اشتراکیت
اشتراکیت
اشتراکیت در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی۔ سرمایہ دارانہ فلسفے کا پورا زور چونکہ اس بات پر تھا کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے ہر شخص آزاد ہے، اور معیشت کا ہر مسئلہ بنیادی طور پر صرف رسد وطلب کی بنیاد پر طے ہوتا ہے، اس لئے اس فلسفے میں خارج خامہ اور غریبوں کی بہبود وغیرہ کا کوئی واضح اہتمام نہیں تھا، اور زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں کمزور افراد کے پیسنے کے واقعات بکثرت پیش آئے، جس کے نتیجے میں غریب اور امیر کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ گئے۔ اس لئے اشتراکیت ان خرابیوں کے سد باب کا دعویٰ لے کر میدان میں آئی، اور اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے کو چیلنج کرتے ہوئے یہ ماننے سے انکار کیا کہ معیشت کے مذکورہ بالا چار بنیادی مسائل محض ذاتی منافع کے محرک شخصی ملکیت اور بازار کی قوتوں کی بنیاد پر حل کئے جاسکتے ہیں۔ اشتراکیت نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کے تمام بنیادی مسائل کو رسد و طلب کی اندھی بہری طاقتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو خالصتاً ذاتی منافع کے محرک کے طور پر کام کرتی ہیں اور ان کو فلاح عامہ کے مسائل کا ادارک نہیں ہوتا۔ خاص طور سے آمدنی کی تقسیم میں یہ قوتیں غیر منصفانہ نتائج پیدا کرتی ہیں۔ جس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر مزدوروں کی رسد زیادہ ہو تو ان کی اجرت کم ہو جاتی ہے اور بسا اوقات مزدور اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ انتہائی کم اجرت پر کام کریں اور جو پیداوار ان کی محنت سے تیار ہو رہی ہے اس میں سے انہیں اتنا بھی حصہ نہ مل سکے جس کے ذریعے وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے زندگی کا انتظام کر سکیں۔ چونکہ ان کی محنت کی طلب رکھنے والے سرمایہ دار کو اس سے غرض نہیں کہ جس اُجرت پر وہ ان سے محنت لے رہا ہے، وہ واقعتا ان کی محنت کا مناسب صلہ اور ان کی ضروریات کا واقعی تفصیل ہے یا نہیں؟ اسے تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ رسد کی زیادتی کی وجہ سے وہ اپنی طلب کی تسکین نہایت کم اجرت پر کر سکتا ہے، جس سے اس کے منافع میں اضافہ ہو، لہذا اشتراکیت کے نظریہ کے مطابق آمدنی کی تقسیم کے لئے رسد و طلب کا فارمولا ایک ایسا بے جس میں غریبوں کی ضروریات کی رعایت نہیں، بلکہ وہ سرمایہ دار کے ذاتی منافع کے محرک کا تابع ہے اور اسی مدار پر گردش کرتا ہے۔
ای طرح ترجیحات کے تعین، وسائل کی تخصیص اور ترقی جیسے اہم معاشی مسائل بھی اشتراکیت کے نزدیک رسد و طلب کی اندھی بہری قوتوں کے حوالے کرنا معاشرے کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ ایک نظریاتی فلسفے کے طور پر تو یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ ذاتی منافع کے محرک کے تحت ایک زراعت پیشه مشخص، یا ایک صنعت کار اس وقت تک اپنی پیداوار جاری رکھے گا جب تک کہ اس کی رسد طلب کے برابر نہ ہو جائے اور جب رسد طلب سے بڑھنے لگے گی تو وہ پیداوار بند کر دے گا، لیکن عملی دُنیا میں دیکھا جائے تو کسی تاجر یا زراعت پیشہ کے پاس ایسا کوئی نپا تلا پیمانہ نہیں ہوتا جس کی مدد سے وہ بر وقت یہ جان سکے کہ اب فلاں پیداوار کی رسد طلب کے برابر ہوگئی ہے، لہذا وہ بسا اوقات یہ سوچ کر پیداوار میں اضافہ کرتا جاتا ہے کہ ابھی اس چیز کی رسد ضرورت