متعاقدين سے متعلق احکام
متعاقدين سے متعلق احکام
(٢٥)عقد کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ عقد کرنے والے دونوں عاقل اور ممیز ہوں۔
(٢٦)مجنون اور غیر ممیز ( ناسمجھ ) بچے کی بیع منعقد ہی نہ ہوگی۔
(۲۷) ممیز (سمجھ دار ) نابالغ بچے کی بیع اس کے ولی کی اجازت پر موقوف ہوگی ، خواہ اجازت عقد سے پہلے حاصل کر لی ہو یا عقد کے بعد حاصل کی جائے۔اجازت عام ہو یا خاص۔ اور اجازت بیچ اسی نوع ( یا چیز ) کے ساتھ مخصوص ہوگی ، جس کے متعلق بیع کی اجازت دی ہو، جس نوع میں اجازت نہ دی ہو اس میں یہ اجازت مفید نہ ہوگی.
(۲۸) بیع صحیح ہونے کے لیے متعاقدین کا مسلمان ہونا یا آزاد ہونا شرط نہیں، نہ ہی اعضاء کی سلامتی شرط ہے، لیکن مسلمان کا غیر مسلم کو مصحف قرآنی فروخت کرنا ، اگر مصحف کی تو ہین کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں۔
(۲۹) بیع کی صحت کے لئے شرط ہے کہ بیچ دو آدمیوں کے درمیان ، ایک کے ایجاب اور دوسرے کے قبول سے منعقد ہو۔ ایک ہی آدمی عقد کی دونوں جہتوں کا مالک نہیں ہوسکتا، لہذا اگر کسی انسان کو دوسرے نے اپنا سامان بیچنے کا وکیل بنایا ہوتو وکیل وہ سامان اپنے لئے نہیں خرید سکتا۔ اسی طرح اگر کچھ خریدنے کا وکیل بنایا ہوتو وکیل خود سے نہیں خرید سکتا۔ پہلی صورت میں اگر اس نے موکل کی چیز اپنے لئے خرید لی یا دوسری صورت میں اپنا ہی سامان موکل کے لئے خرید لیا تو یہ بیع و شراء مؤکل کی اجازت پر موقوف ہوگی ، اس نے اگر اجازت دے دی تو یہ اس کی طرف سے قبول سمجھا جائے گا۔
(۳۰) نمبر ۲۹ میں مذکور قاعدے سے یہ صورت مستثنیٰ ہوگی، اگر باپ اپنے صغیر بچے کا مال خود ہی خرید لے یا اس کے لئے کچھ سامان اپنے مال میں سے خریدے تو یہ درست ہوگا، شرط یہ ہے کہ ثمن مثل سے ہو یا اس قدر ( کمی زیادتی ) سے ہو جسے عادہ لوگ گوارا کر لیتے ہیں۔
البتہ یتیم کے وصی کے لئے اس طرح یتیم کا مال اپنے ہی ہاتھوں بیچ لینا یا یتیم کے لئے اپنا ہی مال خرید لینا درست نہیں ، ہاں اگر یتیم کا واضح فائدہ ہوتو یہ بھی درست ہوگی ۔
(۳۱) اگر مشتری مبیع خرید کر معصیت کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا حکم درج ذیل صورتوں کے مطابق ہوگا۔
(۱) بائع کا مقصود معصیت میں مشتری کا تعاون کرنا ہو، مثلاً مشتری کی جانب سے ہونے والی معصیت میں تعاون کی نیت ہو، یا عقد میں ایسی کوئی تصریح ہو کہ بائع یہ چیز اس لئے بیچ رہا ہے تا کہ مشتری اسے معصیت میں استعمال کرے، جیسے انگوریا شیره انگور شراب بنانے کے مقصد کی تصریح کے ساتھ بیچنا، یا مبیع ایسی چیز ہو جو معصیت ہی کے کام آتی ہو، جیسے پرستش کے لیے بنائی جانے والی مورتیاں بیچنا، ان صورتوں میں عقد حرام ہوگا، منعقد نہ ہوگا اور بائع گنہگار ہوگا۔
(۲) اور اگر بائع کا مقصود اعانت علی المعصیت نہیں، لیکن بیع اس معصیت کا سبب بنتی ہے، تو عقد حرام نہ ہوگا ، ہاں اگر یہ بیع معصیت کے لیے سبب محرک ہو تو پھر یہ عقد بھی حرام ہوگا۔ اور اگر سبب محرک نہ ہو، بلکہ سبب قریب ہو اس طور پر کہ وہ چیز موجودہ حالت میں ہی معصیت میں استعمال کی جاتی ہو اور فاعل (مشتری) کو کچھ نئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہ ہو تو بیع مکروہ تحریمی ہوگی ، ورنہ مکروہ تنزیہی ہوگی۔
(۳۲) بیع جائز ہونے کے لیے متعاقدین کی رضا مندی شرط ہے۔
(۳۳) مکرہ (جس پر جبر کیا گیا ہو ایسے شخص) کی بیع فاسد ہوگی اور جبر (اکراہ) کے ختم ہونے کے بعد مکرہ کی اجازت پر موقوف رہے گی۔ اکراہ ختم ہونے کے بعد مکرہ یہ بیع درست قرار دے تو نافذ ہوگی، ورنہ باطل ہوگی اور مکرہ ( جبر کرنے والے) کے تصرفات بھی باطل ہوں گے۔
(۳۴) بیچ میں اکراہ یہ ہے کہ مکرہ یہ چیز ( یعنی دھمکی ) جان یا عضو کے تلف کرنے کی ہو، یا ایسی مصیبت کی ہو جس سے رضامندی فوت ہو جائے ، لہذا اس میں مکرہ، اس کی اولاد، والدین، بیوی، یا ذی رحم محرم کے متعلق دھمکی بھی شامل ہے، اور دھمکی چاہے جسمانی ایذارسانی کی ہو یا مالی نقصان پہنچانے کی ہو یا مکرہ کو کسی ظالم کے حوالے کر دینے کی ہو۔
(۳۵) ناجائز اثر ورسوخ (Undue Influence) اکراہ سے کمتر چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مقصود کے حصول میں منصب کا استغلال کیا جائے۔ اور عقود میں اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے ظاہری منصب، مرتبہ یا معنوی عظمت و وقار استعمال کرتے ہوئے ایسے شخص کے ساتھ عقد کرنا چاہے جو اس سے کم درجے کا ہو۔ مثلاً بیٹا باپ کے سامنے تلمیذ استاذ کے سامنے، مرید شیخ کے سامنے اور ماتحت امیر کے سامنے۔ اس طرح بڑے کے دباؤ میں جب کمتر شخص عقد کرے گا تو اس کے لئے بڑے کی پیش کش ٹھکرانا ممکن نہ ہوگا اور ناراضگی کے باوجود حقیقی رضا مندی سے وہ عقد کرے گا ۔ ایسے ناجائز رسوخ کی صورت میں صاحب معاملہ اگر یہ جانتا ہے کہ فریق آخر کی دلی رضامندی نہیں ہے اور دباؤ میں آکر عقد کر رہا ہے تو دیانۃ یہ بیع درست نہیں ۔ پھر بھی اگر یہ بیع اکراہ، اضطرار یا دھوکے سے نہ ہو تو نافذ ہو جائے گی۔
(۳۶) اضطرار کی حالت میں کی گئی بیع کا حکم اضطرار کی صورتوں کے مطابق حسب ذیل ہوگا:
(۱) اضطرار، دوسرے کی جانب سے اکراہ کے سبب ہو۔ یہ صورت بیع مکرہ میں شامل ہے، جیسا کہ نمبر ۳۳ میں گذر چکا۔
(ب) انسان کوئی چیز خرید نے یا بیچنے پر ایسے مخمصے کی وجہ سے مجبور ہو جائے کہ بیع نہ کرنے کی صورت میں اس کو اپنی یا اپنے عیال کی جان کا خوف لاحق ہو۔ مثلاً سخت بھوکا ہوا اور ثمن مثل سے زیادہ ثمن سے کھانا خرید نے یا اپنا مال شمن مثل سے بہت کم قیمت پر بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو اور محض اپنی یا عیال کی بھوک دفع کرنے کے لیے ایسا کرتا ہو۔ ایسی صورت حال میں اگر خرید وفروخت ثمن مثل سے ہو تو بھی صحیح ہے، اور اگر غبن فاحش سے ہو تو بیع فاسد ہے لیکن ایسی حالت میں خریدنے کی صورت میں خریدا ہوا کھانا اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے کھانا حلال ہوگا ، اور اس پر ثمن مثل ہی واجب ہوگا۔
