نظامہائے معیشت

نظامہائے معیشت

نظامہائے معیشت

دُنیا میں اس وقت جو مختلف معاشی نظام رائج ہیں ان میں دو نظام سب سے زیادہ نمایاں ہیں ایک سرمایہ دارانہ نظام (Socialism) جس کو عربی میں “الرأسمالیة” کہتے ہیں اور دوسرا اشتراکی نظام (Capitalism) ہے جسے عربی میں “‘الشموعیة“ کہا جاتا ہے۔ دُنیا میں ‎(Capitalism)‏ الاشتراکیة” کہتے ہیں اس کی انتہائی صورت اشتمالیت جو کچھ کا روبار یا معاملات ہو رہے ہیں وہ انہی دو نظاموں کے ماتحت ہو رہے ہیں سوویت یونین کے زوال کے بعد اگر چھ ختم ہو چکاء اور اس کے ساتھ ہی اس نظریے کی طاقت بھی کمزور پڑگئی ہے لیکن ایک معاشی نظربے کے اعتبار سے وہ دُنیا کے معاشی نظریات میں اب بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے اس لئے اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے: لہذا سب سے پہلے ان دو معاشی نظاموں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان کے مقابلے میں اسلام کے وجوہ امثیاز کو بیان کیا جائے گا.

سرمایہ دارانہ نظام (‌Capitalism)

سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں جائیں گے کہ اس نظام نے ان چاروں مسائل یعنی ترجیحات کا تعین وسائل کی تخصیصء آمدنی کی تقسیم اور ترقی کو حل کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا ہے. وہ یہ کہ ہر انسان کو تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کے لئے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے ء اور اسے یہ چھوٹ دے دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے جو طریقہ مناسب سمجھے اختیار کرے۔ اس سے معیشت کے مذکورہ بالا چاروں مسائل آپ ہی آپ حل ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ جب ہر شخص کی فکر یہ ہوگی کہ میں زیادہ سے زیادہ نفع کماؤں تو ہر شخص معیشت کے میدان میں وہی کام کرے گا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے اور اس کے میں چاروں مسائل خود بخود ایک خاص توازن کے ساتھ طے ہوتے چلے جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ چاروں مسائل خود بخود کس طرح حل ہوں . گے؟ اس سوال کے جواب کے لئے تھوڑی سی تفصیل کی| در حقیقت اس کائنات میں بہت سے Fatemified – : اس تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل نکات قابل ذکر ہیں ۔nat : ضرورت ہے اور طلب (Supply) قدرتی قوانین کارفرما ہیں جو ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں انہی میں سے ایک قانون رسد کا بھی ہے۔ رسد کسی بھی سامانِ تجارت کی اس مجموعی مقدار سے عبارت ہے جو بازار میں فروخت کے لئے (Demand) لائی گئی ہو اور طلب خریداروں کی اس خواہش کا نام ہے کہ وہ یہ سامان تجارت قیمتا بازار سے خریدیں۔ اب رسد و طلب کا قدرتی قانون یہہے کہ بازار میں جس چیز کی رسد طلب کے مقابلے میں زیادہ ہوء اس کی قیمت گھٹ جاتی ہے اور جس چیز کی طلب اس کی رسد کے مقابلے میں بڑھ جائے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاأً گرمی کے موسم میں جب گرمی زیادہ پڑنے لگے تو بازار میں برف کے خریدار زیادہ ہو جاتے ہیںء جس کا مطلب یہ ہے کہ برف کی طلب بڑھ گئی اب اگر برف کی مجموعی پیداوار یا بازار میں پائی جانے والی برف کی مجموعی مقدار اس طلب کے مقابلے میں کم ہوء تو یقیناً برف کی قیمت بڑھ جائے گی۔ الا یہ کہ اس وقت برف کی پیداوار میں اتنا ہی اضافہ ہو جائے جتنا طلب میں اضافہ ہوا ہے تو پھر قیمت نہیں بڑھے گی۔ دوسری طرف سردی کے موسم میں برف کے خریدار کم ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ برف کی طلب گھٹ گئی۔ اب اگر بازار میں برف کی مجموعی مقدار اس طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو تو یقیناً برف کی قیمت میں کمی آجائے گی۔ یہ ایک قدرتی کہا جاتا ہے۔ (Law of Demand & Supply) قانون ہے جس کو قانون رسید و مخلب سرمایہ دارانہ نظام کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ رسد و طلب کا یہ قدرتی قانون ہی در حقیقت زراعت پیشہ افراد کے لئے اس بات کا ‎ ‏تعین کرتا ہے کہ وہ اپنی زمینوں میں کیا چیز أگا سکیں؟ اور یہی قانون صنعت کاروں اور تاجروں کے لئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ کیا چیز کتنی مقدار میں بازار میں لائیں؟ اور اس طرح معیشت کے چاروں مذکورہ بالا مسائل خود بخود طے ہوتے
چلے جاتے ہیں۔

