حجر اسود

حجر اسود (تاریخ و مقام)

حجر اسود (تاریخ و مقام)

واضح رہے کہ حجر اسود کے اندر ایسی زبردست قدرتی مقناطیسی کشش موجود ہے کہ ہر ملک کو قوم اور رنگ و نسل کے لوگ کھنچے چلے اتے ہیں یہ پر شکوہ پتھر جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا حضرت ادم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا طوفان نوح میں حضرت ادم علیہ الصلوۃ والسلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ اسمانوں پر اٹھائے جاتے وقت اس متبرک پتھر کو شکم جبل ابی قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالی کے حکم سے چیزیں نہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں پیش کر دیا تھا اس طرح اس سے پھر اسی جگہ کی زینت بنا دیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔
اس کے فضائل اور اوصاف میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں لیکن جنت کا یہ انمول موتی عالی مرتبت مقدس و متبرک یاقوت گردش ایام کی ستمرانیوں سے محفوظ نہ رہ سکا متعدد بار اس سے فساق و فجار ظالموں کے ہاتھ تختہ مشق بننا پڑا بارہا حوادث کا شکار ہوا اور اس کے نازنین نے بدن پر کتنی ہی مرتبہ زخم ائے. 317 ہجری میں جب مکہ مکرمہ قرامطہ کے دست تصرف میں ایا تو ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے جو قرامطہ کا سردار تھا حرم محترم نے خون کی ہولی کھیلی اٹھ ذوالحجہ 313 ہجری کو اس قدر قتل عام کیا کہ حجاج کی لاشوں سے چاہے زمزم بھر گیا شہر اور مضافات کے 30 ہزار بے قصور افراد کو موت کی نیند سلا دیا جس میں 1700 حاجی اور 700 طواف کرنے والے بھی شہید ہو گئے اس نے یہ سارا کھیل میزاب رحمت یعنی خانہ کعبہ کا پرنالہ جو سونے کا تھا اکھاڑنے مقام ابراہیم اور حجر اسود چوری کرنے کی ناشکور جسارت کے لیے کھلا تھا دو ادمی اس مضموم حرکت کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے مگر انے واحد میں سر کے بل زمین پر گر کر واصل جہنم ہو گئے مقام ابراہیم تو اس دست تصرف سے مامون رہا کیونکہ خدام حرم نے اسے پہاڑ کی گھاٹی میں کہیں چھپا دیا تھا مگر 14 ذی الحجہ 313 ہجری بروز اتوار عصر کے وقت جعفر بن حلاج نے ابو طاہر کے حکم سے حجر اسود کو کدال سے اٹھا لیا اس پر کئی ضربیں لگائی جس سے کچھ ریزے ٹوٹ گئے اور اپنے ساتھ بحرین لے گئے اور اس کی جگہ خالی رہ گئی تقریبا 22 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بحرین کے شہر حجر سے یہ مبارک پتھر واپس ہوا واپسی بھی معجز نما تھی قرامطیوں سے بار بار واپسی کا مطالبہ جب زور پکڑ گیا تو انہوں نے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ وہ پتھر تو دوسرے پتھروں میں مل جل گیا ہے ان میں سے اس سے الگ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں اگر تمہارے پاس اس کی کوئی علامت ہے تو تلاش کر لو چنانچہ علماء کرام سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ان سب پتھروں کو اگ میں ڈالا جائے جو پتھر اگ میں پگھل دیا پھٹ جائیں وہ حجر اسود نہیں حجر اسود کو اگ متاثر نہیں کر سکتی کیونکہ یہ جنت کا پتھر ہے اس طرح اس مقدس پتھر کی برتری اور مقبولیت کا لوہا منوا کر اسے واپس لوٹایا گیا اور پھر سے کعبہ شریف کی زینت بنا دیا گیا۔
حجر اسود کو بوسہ دینے کی اہمیت یہ ہے کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالی کا ہاتھ ہے جس مسلمان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن اس نے حجر اسود کا بوسہ لے لیا تو اب اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کا اعزاز حاصل کر لیا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حجر اسود کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی دو انکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ سکے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بول سکے گا اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جنہوں نے اس کو بوسہ دیا تھا۔
صحیح جیتنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے تو اپنے مبارک ہونٹوں سے اس کا طویل بوسہ لیا اور زار و قطار رونے لگے جب فارغ ہو کر دیکھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی گریا کنا پایا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح گویا ہوئے عمر یہی جگہ ہے جہاں انسوں کی ندیاں بہائی جاتی ہیں۔۔
اور مکہ معظمہ میں اس پتھر کی بڑی اہمیت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ادم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام نے اس پتھر کو مکہ میں بیت اللہ کے ایک گوشہ پر نصب فرمایا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے گوشہ پر ہی بوسہ دیا تھا یہی وجہ ہے کہ بیت اللہ میں ہی اس کی اہمیت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں