ہم اللہ تعالیٰ کا قرب کیسے حاصل کرسکتے ہیں

ہم اللہ تعالیٰ کا قرب کیسے حاصل کرسکتے ہیں

ہم اللہ تعالیٰ کا قرب کیسے حاصل کرسکتے ہیں

قرب الٰہی کے اسباب

ہم انسان ہونے کے ناطے سب خطا کار ہیں اور سب سے اچھے خطا کا روہ ہیں جو اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے بلکہ اقرار و استغفار کا راستہ اپناتے ہیں اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرب الہی حاصل کرنے کے بے شمار ذرائع ہیں ایک مومن کو تمام ذرائع اختیار کرنے چاہئیں چا تا کہ کسی ذریعہ سے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو جائے ۔

ایمان اور عمل صالح

ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَا أَمْوَالَكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضَّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْفُرْقَاتِ آمِنُونَ (سورة السباء : 37)

اور تمہارا مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے پاس ( مرتبوں ) سے قریب کر دیں ہاں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ان کے لئے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہے اور وہ نڈ روبے خوف ہو کر بالا خانوں میں رہیں گے۔ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان اور عمل صالح ہے، اس لیے ارشاد فرمایا:

إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا

مقرب وہ بن سکتا ھے جو شخص ایمان لائے اور نیک اعمال کرے۔ یعنی مال اور اولا د ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ ان سے اللہ کا قرب حاصل ہو سکے۔ بلکہ یہ ہی چیزیں اکثر انسانوں کے لیے تقرب الی اللہ کی بجائے اسکے غضب اور غصے کا سبب بن جاتی ہیں۔

سجدے کے ذریعے قرب الہی حاصل کرنا

قرب الہی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ نماز ہے اور نماز میں چونکہ سجدے کو مرکزی مقام حاصل ہے اس لیے ارشاد باری تعالی ہے

كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (سورة العلق : 19)

آپ اس کی بات نہ ماننے اور سجدہ کر کے قرب حاصل کیجیے۔
معدان بن ابی طلحہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان سے ملا تو میں نے کہا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے کروں تو اللہ اس کی وجہ سے مجھے جنت میں داخل فرمادے، یا انہوں نے کہا: میں نے پوچھا: جو عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہو، تو ثوبان رض نے خاموشی اختیار فرمائی ( اور میری بات کا کوئی جواب نہ دیا ) پھر میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا ، انہوں نے خاموشی اختیار کر لی ، پھر میں نے ان سے تیسری دفعہ یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے یہی سوال رسول اللہ کی تعلیم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا:

عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلَّا رَفَعَكَ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنكَ بِهَا خَطِيئَةً

تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے اللہ اس کے نتیجے میں تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔ (صحیح مسلم:1093) اسی طرح یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مزید سمجھ آتی ہے :

يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ وَيَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَا وَسُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا

ہمارا رب ( روز قیامت ) اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو ہر مومن مرد اور مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ ریز ہو جائیں گے ، صرف وہی باقی رہ جائے گا جو دنیا میں ریا اور شہرت کی خاطر سجدہ کیا کرتا تھا، وہ سجدہ کرنا چاہے گا لیکن اس کی کمر تختہ بن جائے گی ( اور وہ سجدہ کے لیے جھک نہیں سکے گی )۔ صحیح البخاری: 4919 اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ ایک ایسا ذریعہ ھے جس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے شرط یہ ہے کہ وہ سجدہ خالص اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت سے کیا گیا ہو۔

نماز میں خشوع

قرب الہی کے اسباب میں سے ہے کہ انسان نماز پڑھتے ہوئے اس تصور کو ذہن میں بٹھائے کہ میں اللہ تعالی سے ہم کلام ہوں ، اس سے سرگوشی کر رہا ہوں ، اپنا مطلوب اپنے پروردگار کو سنارہا ہوں اور اللہ تعالی بھی اس کا جواب دے رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّي إِنَّمَا يَقُومُ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ كَيْفَ يُنَاجِيهِ

جب تم میں کا ایک شخص نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سر گوشی کرتا ہے لہذا دیکھ لے کہ اس سے کیسے سر گوشی کر رہا ہے۔ مستدرك حاكم: 861، یہی نہیں بلکہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اپنا چہرہ اپنے بندے کے چہرے کی طرف گاڑھ دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ

جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو بے توجہی مت بر تو کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ اپنے بندے کے چہرے پر گاڑھ دیتے ہیں جب تک بندہ ہے تو جہی نہیں برتا۔ اس لیے قرب الہی کے لیے :
جو لفظ یا کلمہ زبان سے کہیں ، اس کے معنی اپنے خیالات میں لائیں۔ (سنن الترمذی:2863)، ذہن بنائیں کہ اللہ میرے سامنے ہے، جو میں کہہ رہا ہوں یا کر رہا ہوں، اسے وہ سن رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں۔ اپنی غلامی اور تذلیل کی جسمانی وضع پر نگاہ اور تصور جمادیں کہ اللہ تعالیٰ میری اس وضع کو دیکھ رہے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور بات چیت کر رہا ہوں۔ کیا پتا کہ یہ میری آخری نماز ہو۔

سنن کے ذریعہ تقرب الی اللہ

سیدنا ابو ہریرہ رض بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ قَالَ : مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أَحِبَّهُ

جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی ، میرا اس سے اعلان جنگ ہے، میں نے بندے پر جو چیزیں فرض کی ہیں، ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے ( یعنی فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے (بھی) میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔

تہجد کے ذریعہ تقرب الی اللہ

سید نا ابو امامہ رض بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ العَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ ممَّن يَذْكُرُ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ

رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہو جاو ( یعنی تہجد پڑھو ) ۔ (صحیح سنن ترمذی:3579)

سبحان اللہ ! اللہ اپنے بندوں کے سب زیادہ قریب رات کے نصف میں ہوتا ہے جو تہجد کا وقت ہے۔

دعا اور مناجات کے ذریعے تقرب الی اللہ

دعا بھی ایک عظیم ذریعہ ہے جس سے ہم اللہ رب العالمین کا قرب حاصل کر سکتے ہیں، جیسا کہ ارشادربانی ھے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِيَوَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ( البقرة : 186)

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریبوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو
بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :

وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف: 56)

اور تم اسے خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔ بلا شبہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔ اس آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالی سے مناجات کرنی چاہئیں، کیونکہ ان سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ھے ، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ الَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ العَافِيَةَ يَعْنِي

تم میں سے جس کسی کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لیے (گویا ) رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے ، اور اللہ سے مانگی جانے والی چیزوں میں سے جسے وہ دے اس سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں کہ اس سے عافیت مانگی جائے۔

سنن ترمذی انفاق فی سبیل الله

اللہ رب العالمین کا ارشاد ھے :

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيم (التوبة : 99)

اثر بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یا د رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لئے موجب قربت ہے ، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔

سیدنا ابوھریرہ رض بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَا مِنْ يَوْمِ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا : اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ : اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دوفرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ ! بخیل کے مال کو تلف کر دے۔ (صحيح البخاری:1442)

اپنا تبصرہ بھیجیں