طلب و رسد کے قانون سے ترجیحات کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ جب ہم نے ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ تفع کمانے کے . ‏لئے آزاد چھوڑ دیا تو ہر شخص اپنے منافع کے خاطر وہی چیز بارار میں لانے کی کوشش کرے گاء جس کی ضرورت پا طلب زیادہ ہوگی تاکہ اسے اس کی زیادہ قیمت مل سکے۔ زراعت پیشہ افراد وہی چیزیں اگانے کو ترجیح دیں گے جن کی بازار میں طلب زیادہ ہے اور صنعت کاروہی مصنوعات تیار کرنے کی کوشش کریں گے جن کی بازار میں زیادہ مانگ ہے کیونکہ اگر یہ لوگ ایسی چیزیں بازار میں لائیںء جن کی طلب کم ہے تو انہیں زیادہ منافع نہیں مل سکے گا ۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص اگر چہ اپنے منافع کے خاطر کام کر رہا ہے لیکن رسد وطلب کی قدرتی طاقتیں اسے مجبور کر رہی ہیں کہ وہ معاشرے کی طلب اور ضرورت کو پورا کرے۔ یہاں تک کہ جب کسی چیز کی پیداوار بازار میں اتنی آجائے کہ وہ اس کی طلب کے برابر ہو جائے تو اب اس چیز کا مزید پیدا کرنا چونکہ تاجر اور صنعت کار کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا ء اس لئے اب وہ اس کی پیداوار بند کردے گا۔ اس طرح معاشرے میں صرف وہی چیزیں پیدا ہوں گی جن کی معاشرے کو ضرورت ہے اور اتنی ہی مقدار میں پیدا ہوں گی جتنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے واقعتا درکار ہے اور اسی کا نام ترجیحات کا تعین ہے۔ اس کا تعلق بھی درحقیقت ترجیحات کے تعین ہی سے ہے؛ جب کوئی(Allocation of Resources) وسائل کی تخصیص کر لیتا ہے تو اسی حساب سے موجودہ وسائل کو مختلف کاموں میں لگاتا ہے لہذا رسد و طلب کے قوانین جس طرح ترجیحات کا تعین کرتے ہیں اسی طرح وسائل کی تخصیص کا کام بھی ساتھ ساتھ انجام دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر شخص اپنے وسائل یعنی زمینء سرمایہ اور محنت کو اسی کام میں لگاتا ہے تا کہ وہ ایک جیسی ‘ چیزیں بازار میں لاسکے جن کی بازار میں طلب زیادہ ہے اور اسے منافع زیادہ حاصل ہو۔ لہذا رسد و طلب کے قوانین کے ذریعے وسائل کی تخصیص کا مسئلہ بھی خود بخود طے ہو جاتا ہے۔
تیسرا مسئلہ آمدنی کی تقسیم کا ہے بعض عمل پیدائش کے نتیجے میں جو پیداوار یا آمدنی حاصل ہوئی؛ اسے معاشرے میں.کس بنیاد پر تقسیم کیا جائے سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ جو کچھ آمدنی حاصل ہو وہ انہی عوامل کے درمیان تقسیم ہونی -:چاہئے جنھوں نے پیدائش کے عمل میں حصہ لیا۔ سرمایہ دارانہ فلسفے کے مطابق یہ عوامل کل چار ہیں
زمین
شخص ترجیحات کا باقاعدہ
سرمایہ
آجر یا تنظیم