اور طلب کے مقابلے میں کم ہے، حالانکہ بازار میں حقیقی رسد زیادہ ہو چکی ہوتی ہے اور اسے اس حقیقت کا پتا کافی دیر میں چلتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بازار میں بسا اوقات ایسی چیزوں کی فراوانی ہو جاتی ہے، جن کی طلب اتنی زیادہ نہیں ہے، اور اس طرح معیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے کارخانے بند ہو جاتے ہیں، تاجر دیوالیہ ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کی معاشی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، لہذا محض رسد وطلب کی بنیاد پر ترجیحات کا تعین اتنے توازن کے ساتھ نہیں ہوسکتا، جس کی معاشرے کو واقعی ضرورت ہےاب سوال یہ ہے کہ پھر مذکورہ بالا چاروں مسائل کو حل کرنے کا کیا طری۔ ہونا چاہئے؟ اس کے جواب میں اشتراکیت نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ بنیادی خرابی یہاں سے پیدا ہوئی کہ وسائل پیداوار یعنی زمینوں اور کارخانوں کو لوگوں کی انفرادی ملکیت قرار دے دیا گیا۔ ہونا یہ چاہئے کے تمام وسائل پیداوار افراد کی شخصی ملکیت میں ہونے . کے بجائے ریاست کی اجتماعی ملکیت میں ہوں، اور جب یہ سارے وسائل ریاست کی ملکیت میں ہوں گے تو حکومت کو یہ پتہ ہوگا کہ اس کے پاس کل وسائل کتنے ہیں ؟ اور معاشرے کی ضروریات کیا کیا ہیں؟ اس بنیاد پر حکومت ایک منصوبہ بندی کرے گی ، جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ معاشرے کی کن ضروریات کو مقدم رکھا جائے ؟ کوئی چیز کس مقدار میں پیدا کی جائے؟ اور مختلف وسائل کو کس ترتیب کے ساتھ کن کن کاموں میں لگایا جائے؟ گویا ترجیعات کا تعین، وسائل کی تخصیص اور ترقی کے تینوں کام حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائیں۔ رہا آمدنی کی تقسیم کا سوال! 5 اشتراکیت نے دعوئی یہ کیا کہ حقیقتا عالی پیداوار صرف دو چیزیں ہیں، زمین اور محنت ۔ زمین چونکہ انفرادی ملکیت نہیں بلکہ اجتماعی ملکیت میں ہے، لہذا اس پر لگا بندھا کر یہ یالگان دینے کی ضرورت نہیں۔ اب صرف محنت رہ جاتی ہے، اس کی اجرت کا تعین بھی حکومت اپنی منصوبہ بندی کے تحت ہو.
جس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے مذکورہ چاروں بنیادی مسائل کو صرف ذاتی منافع کے محرک اور بازار کی قوتوں کی بنیادوں پر حل کرنا چاہا تھا، اسی طرح اشتراکیت نے ان چاروں مسائل کے حل کے لئے ایک ہی حل تجویز کیا ، یعنی منصوبہ بندی اسی لئے اشتراکی معیشت کو منصوبہ بند معیشت (Planned Economy) کہا جاتا ہے، جس کا عربی ترجمہ “اقتصاد موجهة“ یا اقتصاد مخطط “ کہا گیا ہے۔
اشتراکیت کے بنیادی اُصول اشتراکیت کے مذکورہ بالا فلسفے کے نتیجے میں اشتراکی معیشت میں مندرجہذیل بنیادی اصول کارفرما ہوتے ہیں:۔
ا اجتماعی ملکیت (Collective Property) اشتراکیت کے مذکورہ اصول کا مطلب یہ ہے کہ وسائل پیداوار یعنی زمینیں اور کا رخانے وغیرہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہوں گے بلکہ وہ قومی ملکیت میں ہوں گے، اور حکومت کے زیر انتظام چلائے جائیں گے، ذاتی استعمال کی اشیاء ذاتی ملکیت ہوسکتی ہیں، لیکن وسائل پیداوار پر کوئی ذاتی ملکیت نہیں ہوسکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹھیٹ اشتراکی ممالک میں نہ صرف زمینیں اور کار خانے ، بلکہ تجارتی دُکانیں بھی کسی فرد واحد کی ملکیت میں نہیں ہوتیں، ان میں کام کرنے والے افراد سب حکومت کے ملازم ہوتے ہیں اور حاصل ہونے والی آمدنی تمام تر سرکاری خزانے میں جاتی ہے، اور کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہ یا اُجرت حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت دی جاتی ہے۔
