عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن و حدیث میں اہمیت

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن و حدیث میں اہمیت

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن و حدیث میں اہمیت

اللہ تعالٰی اپنی صفات مین کامل ہے اور زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے اس رحیم وکریم ذات نے انسان کو بے حد و حساب نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر وہ ہدایت نہ دیتا تو انسان گمراہ ہوتا ، اگر وہ بینائی نہ دیتا تو انسان اندھا ہوتا، اگر وہ سماعت نہ دیتا تو انسان بہرا ہوتا، اگر وہ گویائی نہ دیا تو انسان گونگا ہوتا اگر وہ ٹانگیں نہ دیتا تو انسان لنگڑا ہوتا ، اگر سر پر بال نہ دیتا تو انسان گنجا ہوتا، ، اگر رزق نہ دیتا تو انسان مفلس ہوتا ، اگر اچھی شکل نہ دیتا تو انسان بدصورت ہوتا ، اگر صحت نہ دیتا تو انسان بیمار ہوتا اگر اولاد نہ دیتا تو انسان لا ولد ہوتا اور اگر عزت نہ دینا تو انسان ذلیل ہوتا۔ پس انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالی کی عطا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا

عجیب بات تو یہ ہے کہ اتنی بے شمار نعمتیں دے کر بھی اللہ تعالی نے اپنا احسان نہیں جتلایا البتہ ایک نعمت اس نے ایسی دی ہے کہ جس کو دے کر منعم حقیقی کو بھی انعام دینے کا مزہ آ گیا اور اس نے کھلے الفاظ میں یوں فرمایا

لقد من الله على المؤمِنِينَ إذ بعث فيهم رسُولا

تحقیق اللہ تعالی نے ایمان والوں پر احسان فرمایا کہ ان میں اپنے رسول کو بھیجا )۔ نبی علیہ السلام کی تشریف آوری پوری انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے انعام سے بھی محبت ہوتی ہے اور انعام دینے والے سے بھی محبت ہوتی ہے۔ پس ایمان والوں کو اللہ تعالی سے بھی شدید محبت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب سے بھی شدید محبت ہوتی ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے

احبوا الله لما يعدكم به من نعمة واحبونى لحب الله

اللہ تعالی سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں نعتیں دیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ تعالی کی وجہ سے مقصود یہ تھا کہ چونکہ اللہ تعالی کو مجھ سے محبت ہے لہذا تم بھی مجھ سے محبت کرو۔ عشق رسول ﷺ کی یہ کتنی صاف اور واضح دلیل ہے۔

اللہ تعالٰی کا سب سے بڑا اور عظیم انعام

جو انسان نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کرے گا وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدردانی کرے گا اور اصول یہی ہے کہ قدردان کو نعتیں اور زیادہ دی جاتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے

لي لئن شكر ثم لا زيدنكُمْ

(اگر تم شکر ادا کرو گے تو ہم اپنی نعتیں اور زیادہ عطا کریں گے ۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا سب سے بڑا انعام تو نبی علیہ السلام کی صورت میں ہمیں عطا فرما یا۔ اب اگر اس انعام کی ہم قدردانی کریں گے تو اور کون سی قوت ہے جو ہمیں ملے گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے بڑی نعمت اللہ تعالی کی رضا و محبت ہے لہذا جو شخص بھی نبی علیہ السلام سے محبت کرے گا تو اس عمل کے بدلے میں اللہ تعالی اس سے محبت کریں گے اور اسے اپنی رضا عطا کریں گے۔

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

نبی علیہ السلام کی محبت دنیوی اور اخروی کامیابیوں کے حاصل ہونے کی کنجی ہے اس سے رحمت الہی موسلا دھار بارش کی طرح ہوتی ہے بلکہ یہیں سعادت مندی کی نشانی ہے۔

ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر و بر در گوشه دامان اوست

جو بھی مشق مصطفیٰ میں مبتلا ہے۔ بحر و بر اس کے دامن کے ایک کونے میں سما جاتے ہیں)

نبی ﷺ سے نسبت در حقیقت اللہ سے نسبت

نبی علیہ السلام سے نسبت نصیب ہونا در حقیقت اللہ تعالیٰ سے نسبت نصیب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادر بانی ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يبايَعونَكَ إِنَّمَا يُبایعونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوقَ أَيْدِيهِمُ

