ، جس نے آسمان پیدا کیا ، جس نے دریا پیدا کئے، جس نے بادل اٹھائے ، وہی ذات خالق و مالک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے، ان باتوں کا کوئی معقول جواب دلیل کے ساتھ ان کے پاس نہیں تھا۔

کھسیانی بلی کھمبا نوچے

جب آدمی دلیل کے میدان میں شکست کھا جاتا ہے، لیکن بہٹ دھرم ہوتا ہے، اس وقت وہ ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے، جیسے ہمارے یہاں مثال مشہور ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے جب اس کو کہنے کے لئے کوئی بات نہیں مارچ پر اتر آتا ہے، وہ سب و شتم کرنے لگتا ہے، وہ طعنے دینے لگتا اللہ تعالیٰ نے اسلام کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور بعد کے زمانے میں قوت اور شوکت عطا فرمائی ، تو جولوگ اسلام کے آگے ہر طرح سے مغلوب ہو گئے تھے، دلیل سے بھی مغلوب ، اور قوت سے بھی مغلوب، تو اس وقت وہ لوگ اوچھی حرکتوں پر اور اوچھے ہتکنڈوں پر اتر آئے تھے ، اور برا بھلا کہنا شروع کر دیتے تھے۔

جدید تہذیب کے علمبرداروں کا حال آج بھی جدید تہذیب اور جدید ثقافت کے دعویدار جنہوں نے اپنی تہذیب اور تمدن کا ڈھنڈورا پیٹا ہوا ہے، جنہوں نے یہ ڈھنڈورا پیٹا ہوا ہے کہ ہم انسانوں کے حقوق کے علمبردار ہیں، ان میں اور ان بد باطن کا فروں میں آج ذرہ برابر فرق نہیں رہا، آج ان کے پاس بھی اسلام کے خلاف کوئی دلیل نہیں، دلیل کے میدان میں یہ شکست کھا چکے ہیں،

پست ذہنیت والوں کے اوچھے ہتکنڈے ی در حقیقت ان کی پستی کی ، ان کی شکست کی ، ان کی مغلوبیت کی دلیل ہے کہ ان کے پاس دلیل کے میدان میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، اس وجہ سے اپنا غصہ، اپنی حسد، اور اپنی جلن کا مظاہرہ ان اوچھے ہتکنڈوں کے ذریعہ کر رہے ہیں کبھی ۔ معاذ اللہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنی شروع کردیں، کبھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ معاذ اللہ ۔ کارٹون بنانا شروع کر دیے، اور اب سارے اسلام دشمنوں کو دعوت دے کر عالمی سطح پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹونوں کا مقابلہ کرایا جا رہا ہے۔

دلیل کے میدان میں شکست خوردگی

یہ ساری باتیں در حقیقت دلیل کے میدان میں شکست خوردگی کی علامت ہیں، جس کے پاس دلیل ہوتی ہے، وہ کبھی گالی نہیں دیتا، وہ کبھی دوسروں کو طعنے نہیں دیتا، وہ دلیل سے بات کرتا ہے ، اور دلیل کے ذریعہ اپنی بات دوسروں کو سمجھاتا ہے، دلیل کے ذریعہ دوسروں کی بات کی تردید کرتا ہے، لیکن جسکے پاس دلیل نہیں ہوتی ، وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے کہ کبھی اس کو برا بھلا کہہ دیا ہی اس کی تصویر شائع کر دی، کبھی اس کے کارٹون نکال دیے، یہ تو خود ان کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل کا کوئی جواب نہیں رکھتے ، سوائے اس کے کہ اپنے غصے کی آگ کو ان اوچھے ہتکنڈوں سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں، چنانچہ یہ کر رہے ہیں، حقیقت میں یہ شکست خوردگی کا اعتراف ہے۔

مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج

دوسری طرف مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج بھی ہے کہ جو لوگ محمد عربی کے نام لیوا ہیں، اور جوحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعویدار ہیں، وہ ان اوچھے ہتکنڈوں کے جواب میں کیا کرتے ہیں، یہ ایک چیلنج ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پوری امت مسلمہ کو غیرت ایمانی کے ساتھ اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے کہ پوری امت مسلمہ اس بات کا مظاہرہ کرے کہ وہ اپنے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر اپنی جان تک قربان کرنے کے لئےتیار ہیں ۔