آجر یا تنظیم سے مراد وہ شخص ہے جو ابتداء کسی عمل پیدائش کا ارادہ کر کے پہلے تین عوامل کو اس کام کے لئے اکھٹا کرتا ہے اور نفع نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ عمل پیدائش کے نتیجے میں جو کچھ آمدنی ہو وہ اس طرح تقسیم ہونی چاہئے کہ زمین مہیا کرنے والے کو کرایہ دیا جائے محنت کرنے والے کو اجرت دی جائے سرمایہ فراہم کرنے والے کو سود دیا جائے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی اور وہ آجر جو اس عمل پیدائش کا اصل محرک تھاء اسے منافع دیا جائے۔ یعنی زمین کا کرای محنت کی اأجرت اور سرمائے کا سود ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ آجر کا منافع ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تعین کس طرح ہو کہ زمین کو کتنا کرایہ دیا جائے گا ؟ محنت کو کتنی أُجرت دی جائے گی؟ اور سرمائے کو کتنا سود دیا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں سرمایہ دارانہ فلسفہ پھر اس قانون رسد و طلب کو پیش کرتا ہے یعنی یہ کہتا ہے کہ ان تینوں عوامل کے معاوضے کا تعین ان کی طلب و رسد ہی کی بنیاد پر ہوٹا ہے ان عوامل میں سے جس عامل کی طلب زیادہ ہوگی اس کا معاوضہ بھی اتنا زیادہ ہوگا۔ فرض کیجئے کہ زید ایک کپڑے کا کارخانہ لگانا چاہتا ہے چونکہ وہ اس صنعت کے قائم کرنے کا محرک ہے اور وہی نفع نقصان کا خطرہ مول لے کر عوامل کہا جاتا ہے۔ اب اسے (Entrepreneur)‏ “پیداوار کو اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ہے اس لئے معاشی اصطلاح میں اس کو آجر کارخانہ لگانے کے لئے پہلے تو زمین کی ضرورت ہے اگر زمین اس کے پاس نہیں ہے تو اسے کہیں سے کرایہ پر لینی پڑے گی اب اس کرا یہ کا تعیین زمین کی رسد و طلب کی بنیاد پر ہوگاء یعنی اگر زمین کرایہ پر دینے والے بہت سے ہیں یعنی زمین کی رسد زیادہ ہے اور لینے والے اس کے مقابلے میں کم ہیں یعنی طلب کم ہےە تو زمین کا کرایہ ستا ہوگا اور اگر اس کے براک صورت ہو تو زمین کا کرا یہ مہنگا ہوگا۔ اس طرح رسد و طلب کے قوانین کرایہ کا تعین کریں گے۔ پھر اسے کارخانے میں کام کرنے کے لئے مزدور درکار ہوں گے جن کو معاشی اصطلاح میں محنت سے تعبیر کیا جاتا ہےء انہیں أجرت دینی پڑے گی اس اجرت کا تعین بھی رسد و طلب کی بنیاد پر ہوگاء یعنی اگر بہت سے مزدور کام کرنے کے- سرماپھلئے تبار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کی رسد زیادہ ہے۔ لہذا اس کی اُجرت کم ہوئی ۔ لیکن اگر اس کارخانے میں کام کرنے کے لئے زیادہ مزدور مہیا نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رسد کم ہے لہذا انہیں زیادہ اجرت دینی پڑے گی۔ اس طرح اجرت باہمی گفت و شنید میں اس مقام پر متعین ہوگیء جس پر رسد و طلب دونوں کا اتفاق ہو۔