( جنہوں نے آپ ﷺ سے بیعت کی انہوں نے در حقیقت اللہ تعالی سے بیعت کی۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر تھا ) لہذا جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی علیہ السلام سے بیعت کی ان کی بیعت اللہ تعالی سے ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے۔

ایک مرتبہ میدان جنگ میں نبی علیہ السلام نے کافروں کی طرف مٹھی بھر کنکریاں پھینکیں اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔

وما رَمَيَّتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى

اور جب پھینکا آپ نے پھر اپنے تئیں ، وہ تو اللہ نے پھینکا تھا) ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب نبی علیہ السلام کے عمل کو اللہ تعالی نے اپنا عمل فرمایا تو پھر نبی علیہ السلام سے محبت ہونا در حقیقت اللہ تعالیٰ سے محبت ہوتا ہے۔
یا یوں کہیے کہ نبی علیہ السلام سے نسبت ہونا اللہ تعالی سے نسبت ہوتا ہے۔ جس کو نبی علیہ السلام سے محبت و نسبت نہیں اس کو اللہ تعالی سے نسبت نہیں ہے۔ نسبت مصطفیٰ بھی عجب چیز ہے جس کو نسبت نہیں اس کی عزت نہیں خود خدا نے نبی ہی سے یہ فرما دیا جو تمہارا نہیں وہ ہمارا نہیں۔

قرآن مجید سے دلائل

ارشاد باری تعالی ہے۔

1: النبي أولى بالمومنین مِنْ أَنفُسِهِم

(نبی علیہ السلام مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں ) اگر جسمانی تعلق محبت و مودت کا سبب ہوتا ہے تو روحانی تعلق محبت کا باعث کیوں نہ ہو گا۔ بلکہ روحانی تعلق اگر کم سے کم درجہ کا بھی ہو تو وہ بڑے سے بڑے جسمانی تعلق سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اس لئے اگر یہاں محبت ہو گی تو وہاں عشق کا درجہ ہوگا اگر یہاں عشق مجازی ہوگا تو وہاں عشق حقیقی کی تاثیر ہوگی۔

3. ارشاد باری تعالی ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کر دیگا اور تمہارے گناہوں کو بخش دیگا ) کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے محبت کے آثار مجھ پر منکشف کرائے گئے اور اس کی نزدیکی کے انوار مجھ میں بھرے ہوئے ہیں اور میری پیروی در حقیقت شکر محبت محبوب ہے اور جب تم نے میری پیروی کر کے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا تو اللہ تعالی تمہاری محبت و معرفت اور زیادہ کرے گا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا

فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ “اور فرمایا ” لَئِن شَكَرْ تُم لَا زِيدَنَّكُمْ

( اگر تم شکر کرو گے میں تم کو اور زیادہ دوں گا )

محبت کی حقیقت

عارفوں اور محبوبوں کے نزدیک یہ ہے کہ ” دل آتش شوق سے کباب ہو جاوے اور روح لذت عشق سے ماہی بے آب کی طرح تڑپے اور حواس دریائے انس میں ڈوب جاویں اور نفس کو پاک پانی سے طہارت حاصل ہو اور ہمہ تن آنکھ ہو کر فقط محبوب ہی کو دیکھے اور دونوں جہاں سے اپنی آنکھوں کو بند کرنے اور سر باطنی غیب الغیب میں سیر کرے اور محبوب کے جو اخلاق ہیں ان سے آراستہ ہوں اور یہی اصل محبت ہے۔”

اتباع کی تشریح اور حقیقت

اتباع اطاعت کا وہ درجہ ہے کہ تعمیل ارشاد مارے باندھے اور مجبوری سے نہ ہو بلکہ برضا ورغبت ہو اور یہ رضا و رغبت اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ جب تابع کو متبوع سے کامل محبت اور وابستگی حاصل ہو ۔ اتباع کی لغوی تشریح میں امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی عمدہ بات کہی ہے

