
تزکیہ نفس اور اسکی اہمیت
تزکیہ نفس اور اسکی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس کو بڑا عجیب بنایا ہے۔ یہ خواہشات کی آماجگاہ ہے، ہر طرح کی بڑی خواہشات اور باغیانہ خیالات اسی میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کے متعلق ابھارتا ہے اور یہی شہوت کے وقت حیوانوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔ غصہ میں درندوں کی طرح اظہار وحشت کرتا ہے، جب بھوکا ہوتا ہے تو حلال و حرام کی تمیز کھو دیتا ہے اور جب سیر ہوتا ہے تو باغی ، سرکش اور متکبر ہو جاتا ہے۔ مصیبت کے وقت بے صبروں کی طرح آہ وزاری کرتا ہے غرضیکہ انسان کا نفس کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا۔ لیکن اس کی اصلاح کرنا بڑا ہی مشکل ہے اور نفس کا تزکیہ کرنا ہی دل کی حیات ہے۔
نفس کیا ہے؟
نفس انسانی بدن میں ایسا چور ہے جو انسان کو للہ تعالیٰ کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا۔نفس بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب اکبر ہے۔ انسانی وجود کے لئے نفس اور شیطان دوایسی قو تیں ہیں جو ہمیشہ فطرتِ انسانی کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ شیطان جب آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے لعنتی ہوا تو اُس نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی دشمنی اور اس کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ نفس شیطان کا قدیمی ہتھیار ہے اور وہ بنی آدم کے وجود میں نفس کے اسی مورچے سے زہر بھرے تیر چلا کر انسان کو گمراہ کرتا رہتا ہے۔ لیکن اگر یہی نفس شیطان کے اثر سے نکل کر بنی آدم کے کنٹرول میں آجائے تو اللہ اور بندے کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتا ہے۔
تزکیہ نفس کسے کہتے ہیں؟
عربی زبان میں تزکیہ کا مفہوم کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا، اس کونشو و نما دینا اور اس کو پروان چڑھانا ہے۔ اور اس کا اصطلاحی مفہوم نفس کو غلط رحجانات و میلانات سے موڑ کر نیکی اور خدا ترسی کے راستہ پر ڈال دینا اور اس کو درجہ کمال پر پہنچنے کے لائق بنانا ہے۔ گویا اپنی ذات کو گناہوں سے پاک کرنے کو اصلاح میں تزکیہ نفس کہا جاتا ہے۔
تزکیہ کے دو پہلو ہیں:
ایک تو یہ کہ اس کا مطلب گناہوں کو دور کرنا اور ان کی صفائی کرنا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صفائی کے بعد نیکیوں اور اچھے اعمال کی بنیا د رکھنا اور انہیں نشونما دینا ہے۔ نفس سے مراد انسانی ذات یا شخصیت ہے۔ چنانچہ تزکیہ نفس کا مفہوم یہ ہوا کہ انسانی شخصیت میں سے برائیوں کو ختم کرنا اور اچھائیوں کو پروان چڑھانا۔
نفس انسانی کی تین حالتیں :-
نفس مطمئنہ ۔ ( ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والانفس )۔
جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ار جِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 28 / 30)
اپنے رب کی طرف لوٹ چل ، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی ۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفس مطمئنہ وہ ہے جو انسان کو اطاعت الہی اور اللہ کے ذکر فکر میں مطمئن رکھتا ہے اور خواہشات کی کشمش اور گناہوں کے خطرات سے دور رکھتا ہے۔
نفس لوامہ ۔ ( گناہ پر ملامت کرنے والا نفس )۔
قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوْامَةِ (القيامة:2)
اور مجھے اس جان کی قسم ہے جو اپنے اوپر ملامت کرے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفس لوامہ وہ ہے جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا ؟ تمہیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا، لہذا اب اللہ کے سامنے نادم ہوکر تو بہ کر وغیرہ وغیرہ۔ کرناچاہنا
نفس امارہ ۔ ( گناہ پر ابھارنے والا نفس )
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا أُبَرِّءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي(يوسف : 53)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفس امارہ وہ ہے جو انسان کو گناہوں بری خواہشات کی پیروی پر آمادہ کرتا ہے۔
تزکیہ نفس کی اہمیت وفضیلت