اسی طرح کارخانہ لگانے والے کو مشینری اور خام مال وغیرہ خریدنے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ جس پر سرمایہ دارانہ نظام میں اسے سود دینا پڑے گاء اس سود کی مقدار بھی رسد و طلب کی بنیاد پر طے ہوگی۔ اگر قرض دینے والے بہت سے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمائے کی رسد زیادہ ہے لہذا کم شرح سود پر کام چل جائے گاء لیکن اگر سرمایہ دار کو قرض دینے والے کم ہیں تو زیادہ شرح سود ادا کرنی پڑے گی۔ اس طرح شرح سود کا تعین بھی رسد وطلب کی بنیاد پر ہوگاہ اور جب رسد و طلب کی مذکورہ بنیادوں پر کرایہ؛ اجرت اور سود کا تعین ہو گیا تو کارخانے کی پیداوار کے نتیجے میں جو آمدنی ہوگی ء اس کا باقی ماندہ حصہ آجر کو نفع کے طور پر ملے گا۔
اس طرح آپ نے دیکھا کہ آمدنی کی تقسیم کا بنیادی مسئلہ بھی سرمایہ دارانہ نظام میں رسد و طلب کے قوانین کے تحت انجام پاتا ہے۔ چوتھا معاشی مسئلہ ترقی کا ہےە یعنی ہر معیشت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پیداوار کو ترقی دے اور اپنی پیداوار میں کما اور کیف اضافہ کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے کے مطابق یہ مسئلہ بھی اسی بنیاد پر حل ہوتا ہے کہ ہر شخص کو جب زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے آزاد چھوڑا جائے گا تو رسد وطلب کے قدرتی قوانین اسے خود بخود اس بات پر آمادہ کریں گے کہ وہ نئی سے نئی چیزیں اور بہتر سے بہتر کوالٹی بازار میں لائے ء تاکہ اس کی مصنوعات کی طلب زیادہ ہو اور اسے زیادہ نفع حاصل ہو۔

سرمایہ دارانہ نظام کے اصول

سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی أصول تین ہیں:

پہلا اصول یہ ہے کہ اس نظام میں ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے۔ کہ وہ اپنی ذاتی (Private Property) ا ذاتی ملکیت ملکیت میں اشیاء بھی رکھ سکتا ہے اور وسائل پیداوار بھی رکھ سکتا ہے۔ اشتراکی نظام میں اگر چہ ذاتی استعمال کی اشیاء تو ذاتی ملکیت میں آسکتی ہیں لیکن وسائل پیداوار مثلاً زمین یا کارخانہ عموماً ذاتی ملکیت میں نہیں ہوتے ء البتہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر قسم کی چیز چاہے وہ استعمالی اشیاء سے تعلق رکھتی ہو با اشیائے پیداوار میںء سے ہو وہ ذاتی ملکیت میں آسکتی ہے۔

دوسرا أصول یہ ہے کہ پیداوار کے عمل میں جو محرک کارفرما ہوتا ہے وہ : انسان (Profit Mattive)‏ ذاتی منافع کا محرک،‏ کے ذاتی منافع کے حصول کا محرک ہوتا ہے (Laisses Fare) ۔حکومت کی عدم مداخلت ‏سرمایہ دارانہ نظام کا تیسرا اصول یہ ہے کہ حکومت کو تاجروں کی تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ء وہ جس طرح کام کر رہے ہیں ان کی معاشی گرمی میں رُکاوٹ نہ ڈانی چاہئے ء نہ ان پر حکومت کی طرف سے زیادہ پابندیاں عائد کرنی کی اسطلان استعمال ہوتی ہے اصل میں یہ فرانسیسی لفظ ہے یعنی ” Laisses Fare” چاہئیں۔ عام طور پر اس اُصول کے لئے حکومت کی عدم مداخلت کی پالیسی’ اور اس کے معنی ہیں ” کرنے دو” یعنی حکومت سے یہ کہا جارہا ہے کہ جو لوگ اپنا تجارتی کام جس انداز سے کر رہے ہیں انہیں اس کام کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈالے بغیر آزاد رہنے دیا جائے.

اپنا تبصرہ بھیجیں