(Planning) اشترا کی نظام کا دوسرا بنیادی اُصول منصوبہ بندی ہے، اس کا مطلب یہ ہے که تمام بنیادی معاشی فیصلے حکومت منصوبہ بندی کے تحت انجام دیتی ہے، اس منصوبہ بندی میں تمام معاشی ضروریات اور تمام معاشی وسائل کے اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسے وسائل کس چیز کی پیداوار میں لگائے جائیں؟ اور کوئی چیز کس مقدار میں پیدا کی جائے؟ اور نیز کس شعبے میں محنت کرنے والوں کی کیا اجات مقرر کی جائے ؟
حکومت کی طرف سے معیشت کی منصوبہ بندی کا تصور أصلاً تو اشتراکیت پیش کیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ سرمایہ دار ملکوں نے بھی جزوی طور پر منصوبہ بندی اختیار کرنی شروع کردی، جس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار ممالک رفتہ رفتہ اپنے اس اُصول پر مکمل طور پر قائم نہ رہ سکے کہ حکومت معیشت کے کاروبار میں بالکل مداخلت نہ کرے، بلکہ مختلف اجتماعی مقاصد کے تحت سرمایہ دار حکومتوں کو بھی تجارت و معیشت میں کچھ نہ کچھ مداخلت کرنی پڑی، یہاں تک کہ مخلوط معیشت (Mixed Economy) کے نام سے ایک نئی اصطلاح وجود میں آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ بنیادی طور پر معیشت کو بازار کی قوتوں کے تحت ہی چلایا جائے لیکن ضرورت کے تحت تجارت و صنعت کے بعض شعبے خود سرکاری تحویل بھی بھی ہو سکتے ہیں، جیسے بعض سرمایہ دار ملکوں میں ریلوے، بیلی، ٹیلیفون اور فضائی سرویس وغیرہ سرکاری تحویل میں ہوتی ہے، اور جو تجارتیں نجی طور پر چلائی جارہی ہیں، حکومت ان کو بھی کچھ قواعد وضوابط کا پابند بنا دیتی ہے۔ پہلی قسم کی تجارتوں کو سرکاری شعبہ (Public Sector) اور دوسری قسم کو نجی شعبہ (Private Sector) کہا جاتا ہے۔ اب اس مخلوط معیشت میں چونکہ حکومت کی فی الجملہ مداخلت ہوتی ہے، اس لئے جزوی طور پر اسے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے، اس جزوی منصوبہ بندی کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے عموماً پنج سالہ منصوبے تیار کئے جاتے ہیں، لیکن یہ جزوی منصوبہ بندیاں ہیں جبکہ اشتراکیت کی منصوبہ بندی، کلی منصوبہ بندی ہے، یعنی اس میں ہر معاشی فیصلہ اس سرکاری منصوبہ بندی کا تابع ہوتا ہے۔
(Collective Interest) اشتراکیت کا تیسرا اصول اجتماعی مفاد ہے، یعنی اشتراکیت کا دعوی یہ ہے که سرمایه دارانہ معیشت میں ساری معاشی سرگرمیاں افراد کے ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہیں، لیکن اشتراکی نظام میں منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی مفاد کو بنیادی طور پر مد نظر
رکھا جاتا ہے
م آمدنی کی منصفانہ تقسیم (Equitable Distribution of Income) اشتراکیت کا چوتھا اُصول یہ ہے کہ پیداوار سے جو کچھ آمدنی حاصل ہو، وہ افراد کے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم ہو، اور غریب و امیر کے درمیان زیادہ فاصلے نہ ہوں، آمدنیوں میں تو از ان ہو۔ شروع میں دعوئی یہ کیا گیا تھا کہ اشتراکیت میں آمدنی کی مساوات ہوگی ، یعنی سب کی آمدنی برابر ہوگی ، لیکن عملاً ایسا کبھی نہیں ہوا ، لوگوں کی اجرتیں اور تنخواہیں کم زیادہ ہوتی رہیں۔ البتہ اشتراکیت میں کم سے کم یہ دعوئی ضرور کیا کیا ہے کہ اس نظام میں تنخواہوں اور اجرتوں کے درمیان تفاوت بہت زیادہ نہیں ہے۔