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خیر و شر کا شعور رکھ دیا اور ساتھ ہی وحی کے ذریعے صراط مستقیم کا تعین کر دیا تا کہ لوگ رب تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزار کر جنت کی ابدی نعمتوں سے مستفید ہوں۔ اس اہتمام کے باوجود انسان اکثر گناہوں کی غلاظت میں ملوث ہو جاتا ہے۔ گناہوں کی آلودگی کے ساتھ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ گناہوں کی صفائی کا عمل دنیا کی زندگی سے شروع ہوتا اور اللہ کی رحمت سے آخرت میں منتہائے کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
تزکیہ نفس دیکھنے میں تو ایک سادہ عمل ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن یہی دین کا مقصود ہے اور اسی عمل میں کامیابی کا نتیجہ جنت کی ابدی نعمتوں کی شکل میں نکلے گا۔ جبکہ اس میں ناکامی کا انجام جہنم کے گڑھے ہیں۔ تزکیہ نفس کی اسی اہمیت کی بنا پر قرآن نے اسے براہ راست موضوع بنایا ہے۔ گناہوں سے پاک لوگ ہی اللہ کو پسند ہیں : اللہ کو پاک لوگ ہی پسند ہیں اور یہ پا کی ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی۔ یہ پا کی ایمان کی بھی ہے اور عمل کی بھی ۔تزکیہ کا کمال اللہ کی عنایت ہے: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پاکی حاصل کرنے کی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ آلائشیں اس کے دامن میں رہ جاتی ہیں۔ کامل تزکیہ عطا کرنا اللہ کی عنایت ہے نیز تزکیہ کرنے والوں کو اس تکبر میں مبتلا نہ ہو جانا چاہئے کہ وہ اب وہ کوئی بہت بڑے بزرگ بن بیٹھے ہیں۔ یہ رویہ خود تزکیہ کے خلاف ہے کیونکہ یہ تکبر کو جنم دیتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعُ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور: 20 / 21)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو۔ ۔
نبی کریم (ﷺ) کی بعثت کا مقصد تزکیہ نفس :
اللہ تعالیٰ نے جب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو ان کا بھی بنیادی مقصد لوگوں کو گناہوں سے دور کرنا ہی بیان کیا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (آل عمران:164)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان کو پاک کرتا اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اس آیت پر اگر غور کیا جائے تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبر کے تین فرائض بیان ہوئے ہیں۔
– پہلا کام اللہ کی آیات پڑھنا
– دوسرا کام تزکیہ کرنا
– اور تیسرا کام کتاب و حکمت کی تعلیم دینا
لیکن اگر ذرا غور سے جائزہ لیا جائے تو اصل کام تزکیہ یعنی پاک کرنا ہی ہے۔ اسی کے لئے اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور اسی تزکیہ کے لئے شریعت اور اس کے فلسفے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (الجمعه: 2)
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کے (نفس کو ) پاک کرتا ہے، اور ان کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
تزکیہ نفس ؛ کامیابی کی ضمانت:
دنیا و آخرت میں کامیابی کا حصول تزکیہ کے بغیر ممکن نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں کامیابی کو تزکیہ کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (الاعلى: 16)
فلاح پا گیا جس نے تزکیہ کیا پاکیزگی اختیار کی۔
تزکیہ نفس ؛ جنت میں داخلے کی شرط :
جنت میں داخلے کے لئے ضروری ہے کہ انسان نے خود کو ہر طرح کے گناہوں اور لغزشوں سے پاک کرنے کی کوشش کی ہو۔ یعنی جنت کی شہریت کے لئے تزکیہ کا حصول لازمی ہے۔ قرآن میں بیان ہوتا ہے:
جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى (طه: 76)
( اور ) سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جس نے اپنا تزکیہ ( خود کو گناہوں سے پاک) کیا۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے آٹھ قسمیں اٹھانے کے بعد فرمایا:
قدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (الشمس: 9 / 10)
یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔اور وہ نامراد ہو گا جس نے اسے آلودہ محاسبہ نفس کے طریقے
تزکیہ نفس کی دعا:
سید نازید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگا کرتے تھے :
اللهم آتِ نَفْسِى تَقْوَاهَا وَزَكَّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا
اے اللہ ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا ولی اور مولی ہے۔ صحیح مسلم: 2722
رسول اللہ سلیم کی یہ دعا امت کی تعلیم کے لئے ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ خود (نفس) کو مذموم ( بری صفات سے پاک کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پاکی کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا بھی کرے ۔