حضور اللہ کی محبت کس درجہ کی ہو؟

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا تھا کہ

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمُ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَوَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب میں اس کو اپنی جان سے، اپنے والدین سے، اپنی اولاد سے، اور ساری دنیا کے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ ارشادسن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ، الحمد للہ ! آپ مجھے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ مجھے اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں، ساری دنیا کے انسانوں 13/20 زیادہ محبوب ہیں، لیکن مجھے شک ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے اپنی جان زیادہ پیاری لگتی ہو، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سینہ پر ہاتھ رکھا، اور فرمایا کہ جب تک اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہیں سمجھ لو گے اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے ، اس کے فورا بعد ایک دم سے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ میں انقلاب آ گیا ، اور عرض کیا کہ یا رسول الله الان“ اب مجھے یقین ہے کہ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔

حضور ﷺ کی محبت کی ایک مثال

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اپنے قول و فعل سے اپنے عمل سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق کی وہ مثالیں پیش کی ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم کوئی ملت اپنے مقتداء اپنے پیغمبر اور اپنے رہنما کی محبت کی ایسی مثال پیش نہیں کی ، حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں، بچپن میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر اپنا دست مبارک رکھ دیا تھا، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق عطا فر مادی ، تو جس جگہ پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا تھا، انہوں نے ساری زندگی اس جگہ سے بال نہیں کٹوائے کہ یہ وہ بال ہیں جن سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چھوا ہے۔ صحابہ کرام کے عشق و محبت کا یہ حال تھا۔

آج مسلمانوں کی آزمائش ہے

آج ایک چھوٹی سی آزمائش ہے کہ تم ربیع الاول کے مہینے میں عید میلادالنبی بھی مناتے ہو، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوی بھی کرتے ہو، آج تمہارا یہ چھوٹا سا امتحان ہے، کہ جو لوگ دریدہ دھنی کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے بارے میں تمہارا رویہ کیا ہے؟ کیا پھر بھی تم ان کے ساتھ دوستی کا تعلق رکھو گے؟ کیا پھر بھی تم ان کو معاشی فوائد پہنچانے کی کوشش کرو گے؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہماری تعریف اور ہماری تقدیس سے بے نیاز ہیں، ان کے بارے میں خود اللہ جل شانہ نے یہ فرما دیا کہ “وَرَفَعْنَا لَكَ ذِکرَک کہ ہم نے تمہارے تذکرے کو بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ دیکھ لو۔ ایسا بلند مقام کے چوبیس گھنٹے میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ کی صدا بلند نہ ہوتی ہو، ہر وقت اور ہر لمحہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بلند بانگ سے دی جارہی ہے، اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے ذکر کو اتنا بلند فرمایا ، یہ لوگ ہزار بدزبانیاں کیا کریں لیکن کائنات کی ساری قوتیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور تقدیس کے گیت گاتی ہیں، اور آپ پر درود بھیجتی ہیں۔

إنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ

اللہ جل شانہ ان پر رحمت بھیجتے ہیں، فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں ، ان کو نہ ہمارے تمہارے درود کی حاجت ہے، ان کو نہ ہماری اور تمہاری تعریف کی ہے، اور نہ بد باطن لوگوں کی طرف سے کسی تعریف کی حاجت ہے، وہ ذات تو اس سے بلند و برتر و بالا ہے، ان تمام تعریفات سے بلند ہے۔ پیدائش کے وقت سے تعریف اس کو تو پیدائش کے وقت سے اللہ تعالیٰ نے ”محمد“ قرار دیا، ذات تو اس سے بلند و برتر و بالا ہے، ان تمام تعریفات سے بلند ہے۔

اس سورہ ہمزہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ

”وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ “

ان کے لئے بربادی ہے، آج یہ لوگ خوب خوش ہو جا ئیں کہ ہم نے اپنا منصوبہ پورا کر لیا، اور اس پر ناز کریں، لیکن ان کا انجام بربادی ہے، وہ بربادی یہ ہے کہ

ليُنبَزَنَّ فِي الْحُطَمَة

ان کو اس آگ میں پھینک دیا جائے گا ، جو ہڈیوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةِ

یہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہے، جس میں یہ داخل ہوں گے، جو آگ ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی ، یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے، میری طرف سے نہیں ہے، کسی بندے اور کسی انسان کی طرف سے نہیں ہے، یہ تو ہو کر رہے گا ، جن بد بختوں نے یہ کاروائی کی ہے، ان بد بختوں کو بالآخر اپنے اس انجام کا سامنا کرنا ہی پڑے گا، وہ اس دنیا میں چاہے کامیابی کے جھنڈے گاڑیں، یا اس پر خوشیاں منائیں، لیکن آخرت میں یہ ہوکر رہے گا، لیکن دنیا کے اندر بھی ہمارا کچھ فریضہ ہے، اللہ تعالی اپنےفضل اپنی رحمت سے ہمیں اس فریضہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

اپنا تبصرہ بھیجیں