(ج) اپنی غربت محتاجی یا قرض خواہوں کے مطالبہ کی وجہ سے آدمی بیچنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ صورت اصطلاحاً اضطرار کے معنی میں شامل نہیں، لہذا جو بیع کی جائے گی وہ صحیح ہوگی، چاہے غبن فاحش سے ہو؛ البتہ ایسی حالت میں اس شخص کے ساتھ معاملہ کرنے والے کا اس کو نھین میں مبتلا کرنا مکروہ ہو گا۔
(۳۷) تغریر ( غلط بیانی ) یہ ہے کہ ایک فریق (دوسرے کو لبھانے کے لئے ) ایسی بات بیان کرے جس پر اعتماد کرتے ہوئے دوسرا فریق عقد کرنے پر رضامند ہو جائے اور پھر حقیقت اس کے خلاف معلوم ہو۔ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
(۱) مبیع کی جنس بیان کرنے میں غلط بیانی ( تغریر ) کی گئی ہو، مثلاً جیولری بیچنے والا یوں کہے کہ یہ سونے کی جیولری ہے ، پھر پتہ چلے کہ یہ سونے سے ملمع چاندی کا زیور ہے، اس صورت میں بیع باطل ہے.
(۲) وصف مبیع میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہو، مثلا گاڑی بیچنے والا یوں کہے کہ یہ نئی کار ہے، یا فلاں ملک میں بنی ہوئی ہے ، پھر حقیقت اس کے خلاف نکلے ، تو اس صورت میں خیار وصف ( خیار فوات الوصف) کے احکام لاگو ہوں گے۔ خیار کے بیان میں اس کی تفصیل آئے گی ، انشاء اللہ۔
(۳) مبیع کی مارکیٹ ویلیو (بازار میں رائج قیمت ) بتانے میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہو، مثلاً بائع نے یہ بتایا کہ بازار میں اس کی قیمت ایک ہزار ہے۔ پھر پتہ چلا کہ بازار میں اس کا ریٹ پانچ سو ہے۔ یا مشتری بائع سے یوں کہے کہ ایسی چیز بازار میں پانچ سو میں دستیاب ہے، اور اس طرح بائع سے پانچ سو میں خرید لے، پھر بائع کو پتہ چلے کہ یہ چیز بازار میں ایک ہزار میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس صورت میں خیار مغبون کے احکام جاری ہوں گے، جس کی تفصیل عنقریب خیارات کے بیان میں آرہی ہے۔ ان شاء اللہ ۔
(۳۸) تدلیس، (دھوکہ بازی) یہ ہے کہ بائع مبیع میں ایسی کاریگری کرے، جس سے غیر حقیقی ( مبیع میں موجود نہ ہوا یسی) خوبی نمایاں ہو۔ مثلاً پرانا کپڑا اس طرح رنگ دے کہ نیا معلوم ہو۔ اس کا حکم تغریر ( غلط بیانی) کی صورتوں کے مطابق ہوگا ، اگر یہ دھوکہ بازی غبن فاحش سے جاملتی ہے، یا اس سے وصف مرغوب فیہ فوت ہوتا ہو تو مشتری کو خیار فتح ملے گا۔ اور بعض صورتوں میں تاوان کا مطالبہ کرنے کا حق ہوگا یا نقصان واپس لینے کا اختیار ہوگا ، بایں طور کہ بائع سے ناقص اور کامل مبیع کی قیمت کا درمیانی فرق وصول کیا جائے گا۔ خیارات کے بیان میں اس کی تفصیل آ رہی ہے، ان شاء اللہ ۔
