
ایثار کی اہمیت و فضیلت
ایثار کی اہمیت و فضیلت
آج دنیا کے ماحول پر مادیت کا غلبہ ہے۔ خواہشِ نفس پیروی نے نیکی اور بدی کی پہچان کو بھی بدل دیا ہے۔ خود غرضی نے انسانیت کی قدر میں منادی ہیں۔ معیار زندگی بلند کرنے کی ہوس نے لوگوں کو بدعنوانی کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ انس و محبت کے خمیر سے پیدا کیا گیا انسان درندہ صفت حیوان بن گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کیلئے بے قرار ہے۔ امیر غریبوں: بے بسوں اور لاچاروں کے خون پسینے کا کاروبار کرنے لگا ہے اور اس سے اپنی زندگی کی عالیشان عمارت کھڑی کرتا ہے۔
خود غرضی نے پوری انسانیت میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس خطرناک مرض کا یہ حال ہے کہ اسے کو سا جاتا ہے مگر اس کے علاج کی فکر نہیں ہوتی لیکن اس بیماری کا ایک یقینی علاج موجود ہے جس نے ساڑھے 4 سو سال قبل ایسے ہی پراگندہ ماحول کو خوشگوار فضا میں تبدیل کر دیا تھا۔ یعنی اسلام ! اس فضا کی عکاسی کرتے :ہوئے شاعر کہتا ہے
ہو خلق حسن یا کہ ہوا یار وفا پیار ہر چیز یہاں پر بہ صد انداز جلی ہے
اللہ تعالیٰ کی محبت: معرفت: خشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات وحاجات پر ترجیح دینا ایثار کہلاتا ہے۔
ایثار کی اقسام:
کفر اور منافقت پر ایمان کو ترجیح دینا۔
گناہوں کے مقابلے میں نیکی کو ترجیح دَینا۔
اپنی ضرورتوں کے مقابلے میں دوسروں کی ضروریات کو ترجیج دینا۔
اصل نیکی ہی ایثار ہے:
اصل نیکی ہی یہ ہے کہ انسان اپنی تمام تر ضروریات کو ایک طرف کر کے اپنے ضرورت مندوں کی ضروریات کا خیال کرے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَن تَنَالُوا۟ ٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا۟ مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَىْءٍۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌۭ(آل عمران:92)
“تم پوری نیکی ہرگز حاصل نہیں کرو گے یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ سے خوب جاننے والا ہے”
۔ ایک دوسرے مقام پر باری تعالیٰ نے فرمایا:
لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَـٰهَدُوا۟ ۖ وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِ ۗ أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُوا۟ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ(البقرة : 177)
“‘ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر اور مانگنے والوں کو اور گرد نہیں چھڑانے میں۔ اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں اور خصوصاً جو تنگ دستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں ء یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں.
جذبہ ایثار کی ترغیب مصطفوی :
سیدنا ابو ہریرہ رضی الہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثمانيَة
”دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے۔”
صحیح البخاری: 5392
عن جابر بن عبداللہ رضي اللہ عنھ قال قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم:-
طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثمانيَة
“ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے اور دو کا چار کے لیے کافی ہے اور چار کا آٹھ لوگوں کے لیے کافی ہے۔”(صحیح مسلم: )2059
ان روایات میں رسول اللہ ءٌلرلث نے اپنے اصحاب کو ایثار کی ترغیب دی ہے کہ دو کا کھانا چار کے لیے اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ضرورت ہہمیں اپنے اندر ایسا جذبہ بھی پیدا کرنا چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو تو ہم اس کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے اپنی چیز میں آپس میں بانٹ لیں۔
جذ بہ ایثار سے سرشار صدقہ ہی افضل صدقہ ہے:
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنھ قال قال النبي لی اللہ عليه وسلم:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ “ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى، وَلاَ تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلاَنٍ كَذَا، وَلِفُلاَنٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلاَنٍ
” ایک شخص نبی کریم صلی الہ عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ِور کہا کہ یا رسول اللہ ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بنے کی تمنا اور امید ہو اور ( اس صدقہ خیرات میں ) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آ جائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہو چکا۔”(صحیح البخاری: )1419
اس حدیث مبارکہ میں بڑی وضاحت کے ۔ساتھ موجود ہے کہ افضل صدقہ وہی ہے جس کی ادائیگی کے وقت انسان صحت مند ہو ء صدقہ دینے کے بعد فقیری کا ڈر بھی ہو اور ساتھ ہی ساتھ مالدار ہونے کی طمع بھی ہو۔ ایسے حالات میں ضرورتمندوں کا خیال کرتے ہوئے ان پر خرچ کرنا سب سے زیادہ نفع مند صدقہ ھے۔
ایثار دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلْإِيمَـٰنَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِى صُدُورِهِمْ حَاجَةًۭ مِّمَّآ أُوتُوا۟ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌۭ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ(الحشر:9)
” وہ مہاجرین کے لیے اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے ۔ اور وہ (اپنے مہاجر بھائیوں کو ) اپنے سے مقدم ہیں اگر چہ وہ فقر و فاقہ ہی میں کیوں نہ ہوں ۔ اور ( در حقیقت ) جو لوگ بھی بخل اور کنجوسی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔”