والتبيع خص بولد البقرة اذا تبع امه

گائے کے پچھڑے کو تبیع اس لئے کہتے کہ ( فرط شوق میں ) ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے) اس میں اشارہ ہے کہ اتباع وہ عمل ہے جس میں ناگوار اطاعت besturdubo اطاعت کی کیفیت حاصل ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے خادم کو حکم دیتا ہے فلاں چیز لاؤ۔ خادم اپنی نوکری کو بچانے کی خاطر تیز دھوپ اوجھلسا دینے والی گرمی میں انتہائی ناگواری سے چیز لے آئے دل ہی دل میں مالک کو کوس رہا ہو کہ یہ کوئی وقت تھا کام کہنے کا بس منہ اٹھا کے زبان چلادی۔ اس کو دوسرے کی تکلیف کا ذرا احساس نہیں۔ دوسری طرف ایک معلم اپنے سعادت مند شاگرد کو بلا کر کسی چیز کو لانے کیلئے کہتا ہے اور ساتھ مشورہ دیتا ہے کہ ابھی گرمی کی شدت زیادہ ہے سورج ذرا ڈھل جائے یہ کام اس وقت سہولت سے کر لینا۔ لیکن سعادت مند شاگر د کڑکتی و چلچلاتی دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فرط سعادت سے دوڑتا ہوا جاتا ہے اور پورے قلبی اطمینان سے چیز لاتا ہے اسے پسینے میں شرابور ہونے کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ استاد کے دل کی خوشی مطلوب ہوتی ہے۔ پہلی صورت میں خادم نے ناگواری سے کام کیا، دوسری صورت میں شاگرد نے خوشگواری سے کام کیا۔ اسی دوسری کا نام اتباع ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کیلئے نبی علیہ السلام کی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا پس عشق الہی کے حصول کیلئے عشق رسول میں نے ایک وسیلہ ذریعہ اور زینہ کی مانند ہے۔

3۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاءُ كُمْ وَابْنَاءُ كُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ واموالکم اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةً تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِن تَرُوْنَها الَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِ القَوْمَ الْفَسِقِينَ )

(اے نبی اکرم نے اکہ دیجئے کہ تمہارے باپ، بیٹے ، بھائی ، بیویاں اور عزیز واقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں تمہارے کاروبار جن میں نقصان کا تمہیں خطرہ ہے اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں اگر یہ تمہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لائے اور اللہ تعالی فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا )

دین اسلام چونکہ دین فطرت ہے۔ وہ انسان کی ضروریات اور اس کے طبیعی تقاضوں کا خیال رکھتا ہے لہذا اس نے یہ حکم نہیں دیا کہ سارے رشتے ناطے توڑ دیے جائیں، عزیز و اقارب سے محبت کا قلع قمع کر دیا جائے جیسا کہ تاریخ ادیان عالم میں ان لوگوں کا شیوہ رہا ہے جنہوں نے رہبانیت اختیار کی بھر پور زندگی چھوڑ کر جنگلوں کی راہ لی اس مقام پر بہت کی قوموں نے ٹھوکر کھائی۔ اسلام نے اعتدال اور توازن کی راہ دکھلاتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف راستہ جنگلوں اور غاروں سے ہو کر نہیں جاتا بلکہ ان گلی کو چوں بازاروں سے ہو کر جاتا ہے۔ انسانی زندگی کی غرض و غایت دنیا کی چیزوں میں کھو جانے اور فقط رشتے تالے کے تعلقات میں گم ہو جانے سے بہت آگے اور بلند ہے۔ لہذا ان چیزوں کی محبت منع نہیں ہے، اصبیت منع ہے۔ لہذا یہ چیز میں تمہاری روحانی ترقی کے راستے میں حائل نہ ہوں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم والے کے عشق سے نہ ٹکرا ئیں۔ ایثار و شہادت کے میدان میں جانے سے تمہارا راستہ نہ روکیں تو ان کی محبت ممنوع نہیں اور اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ یہ چیزیں تمہیں راہ خدا میں جانے سے روکیں تو پھر ان تعلقات کو اور ان چیزوں کو پاؤں کی ٹھوکر لگا کر آگے نکل جاؤ۔ پس ان آیات کریمہ سے یہ واضح ہو گیا کہ رسول اکرم کی محبت تمام چیزوں سے زیادہ ہونی چاہیے ۔

حدیث نبویہ سے دلائل

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال ثلاث من كن فيه وَجَدَ حَلَاوَة أَلايمانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهَ ورسوله أحب إليه مما سواهما وأن يُحِبَ الْمَرُء وَلَا يُحِيهِ إِلَّا لِلَّهِ وَان يكره أن يعود في الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ .

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت پائے گا۔ اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ اس کو تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں اگر کسی سے محبت کرے اللہ کے واسطے کرے اور کفر و شرک اختیار کرنے سے اس قدر بیزار ہو جس قدر آگ میں ڈالے جانے سے )

حلاوت ایمان سے مراد یہ ہے کہ طاعات میں لذت محسوس ہو اور اللہ تعالی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کیلئے بڑی سے بڑی تکالیف بھی گوارا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت تو اس لئے کہ وہ پر ور دگار اور منعم حقیقی ہے۔ ساری نعمتیں اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہیں اور رسول اکرم ے سے محبت اس لئے کہ روحانی انعامات اور علوم الہیہ کیلئے وہی واسطہ ہیں ۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے

اھل الليل في ليلهم الذ من اهل الهوى في هواهم

( اہل ہوس کو اپنی عیاشیوں میں دو لذت نہیں ملتی جو اہل اللہ کو رات کی عبادت میں ملتی ہے ) اگر کسی شخص کو یہ عبادت والی لذت کی کیفیت حاصل نہیں ہو سکی تو اسے کم از کم اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کاملین و واصلین کی گواہی قبول کر لینی چاہیے و اذا لم تر الهلال فلم لاناس راوه بالابصار ( تونے اگر خود چاند کو نہیں دیکھا ان لوگوں کی بات ہی مان لے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے) پس ثابت ہوا کہ نبی اکرم انے سے عشق و محبت کا ہونا حلاوت ایمان نصیب ہونے کی علامات میں سے بڑی علامت ہے۔
2.رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ۔

لا يو من احدكم حتى اكون احب اليه من والده وولده والناس اجمعين

( تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کو میری محبت اپنے آباؤ اجداد، اولا د اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو جائے ) انسان کو اپنے والدین ، اولا د اور عزیز و اقارب سے فطری اور طبعی محبت ہوتی ہے اسی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ طرح طرح کی تکالیف اٹھاتا ہے بلکہ بعض اوقات گناہوں کا راستہ اختیار کر کے جہنم خریدتا ہے مندرجہ بالا حدیث پاک میں نہایت وضاحت کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ مومن کو نبی اکرم لانے کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہونی چاہیے۔ جب قلب میں عشق رسول ہونے کا غلبہ ہوگا تو پر انسان قرابت و رشتہ داری کی وجہ سے کوئی کام خلاف شروع نہیں کرے گا۔ والناس اجمعین کا لفظ استعمال فرما کر اس دائرے کو بہت وسیع کر دیا گیا ہے۔ لہذا مومن کے دل میں ساری مخلوق سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہونی چاہئے ۔ اس کو ایمان کی شرط بنا دیا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت اور زیادہ اجاگر ہوگئی.

اے اللہ مجھے میرے احباء سے جلد ملادے

ایک روایت میں آیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی کہ اے اللہ مجھے میرے احباء سے جلدی ملادے۔ حضرت ثوبان یہ سن کر حیران ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کن سے ملنے کی دعا کر رہے ہیں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ثوبان تم نے مجھے دیکھا ہے، وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، فرشتوں کو اترتے دیکھا ہے، میری صحبت میں رہنے کا شرف پایا ہے لہذا تمہارا ایمان بہت قیمتی ہے تا ہم قرب قیامت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے کہ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا ہوگا۔ فقط کتابوں میں میرے تذکرے پڑھے ہونگے لیکن ان کو مجھے سے اس قدر والہانہ عشق ہوگا کہ اگر ممکن ہوتا کہ وہ اپنی اولادوں کو بیچ کر میرا دیدار کر سکتے تو وہ یہ بھی کرگزرتے ۔ ثوبان ! میں اپنے ان احباء سے ملنے کی دعا کر رہا ہوں۔

3. حضرت عمر نے ایک مرتبہ نبی اکرم ا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ نے کیا میرا ایمان کامل ہے کیونکہ انت یا رسول الله احب الی من کل الامن نفسی ( یا رسول اللہ ہے آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں)۔ آپ اللہ نے فرمایا “لا والذي نفسي بيده حتى اكون احب الیک من نفسک ( نہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ( تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں )۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق تڑپ اٹھے اور فوراً عرض کیا “فانك الان والله احب الی من نفسی ( اللہ کی تم بے شک اب آپ ﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا الان بسا عمر (اے عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا ہے ) یہاں ایک بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حضرت عمر کے دل میں یہ بات تھی کہ انسان کو چوٹ لگے تو جتنی تکلیف ہوتی ہے اتنی تکلیف دوسرے کو چوٹ لگنے پر نہیں ہوتی ۔ لیکن جب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں تو حضرت عمر نے غور کیا اور یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر کوئی دشمن نبی ﷺ پر حملہ کرے تو آپ والے کو بچانے کے لئے تو میں اپنی جان بھی قربان کردونگا لہذا فورا جواب دیا، الحمد للہ اب آپ نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔

محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت ہوگی

ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پو چھنے لگا متی تکون الساعة ” قیامت کب آئے گی ؟ نبی اکرم ا نے پوچھا “ما اعددت لها ” تم نے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اعرابی نے کہا کہ میں نے نہ تو بہت نمازیں پڑھی ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ روزے رکھے ہیں یعنی فقط فرض نمازیں پڑھی ہیں اور روزے رکھتے ہیں تاہم میرا ایک عمل ہے کہ الا انی احب اللہ ورسولہ میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں نبی اکرم اللہ نے یہ سن کر کہا ” المرء مع من احب آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت ہوگی۔

صحابہ کرام کی خوشی کی انتہا

صحابہ کرام فرمایا کرتے تھے کہ ایمان لانے کے بعد ہمیں اتنی خوشی کسی اور حدیث سے نہیں ہوئی جتنی کہ اس حدیث مبارکہ سے ہوئی۔ عشاق کے لئے یہ نوید مسرت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتناہی کم ہے۔ روایت میں ہے کہ نبی کے ایک عاشق صادق حضرت ثوبان حاضر ہوئے تو ان کا چہرہ اترا ہوا اور رنگ اڑا ہوا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ حالت دیکھ کر وجہ پوچھی۔ دردمند عاشق نے جواب دیا یا رسول الله ؟ نہ تو جسمانی تکلیف ہے اور نہ کوئی دنیاوی پریشانی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب آپ ﷺ کا رخ انور میری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو دل بے تاب ہو جاتا ہے فورا دیدار کے لئے حاضر ہو جاتا ہوں۔ اب دل میں رہ رہ کر یہ خیال آرہا ہے کہ جنت میں تو آپ ﷺ کا مقام سب سے بلند ہو گا جبکہ یہ مسکین کسی نیچے درجے میں ہوگا ۔ اگر وہاں آپ ﷺ کی زیارت نصیب نہ ہو گی تو جنت میں کیا مزہ آئے گا۔ نبی اکرم نے یہ ماجرا سن کر خاموش ہو گئے۔ یہاں تک کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ خوشخبری لے کر آئے کہ ہم اطاعت گزار عاشقوں کو جنت میں جدائی کا صدر نہیں پہنچا ئیں گے۔

من يطع الله والرسول فاولئك مع الذين انعم الله عليهم من النبين والصديقين والشهداء والصالحین و حسن اولئك رفيقا

جو شخص اللہ اور رسول ہونے کی اطاعت کرتا ہے پس وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا وہ لوگ نبیوں رصالحین میں ہونگے اور یہ بہترین ساتھی ہونگے )

جمادات و حیوانات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

نبی اکرم ﷺ کی محبوبیت کا فطری جذ بہ انسانوں میں ہی نہیں بلکہ حیوانات، نباتات اور جمادات تک میں سرایت کر گیا ہے۔ چند دلائل درج ذیل ہیں۔ حجہ الوداع کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کو اپنے دست مبارک سے قربان کرنے لگے تو صحابہ کرام یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اونٹ قربان ہونے کیلئے ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر اپنی گردنیں پیش کرنے لگے یعنی ہر شکار نشانے پر دوڑ دوڑ کر آ جاتا کہ پہلے مجھے شکار کیجئے پہلے مجھے۔

۔ جید اسطوانہ حنانہ ( کھجور کا تنا) کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں اس قدر رونا کہ مسجد گونج اٹھی اور صحابہ کرام حیران رہ گئے۔ ہ مختلف مواقع پر درختوں کا نبی اکرم ﷺ کو سلام پیش کرنا نباتات میں حب نبوی ہے کے موجود ہونے کی واضح دلیل ہے۔ بخاری و مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ جبل احد کی طرف دیکھ کر فرمایا هذا جبل يحبنا و نحبه ( یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں) یہ فرمان ذیشان جمادات میں حب نبوی ہے کے موجود ہونے کی بھی دلیل ہے یہ تمام مثالیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت عامہ کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی و کامل محبت نصیب فرمائے آمین ثم آمین

کچھ نہیں مانگتا دنیا سے یہ شیدا تیرا
اس کو بس چاہیے نقش کف پا تیرا

اپنا تبصرہ بھیجیں