(۳۹) خطا فی العقد ، عقد کرنے میں متعاقدین یا کوئی ایک اپنی غلط فہمی کی وجہ سے غلطی کر دے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
(۱) الخطافی وجود اسمیع : یعنی بائع نے یوں سمجھ کر بیع کی کہ مبیع موجود ہے، پھر معلوم ہوا کہ موجود نہیں ، جیسے زید نے اپنے گودام میں موجود متعین سبزیاں بیچی ، جنہیں مشتری بیع سے قبل دیکھ چکا تھا، پھر جب گودام کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ خراب ہوچکی ہیں ، یا بیع سے قبل ہی چوری ہوگئی تھیں ، اس صورت میں بیع باطل ہے۔
(۲) مشتری کو مبیع کے متعلق یہ خطا ( غلطی) ہو کہ وہ اپنی ( مشتری کی ) مملوک نہیں، مثلا زید عمرو سے کوئی زمین یوں سمجھتے ہوئے خریدتا ہے کہ عمر و اس کا مالک ہے، پھر پتہ چلے کہ وہ زمین زید ہی کی مملوکہ ہے، اس طرح کہ زید نے یہ زمین کسی سے میراث میں پائی ہے ، مگر خریدتے وقت اس کو اس بات کا علم نہ تھا۔ اس صورت میں مبیع بائع کی مملوک نہ ہونے کی وجہ سے بیع باطل ہے۔
( ۳ ) استحقاق۔ اس کی صورت یہ ہے کہ زید عمرو سے کوئی چیز یوں جان کر خریدے کہ عمر وہی اس کا مالک ہے، پھر گواہوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ اس چیز کا حقیقی مالک خالد ہے، عمر و نہیں۔ اس صورت میں محض استحقاق سے بیچ فسخ نہ ہوگی ، بلکہ مستحق (مالک حقیقی ) کی اجازت پر موقوف رہے گی، البتہ اگر مسحق مبیع پر قبضہ کرلے اور بائع مشتری کو ثمن لوٹا دے تو بیع فسخ ہو گئی۔ اور اگر مالک حقیقی بیع کو جائز کر دے تو مبیع پر مشتری کی ملکیت جاری رہے گی اور مالک حقیقی بائع سے ثمن وصول کرلے گا اور اگر مالک حقیقی بیچ کی اجازت نہ دے تو بیع فسخ ہو جائے گی اور مستحق کو حق ہو گا کہ مشتری سے مبیع لے لے اور مشتری اپنا ثمن بائع سے وصول کرے.
(۴) مبیع کی معرفت میں خطا۔ وہ یہ ہے کہ مبیع کی جنس میں یا مدار عقد کسی بنیادی وصف میں یا مقدار کی معرفت میں خطا ( بھول ) ہو جائے ۔ اس طور پر کہ بیع کرتے وقت یہ گمان ہو کہ مبیع فلاں جنس کی ہے پھر کسی دوسری جنس کی نکل آئے ۔ مثلاً خریدتے وقت یوں سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرید رہا ہے وہ سونا ہے، پھر پتہ چلا کہ چاندی ہے۔ یا جنس تو وہی ہے لیکن معقود علیہ یعنی موجود بائع اور مشتری کی مطلوبہ مبیع میں تفاوت فاحش ہو؛ ایسی خطا اگر دونوں جانب سے ہو اور دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ غلطی سے یہ عقد ہو گیا ہے تو عقد باطل سمجھا جائے گا۔ اور اگر خطا کسی ایک جانب سے ہو، اور اس میں دوسری جانب سے تغریر، تدلیس سے کام نہ لیا گیا ہو تو عقود کی نوعیت کے اعتبار سے حکم مختلف ہوگا۔ اور جس قاعدے پر عمل ہوگا وہ یہ ہے کہ ، خطا کے سبب سے ہونے والے نقصان کا اندازہ اور خطا کاریعنی نقصان کا ذمہ دار متعین کیا جائے گا۔ اور یہ عقد در عقد الگ الگ ہو سکتا ہے، اس لئے
