حضرت خضر علیہ السالم زندہ ہیں یا وفات پا چکے ؟

حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پا چکے ؟

حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پا چکے؟

جمہور علماء کے نزدیک

علامہ نووی رحمہ اللہ

“خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور انکو لمبی عمر دی گئی ہے اور وہ آج بھی زندہ ہیں لیکن لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔اور دجال کے خروج تک زندہ رہینگے اور مدینہ منورہ کا دفاع کریں گے۔”

الشیخ ابوعمرو بن الصلاح

انہوں نے جمہور علماء و صالحین کا خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے پر اجماع نقل کیا ھے۔

بعض حضرات کے نزدیک

خضر علیہ السلام کی زندگی کا انکار کیا ہے اور انکا کہنا ہیکہ وفات پاچکے ہیں جیساکہ امام بخاری ءعلامہ ابن جوزی وغیرم-

دلائل قائلین وفات خضر علیہ السلام:

قال اللہ تعالی

ما جَعلنا لبَشرْ مُن قبك الخ“

ترجمہ:
“ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا انسان نہیں بنایا كّۃ جو ہمیشہ زندہ رھے” یہ آیت دلیل ہیکہ خضر علیہ السلام ہمیشہ زندہ نہیں رہینگے ۔

جواب:۔

اس دلیل کا جواب یہ ہیکہ جناب! ہم نے کب کہا کہ انہیں وفات نہیں آئیگی ۔بلک اس سے مراد یہ ہیکہ وہ طویل عمر زندہ رہیں گے اور پھر وہ بھی وفات پا جائیں گے اس)لیے اس سے انکی وفات کا استدلالکرنا صحیح نہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے خضر علیہ السلام کی وفات کے بارے میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی

“ان علي رأس مائة لا یبقی علی وجھ الأرض ممن هو علیھا أُحد”

یعنی
” سو سال بعد زمین کی سطح پر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہیگا”
جواب:-
یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں فرمائی کہ جو زمین کی سطح پر موجود ہونگے جبکہ خضر علیہ السلام تو سمندر میں تھے۔
٭ قال النبي صلی اللہ عليه وسلم

لو گان مُوسَّی حخَیّا مَا َسعھ إِلّا الباعي*

یعنی
” اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انکو میری اتباع ( پیروی) کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا” اسی طرح خضر علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپکی اطاعت کرتے ۔
جواب:-
اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں کیونکہ نبی پر ایمان لانے کے لیے انکے پاس آنا ضروری نہیں بلکہ نبوت کی خبر پا کر تصدیق کر لینا کافی ھے ۔

جیسا کہ حبشہ کے بادشاہ ‘ نجاشی ( اصحمہ)”‘ نے اسلام قبول کیا تھا آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے بغیر ہی ۔تبھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں انکی نماز جنازہ پڑھائی۔

دلائل جمہور

جمہور حضرات استدلال کرتے ہیں ان احادیث اور اولیاء اللہ کے واقعات سے کہ جن میں ثابت ہیکہ ان حضرات کی ملاقات خضر علیہ السلام سے ہوئی۔ رباح بن عبیدہ رح کہتے ہیں کہ ” میں نے ایک آدمی کو عمر بن عبد العزیز کیساتھ ہاتھ میں ہاتھ ملاتے ہوئے چلتے دیکھا تو انکے جانیکے بعد میں نے عمر بن عبد العزیز سے پوچھا کہ یہ کون تھے ؟ تو وہ فرمانے لگے کہ” آپ نے انکو دیکھا ھے” میں نے کہا ‘ جی ہاں” تو کہنے لگے “‘رباح میں تجھے نیک آدمی خیال کرتا ہوں وہ خضر علیہ السلام تھے انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ میں والی ( گورنر) بنوں گا اور انصاف کرونگا۔” صحیح مسلم میں ہیکہ؛

فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ – أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ – فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَدِيثَهُ

ترجمہ:-

” اس دن دجال کی طرف ایک آدمی آئیگا جو کہ سب لوگوں میں بہتر ہوگا اور وہ اس سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم وہی دجال ہو کہ جسکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ذکر کیا تھا ” امام ابواسحاق کہتے ہیں کہ ” بقال أُن الرجل هو خضر علیہ السلام”
یعنی یہ کہاجائیگا کہ وہ” خضر علیہ السلام” ہیں ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وقات ہوئی تو خضر علیہ السلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو تسلی دینے کے لیے تشریف لائے تھے۔

نوٹ:-

یہ مسئلہ اعتقادیات اسلام میں سے نہیں ہے باوجود طویل عمر کے ایک دن ہر ذی روح کو موت آئیگی۔ اس لیے بہتر یہی ہیکہ اس مسئلہ میں سکوت اور توقف اختیار کیا جائے۔جب تک کہ کوئی ایک جانب تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہ ہو جائے ۔

واللہ اعلم باالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں