سورة البقرة

سورة البقرة

سورة البقرة

زمانه نزول

سورة البقرة کا زیادہ تر حصہ ہجرت کے فوراً بعد نازل ہوا ہے، جبکہ آخری تین آیات معراج کے موقع پر آپ کو تحفہ میں دی گئیں۔

مختلف نام

سورة البقرة
سورة
فسطاط القرآن
سورة سنام القرآن

وجه تسمیہ

بقرة“ کے معنی ” گائے یا بیل کے ہیں۔ اس سورت میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا تذکرہ ہے۔ اسی کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے۔

فضیلت و اہمیت

سورۃ البقرۃ کی فضیلت :

جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے ، وہاں سے شیطان بھاگ نکلتا ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ! یقینا جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جائے ، اس سے شیطان بھاگتا ہے۔ (صحیح مسلم)

سورۃ البقرۃ کو پڑھنا باعث برکت اور چھوڑ نا باعث حسرت ہے

سید نا ابوامامہ الباہلی رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنْ أَخْذَهَا بَرَكَةً، وَتَرَكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ

سورۃ البقرہ پڑھا کرو! اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت کا باعث ہے اور اس کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے۔ اہل باطل ( جادوگر ) اس کے پڑھنے والے پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ صحیح مسلم

البقرۃ اور آل عمران روز قیامت اپنے پڑھنے والے پر سایہ کریں گی اور سفارش کریں گی

سید نا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الزُّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ، وَسُورَةَ آلِ عمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طيْرِ صَوَافَّ، تُحَاجَانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا

قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) سورہ بقرہ اور سورۃ آل عمران پڑھا کرو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی۔ (صحیح مسلم)

سورة البقرة کی تلاوت سکینت کا ذیعہ ہے

سید نا اسید بن حضیر رضی للہ فرماتے ہیں کہ :

رات کے وقت وہ سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کر دی تو گھوڑا بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا ۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہو گیا ۔ تیسری مرتبہ انہوں نے تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا۔ ان کے بیٹے بیٹی چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لئے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے ۔ انہوں نے تلاوت بند کر دی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر او پر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا :

اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ، اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ

ابن حضیر ! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے ( تو بہتر تھا ) ۔ ابن حضیر ا تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے ( تو بہتر تھا)۔

انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے بچی کو نہ کچل ڈالے وہ اس سے بہت قریب تھا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَتَدْرِي مَا ذَاكَ؟ ، قَالَ : لا ، قَالَ : تِلْكَ المَلائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ، وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا، لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ

تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی ؟ اسید نے عرض کی نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لئے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں ۔ سلسلة الاحاديث الصحيحة: 588

سورۃ البقرۃ قرآن مجید کی کوہان ہے

سیدنا ابو ہریرہ رض اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامًا، وَسَنَامُ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ

ہر چیز کی ایک کو ہان ہوتی ہے اور قرآن کی کو بان سورۃ البقرۃ ہے۔ صحيح البخاري: 5018

سورة البقرة اسم اعظم والی سورت ہے

سید نا قاسم بن عبد الرحمن سے روایت ہے ، انہوں نے کہا:

اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ فِي سُوَرٍ ثَلَاثٍ : الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، وَطه

اللہ کا عظیم ترین نام ( اسم اعظم) جس کے ساتھ اللہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے، تین سورتوں میں ہے : سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران اور سورہ طہ میں ۔ (سنن ابن ماجہ)

سورة البقرة سے عظمت

سیدنا انس بن مالک رض فرماتے ہیں :

كَانَ رَجُلٌ يَكْتُبُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ، وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا قَرَأَ : الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ، يُعَدُّ فِينَا عَظِيمًا

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا کرتا تھا، اس نے البقرہ اور آل عمران پڑھیں ۔ اور جو شخص البقرہ اور آل عمران پڑھ لیتا وہ ہم میں سے عظیم شمار ہوتا ۔ (مسند احمد)

آیۃ الکرسی کی فضیلت

قرآن مجید کی سب سے عظمت والی آیت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی بن کعب رض سے فرمایا :

يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَعَكَ أَعْظَمُ قَالَ : قُلْتُ : اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ : يَا أَبَا الْمُنْذِرِ أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَعَكَ أَعْظَمُ قَالَ : قُلْتُ : اللَّهُ لَا إِلَهَ إلَّا هُوَ الحَيُّ الْقَيُّومُ . قَالَ : فَضَرَبَ فِي صَدْرِي، وَقَالَ : وَاللَّهِ لِيَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ

اے ابو المنذر! اللہ کی کتاب میں سے تمہارے پاس کونسی آیت سب سے بڑی ہے؟“ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابوالمندر! کونسی آیت اللہ کی کتاب میں سے تمہارے پاس سب سے بڑی ہے؟“ میں نے عرض کی کہ

{ اللہ لا اللہ الا هو الحي القيوم }

( یعنی آیت الکرسی ) تو رسول اللہ سلیم نے میرے سینہ پر ( خوش ہو کر ) ہاتھ مارا اور فرمایا : اے ابوالمندر ! تجھے علم مبارک ہو۔

سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھنے سے صبح تک شیطان سے حفاظت

سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کی حفاظت کرنے پر مقرر فرمایا، کوئی شخص آیا اور چوری کرنے لگا میں نے اسے پکڑا اور کہا میں تجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر جاؤں گا ، وہ کہنے لگا کہ میں محتاج ہوں اور سخت تکلیف میں ہوں چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا صبح ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ابو ہریرہ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا اس نے تکلیف اور عیالداری کا شکوہ کیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ، آپ نے فرمایا : خیال رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا ، چنانچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور چوری کرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : آج تو میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لیکر جاؤں گا اس نے پھر محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے قیدی نے کیا کہا تھا ؟
اسے چھوڑ دیا ، آپ نے فرمایا : خیال رکھنا وہ پھر آئے گا ، تیسری رات وہ پھر آ گیا اور چوری کرنے لگا، میں نے کہا اس بار میں تجھے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لیکر جاؤں گا اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں تمہیں چند کلمات سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے، میں نے کہا وہ کیا ہے؟ کہنے لگا: جب تم سونے لگو تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ نگہبان ہوگا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ، جب صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ نے مجھ سے پوچھا : رات کو تیرے قیدی نے کیا کہا تھا ؟
میں نے ساری بات بتادی تو آپ نے فرمایا :

أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلَاثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ : لا ، قَالَ : ذَاكَ شَيْطَانٌ

اس نے یہ بات سچ کہی حالانکہ وہ کذاب ہے پھر آپ نے مجھ سے کہا : ابو ہریرہ ! جانتے ہو تین راتوں سے تمہارے پاس کون آرہا تھا ؟ میں نے کہا نہیں ، آپ کسی اسلام نے فرمایا: وہ شیطان تھا۔

آخری دو آیات کی فضیلت

سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات عرش کا خزانہ ہے:

(صحیح البخاري: 2311)
سید نا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زنے فرمایا :

وأُوتِيتُ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ آخِرَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنز تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ يُعْطَ مِنْهُ أَحَدٌ قَبْلِي، وَلَا يُعْطَى مِنْهُ أَحَدٌ بَعْدِي

مجھے سورہ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش کے نیچے خزانے سے دی گئی ہیں۔ ان جیسی آیات نہ پہلے کسی کوملی ہیں اور نہ بعد میں کسی کو ملیں گی۔ (السنن الكبرى للنسائي : 7968، حسن)

سید نا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ، أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَلَا يُقْرَآنِ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ

اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی۔ اس میں سے دو آیات نازل فرمائیں، جن کے ساتھ سورہ بقرہ کا اختتام فرمایا۔ جس بھی مکان میں یہ آیتیں دن راتیں پڑھ دی جائیں، شیطان اس میں ٹھہر نہیں سکتا۔

سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کی تلاوت ؛ ہر چیز سے کافی ہو جاتی ہیں

ابو مسعود عقبہ بن عمر و انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ قَرَأَ بِالْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ

جو شخص رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لے گا، وہ اس کو کافی ہو جائیں گی۔ (صحیح البخاری : 5009، صحیح مسلم : 808)

کافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شیطان کہ شرانگیزیوں سے حفاظت دیں گی ، ناگہانی مصائب اور آفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔

سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات ایسا نور ہیں جو پہلے کسی پیغمبر کونہیں دی گئیں

سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ : هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ : هَذَا مَلَكُ تَنزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنزِلُ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ : أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِي قَبْلَكَ : فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأُ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ

ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے اوپر زور سے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور فرمایا: یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھلا ہے، آج سے پہلے ہی کبھی نہیں کھولا گیا۔ تو اس سے ایک فرشتہ اترا، پھر فرمایا: یہ فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے بھی نہیں اترا۔ اس فرشتے نے سلام کیا اور کہا : آپ کو دونوروں کی خوش خبری ہو، جو آپ دیئے گئے ہیں، آپ سے پہلے وہ کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے، فاتحہ الکتاب اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے وہ چیز آپ کو ضرور عطا کر دی جائے گی۔ صحیح مسلم: 806

اپنا تبصرہ بھیجیں