اس آیت مبارکہ میں رب تعالیٰ نے اپنی ضروریات کے مقابلے میں ضرورت مند بھائیوں کی مدد کرنے والوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ یہی لوگ کامیاب ہیں۔
جذبہ ایثار سے سرشار, رسول ہللا سالم کے پسندیدہ لوگ:
سید نا ابو موسی سے روایت ہے کہ نبی کریم سلیم نے فرمایا:
نَّ الأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ
“‘قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر تو شہ کم ہوجا تا بامدینہ کے قیام ) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس تو شہ ہوٹا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں انکا ہوں۔”
ایثار سے متعلق واقعات:۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسُلم کا جذبہ ایثار :
ایثار کی ایک اعلیٰ قسم ہے کہ انسان اپنے اہل خانہ اور قریبی متعلقین کی جائز ضرورتوں پر عام لوگوں کی ضرورتوں کو ترجیح دے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
سیدہ فاطمہ نے نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک خادمہ عطا فزمانے کی درخواست کی تو رسول اللہ سلم نے ان سے فرمایا : میرے پاس تو ( غلام یا لونڈی) نہیں ہے جو تجھے دے سکوں ۔ وہ واپس چلی گئیں ۔ بعد میں رسول اللہ الہم ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: کیا تجھے وہ چیز پسند ہے جو تو نے مانگی تھی یا وہ جو اس سے بہتر ہے؟
سید نا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کہو : نہیں۔ وہ چیز (مطلوب ہے ) جو اس سے بہتر ہے سید فابلمہ نے یہی جواب دے دیا تو رسول اللہ سیاسی اسلام نے فرما یا یوں کہا کر:
اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَىْءٍ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِيمِ أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَىْءٌ وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَىْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَىْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَىْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ
اے اللہ ! اے ساتوں آسمانوں کے مالک ! اے عرش عظیم کے مالک ! اے ہمارے رب اور ہرچیز کے رب! اے تورات: انجیل اور قرآن عظیم کے نازل کرنے والے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ تو آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں۔ تو ظاہر ہے تجھ سے اوپر کچھ نہیں۔ تو باطن (پوشیدہ) ہے تجھ سے پوشیدہ تر کچھ نہیں۔ ہمارا قرض ادا فرما اور فقر سے ( نجات دے کر ) ہمیں غنی کر دے۔(سنن ابن ماجہ)
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ، أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَخْدِمُهُ فَقَالَ أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ ذَلِكَ تُسَبِّحِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتُكَبِّرِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتَحْمَدِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ أَحَدُهَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ.
واہ ! تعلیم کا کیا ہی خوبصورت انداز ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی صحابہ کو تو آپ غلام دے رہے ہیں مگر جب اپنی اولاد اور اولاد میں سے سب سے زیادہ محبوب بیٹی کی باری آتی ہے تو آپ اسے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بجائے ایسی دینی تعلیم دے دیتے ہیں جس سے وہ راضی ہو جاتی ہیں۔اسی طرح رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا سخت بھوک میں دودھ پہلے اہل صفہ کو پالنا، بعد میں خود پینا۔
سید نا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایثار :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: میں فاقہ سے ہوں ء آپ نے اپنی کسی بیوی کی طرف پیغام بھیجاء انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ صلی الہ علیہ وسلم نے دوسری بیوی کے پاک پیغام بھیجا۔ انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔ حتی کہ سب بیویوں کی طرف سے یہی جواب آیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے ء چنانچہ آپ نے (صحابہ) سے فرمایا: جو شخص اس کو آج رات مہمان بنائے گاء اللہ تعالی اس پر رحم فرمائے گا۔ انصار میں سے ایک شخص ( ابو طلحہ ) نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ ! میں اس کو مہمان بناؤں گا ۔ وہ اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: نہیں صرف بچوں کا کھانا ہے ابوطلحہ نے کہا: بچوں کو کسی چیز سے پہلا دو جب ہمارا مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں جب مہمان کھانا کھانے لگے تو تم چراغ کے پاس جا کر اسے بجھا دینا۔ پھر وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا۔ جب صبح کو وہ نبی کریم اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سلام نے فرمایا:
ضجك ال اللَلةَ او عَجَبَء مِن فَعَالِكُمَا)
رات کو تم نے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک گیا اللہ تعالی اس پر بہت خوش ہوا۔ (صحیح البخاری)
اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
سیدہ عائشہ رض فرماتی
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا، فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَيْنَا، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ “ مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَىْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ ”.
“ان کے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیںء اس نے سوال کیاء میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی؛ میں نے وہی کھجور اس کو دے دی اس نے اس کھجور کے دوٹکڑے کئے اور اپنی بیٹیوں کو کھلا دیئے اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھایاء پھر وہ چلی گئی ،۔۔-الخ
بکری کی ایک سری سات گھروں تک گھومتی رہی :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
هْدِي لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسُ شَاةٍ، فَقَالَ: إِنَّ أبى فلانا وعياله أحوج إلى هَذَا مِنَّا قَالَ: فَبَعَثَ إِلَيْهِ فَلَمْ يَزِل يَبْعَثُ إِلَيْهِ وَاحِدًا إلى آخرَ حَتَّى تَدَاوَلَهَا سَبْعَةُ أَبْيَاتٍ حَتَّى رَجَعَتْ إِلَى الْأَوَّل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص کے پاس بکری کی سری ہدیے میں آئی اس نے سوچا کہ میرا فلاں (دینی) بھائی عیال دار ہے اور وہ مجھ سے زیادہ اس سری کا محتاج ہےە اس نے وہ سری اس کے پاس بھیج دی اس نے وہ سری کسی اور ضرورت مند صحابی کے پاس بھیچ دی اور اس نے کسی اور ضرورتمند کے پاس ء یوں وہ سات گھر والوں میں سے گھومتی ہوئی پھر پہلے صحابی کے پاس پہنچ گئی۔ المستدرك للحاکم
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ ایثار:
ابوالجھم بن حذیفہ رض سے روایت ہے کہ : جنگ یرموک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا ۔ پانی کا مشکیزہ اور پینے کا برتن میرے ساتھ تھا۔ دل میں خیال تھا کہ اب تک وہ سانس لے رہے ہوں گے ء لہذا ان کو پانی پلاؤں ۔ جب میں ان کے قریب پہنچا و وہ موت وحیات کی کشمکش میں سسکیاں لے رہا تھا میں نے کہا: پانی پئیں گے؟ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں ! اسی اثناء میں دوسرے زخمی کی چیخ و پکار کی آواز سنائی دی تو مجھے اس کی طرف جانے کا اشارہ کیا کہ پہلے اسے پلاؤ۔ میں اس کے پاس گیا وہ ہشام بن عاص بن عمرو کا بھائی تھا۔ میں نے اسے پانی پینے کے لیے کہا تواس دوران ایک تیسرے شخص کے کراہنے کی آواز آئی انہوں نے بھی مجھے اشارہ کیا کہ پہلے انکو جا کر پانی پلا میں ۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے۔ میں ہشام کی طرف واپس پلٹا لیکن وہ بھی دم توڑ چکے تھے۔ پھر اپنے پچازاد بھائی کی طرف لپکا اگر وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ چکے تھے۔
ایثار کے مواقع
دن رات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات میسر آتے ہیں جن میں ہم اس اسلامی حکم پر آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہو سکتے ہیں لیکن معمولی سی غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے ہم ان لمحات سے فائدہ حاصل نہیں کرتے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے شب وروز پر نگاہ ڈالیے تو بیسیوں ایسے مواقع مل جائیں گے۔ چند ایک پیش خدمت ہیں۔
کسی غریب ہسائے کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کی جائے۔
٭ کسی طالب کے پاس فیس یا کثاب کے پیسے نہ ہوں تو اس کی مدد کرنے سے بھی انمول خوشی ملتی ہے۔
٭ . بلوں کی ادائیگی کے لیے قطار بناتے وقت کمزور فرد کو جگہ دی جائے ء اسے کسی مشکل میں دیکھ کر مدد کیجاسکتی ہے۔ کسی مقام پر لوگ جمع ہوتے ہوں تو وہاں پینے کے پانی کا کولر یا کوئی مشین لگائی جاسکتی ہے۔ دکان وغیرہ سے سودا سلفِ لیتے وقت دیکھو کہ آس پاس موجود کسی شخص کے پاس کوئی چیز خریدنے کے لئے پیسے کم پڑ رہے ہیں تو اس کی مدد کرنے سے بھی رب راضی ہوتا ہے۔
کسی تقریب وغیرہ میں شرکٹِ کے وقت کوئی ضرورت مند نظر آئے تو اس کی مدد کرنے سے بھی سکون ملتا ہے۔
سفر کے دوران بس / ویگن ٹرین وغیرہ میں کمزور کے لئے جگہ چھوڑ دی جائے اور اگر کوئی مفلس تو اسکی مدد کی جائے۔
ہمپتال وغیرہ میں پرچی یا دوائی لیتے وقت دواؤں سے محروم مریض یا اس کے تیمارداروں سے مالی تعاون کرنا بھی اسلام کا اہم سبق ہے۔
الغرض روز مرہ کی زندگی میں ہر ایسے موقع پر جہاں آپ اور کوئی دوسرا مسلمان بھائی دونوں برابر کے شریک ہوں تو وہاں اپنے بھائی کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ترجیح دیں اس سے دلوں میں محبت پیدا ہوگی۔