ایسے امور میں فیصلہ قاضی کے سپرد ہے۔ قاضی اپنے سامنے پیش ہونے والے ہرقضیہ میں اصول و قواعد اور عدل و انصاف کے مطابق اپنی صوابدید سے فیصلہ کرے گا (۴۰) دکھلاوے کی مصنوعی بیع- (بيع التلجنة أو الهزل ) دونوں عاقدین آپس میں حقیقی بیع مراد نہ ہونے کی پیشگی مفاہمت کر کے کسی غرض کے مد نظر فقط دوسروں کے سامنے خرید و فروخت ظاہر کریں۔ (ایسا کبھی ظالم حاکم کی مجبوری کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ ایسی بیع کا حکم یہ ہے کہ اگر عاقدین بیع سے قبل ہی اتفاق کر لیں کہ جو بیع کریں گے وہ غیر مقصود بے کار ہو گی، پھر عقد کریں تو یہ بیع باطل اور غیر منعقد ہوگی۔ اور منازعت کی صورت میں جو کوئی ہزل و تلجیہ کا دعوی کرے، اس پر لازم ہے کہ سابقہ اتفاق ثابت کرنے کے لئے گواہ پیش کرے۔ اور اگر فقط ثمن کی جنس یا مقدار میں دکھلاوا یا ہزل کرتے ہوں ، بعد اس کے کہ اصل بیع حقیقی ہونے پر دونوں متفق ہیں تو ایسی پیشگی مفاہمت کا کوئی اعتبار نہیں، اور قضاء یہ بیع اس ثمن پر منعقد سمجھی جائے گی جو عقد کے وقت دونوں نے بیان کیا ہو۔
(۴۱) ظاہری بیع (العقود الصورية / Benami contracts) یہ ہے کہ مبیع حقیقی مشتری کے علاوہ کسی اور شخص کے نام پر خریدی جائے ، تاکہ سرکاری دفاتر میں اس شخص کا نام درج کیا جائے۔ ایسا کسی مصلحت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حقیقی مشتری وہی ہوتا ہے جو شمن ادا کرتا ہے۔ اس صورت میں مالک حقیقی بھی وہی شخص سمجھا جائے گا جو ثمن ادا کرے۔ البتہ یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ وہی حقیقی مشتری ہے اور دوسرے شخص کے
نام کا اندراج فقط نمائشی ہے۔
(۴۲) عاقدین کی رضامندی کی شرط سے درج ذیل حالات مستثنیٰ ہیں :
(الف) حقیقی مفادِ عامہ کے پیش نظر حکومت کسی ایسی زمین خریدنے پر مجبور ہو جس کے بغیر وہ عوامی ضرورت پوری نہ ہو سکتی ہو تو حکومت کے لئے جائز ہے کہ مالک سے وہ زمین ادائیگی کے دن کی مارکیٹ ویلیو کے عوض خرید لے۔ اور ثمن کی ادائیگی کے بغیر مالک سے زمین کا قبضہ نہ لے۔
(ب) تاجر لوگ شہریوں کی اشیاء ضرور یہ ذخیرہ کر لیں تو حکومت ایساذ خیر بیچ سکتی ہے، چاہے تاجر اس پر رضامند نہ ہو۔
(ج) اگر حکومتی طور پر شرعی شرائط کے مطابق انصاف کی بنیادوں پر قیمتوں کی تحدید کی جاتی ہو تو تاجروں کو متعینہ قیمت سے زیادہ وصول نہ کرنے پر مجبور کیا جائے گا، چاہے وہ اس پر رضا مند نہ ہوں۔
(د) شفیع بطور حق شفعه غیر منقولہ مبیع ( جائداد ) وصول کر سکتا ہے۔ حق شفعہ اولاً شریک في نفس المبیع کے لئے، پھر شریک فی حق المبیع کے لئے اور پھر جار ملاصق کو ملاتا ہے.