محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے

احترام وتعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

۔ کہتے ہیں کہ : ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں محبت رسول کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل و جان سے احترام کیا جائے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حکم عدولی تو در کنار اونچی آواز میں بات کرنے سے بھی ایمان ضائع کرنے کے مترادف ہے، جیسا کہ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْض أن تحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (الحجرات : ۱-۴)

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جانے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز میں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔ بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آواز میں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام ہی یہ بہت محتاط ہو گئے اور تاجدار رسالت کابینہ سے گفتگو کے دوران بہت سی احتیاطوں کو اپنے اوپر لازم کر لیا تا کہ آواز زیادہ بلند نہ ہو جائے، نیز اپنے علاوہ دوسروں کو بھی اس ادب کی سختی سے تلقین کرتے تھے اس بارے میں ہم چند ایک واقعات پیش کرتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید نا ثابت بن قیس جاہلی کونہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ میں آپ کے لئے ان کی خبر لاتا ہوں ۔ پھر وہ ثابت بن قیس بھی الٹا کے یہاں آئے ۔ دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم سلام کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی ۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لئے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے ۔رسول اللہ لی علیہ نے فرمایا: کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔
(بخاری ۲۸۴۲ صحیح مسلم (۱۱۹)

دوسرا واقعہ:
سید نا عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کی کیا حالت تھی:

فكان عمر بن الخطاب، بعد ذلك إذا تكلم عند النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم لم يسمع كلامه حتیٰ یستفتمه

اس واقعہ کے بعد عمر بن خطاب جب نبی کریم صلي اللہ عليه وسلم سے گفتگو کرتے تو اتنے دھیرے بولتے کہ بات سنائی نہیں دیتی، یہاں تک کہ سامع کو ان سے دوبارہ پو چھنا پڑتا.
سامعین محترم يہ تو تھا رسول اللہ کی زندگی میں صحابہ کرام رضوان الله عليهم أجمعين کا ادب، اب ہمارے لیے آپ صلي عليه وسلم کا ادب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحیح معنوں میں محبت کریں، آپ ﷺ کے فرمودات وارشادات کے سامنے سرغم تسلیم ہو جائیں، اور جہاں آپ سلام کی بات بیان کی جارہی ہو، اسے انتہائی توجہ سے نہیں۔

٢: نبی کریم سال کے لیے مال و جان کی قربانی دینے کا جذبہ

نبی کریم صلي الله عليه وسلم سے محبت کا ایک تقاضایہ بھی ہے کہ آپ صلي الله عليه وسلم کے ساتھ ساری دنیا سے بڑھ کر محبت ہو، اور اس محبت میں اگر جان بھی نچھاور کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے۔ چنانچہ سیدنا انس بن مالک ہی کي روایت ہے کہ رسول اللہ سلم نے ارشا د فرمایا

لا يُؤْمن أحدكم حتى أكون أحب إِلَيْهِ مِن وَالِدہٖ وَوٰلَدِہٖ وَالنَّاسِاَجْمَعِيْنَ.

تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کے ہاں اس کے والد ، اس کی اولاد، اور دنیا کے تمام لوگوں سے میری محبت زیادہ نہ ہو جائے
٢ سادات صحابہ کرام نے رسول اللہ صلي الله عليه وسلم سے اس قدر محبت کی کہ اس محبت میں اپنی جانوں کی بھی پروانہ کی رسول کی حفاظت کی۔ آئیے اس کی ایک مثال سماعت فرما ئیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ بی امان فرماتے ہیں:
جنگ احد کے دن جب لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، (اس وقت) رسول اللہ صلي الله عليه وسلم انصاری صحابہ کے ساتھ ایک طرف موجود تھے انہیں میں ایک طلحہ بن عبید اللہ تھے ۔ مشرکین نے انہیں ( تھوڑا دیکھ کر) گھیر لیا تو رسول اللہ سلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ہماری طرف سے کون لڑے گا ؟ طلحہ رضي الله عنه نے کہا: اللہ کے رسول ! میں ( آپ کا دفاع کروں گا ) ، رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا تم جیسے ہو ویسے ہی رہو تو ایک دوسرے انصاری صحابی نے کہا: اللہ کے رسول ! میں ( دفاع کیلئے تیار ہوں )۔ آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: تم لڑو ان سے ) تو وه لڑے یہاں تک کہ شہید کر دیئے گئے۔ پھر آپ نے مڑ کر سب پر ایک نظر ڈالی تو مشرکین موجود تھے آپ نے پھر آواز لگائی: قوم کی کون حفاظت کرے گا؟ طلحہ رضي الله عنه (پھر) بولے: میں حفاظت کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ( تم بخبررهو) تم جیسے ہو ویسے ہی رہو، تو دوسرے انصاری صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! میں قوم کی حفاظت کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم ( لڑوان سے ) پھر وہ صحابی ( مشرکین سے ) لڑے اور شہید ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی پکارتے رہے اور کوئی نہ کوئی انصاری صحابی ان مشرکین کے مقابلے کے لیے میدان میں اتر تا اور نکلتا رہا اور اپنے پہلوں کی طرح لڑ لڑ کر شہید ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ بن عبید اللہ ہی باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی۔ قوم کی کون حفاظت کرے گا؟ طلبہ رضی اللّٰہ عنہ نے (پھر) کہا: میں کروں گا (یہ کہہ کر ) پہلے گیارہ (شہید ساتھیوں) کی طرح مشرکین سے جنگ کرنے لگ گئے۔ (اورلڑتے رہے ) یہاں تک کہ ہاتھ پر ایک کاری ضرب لگی اور انگلیاں کٹ کر گر گئیں۔ انہوں نے کہا : جس ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم (جس کے بجائے ) بسم اللہ کہتے تو فرشتے تمہیں اٹھا لیتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے ، پھر اللہ تعالی نے مشرکین کو واپس کر دیا ( یعنی وہ مکہ لوٹ گئے )

٣: اطاعت رسول صلى الله عليه وسلم

محبت رسول میں اطاعت رسول ضروری ہے، کیونکہ اطاعت رسول ہی سے معلوم ہوگا کہ ہمیں رسول اللہ صلي الله عليه وسلم سے کتنی محبت ہے ؟ اس بات کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے:

قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قُل أطيعوا الله والرسول فإن تولوا فإن الله لا يحب الكافرين (آل عمران : 32.52)

آپ کہہ دیں اگر تم اللہ تعالی کو محبوب رکھنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اس وقت اللہ تعالی تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔
کهہ دیجئے ! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ موڑ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالی کا فروں سے محبت نہیں کرتا۔
اسیطرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبي ، قالوا يا رسول الله، وَمَن يَأبي؟ قال من أطاعني دخل الجنَّةَ وَمَنْ عَصَانِ فقد أبی

میری امت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ تانیہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے انکار کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا۔
صحیح البخاري ( ٢٨٠، المستدرك على الصحیحین المحاكم ۱۸۲
محترم ! سادات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے محبت رسول صلی علیہ وسلم کا حق ادا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ ہم اس کی چند ایک مثالیں آپ کی سماعتوں کے حوالے کرتے ہیں:
ابواسید انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت فرماتے ہوئے سنا جب آپ مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور لوگ راستے میں عورتوں میں مل جل گئے تھے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا:

استاعون فإنه ليس لكن أن تحقق الطريق عليكن يعاقات الطريق، فكانت المرأة للتصق بالجدار على إن ثوبها ليتعلق بالجدار من أصولها به

تم پیچھے ہٹ جاؤ، تمہارے لئے راستے کے درمیان سے چلنا ٹھیک نہیں، تمہارے لئے راستے کے کنارے کنارے چلنا مناسب ہے۔ پھر تو ایسا ہو گیا کہ عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے ( دو پتے وغیرہ ) دیوار میں پھنس جاتے تھے۔

٤: احیائے سنت

نبی کریم صلي الله عليه وسلم کی محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کی سنت سے پیار کرتے ہوئے اسے اپنا یا جائے ، خودان پر عمل پیرا ہونے کے بعد لوگوں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے ، آپ کی سنتوں کو زندہ کرتے ہوئے آپ کی نصرت کی جائے، چنانچہ رب تعالی کا ارشاد ہے:
سو جو لوگ اس (رسول) پر ایمان لائے اور انہوں نے اس کی تعظیم کی اور اس کی مدد کی اور اس نور ( ہدایت) کی پیروی کی جو اس پر نازل کیا گیا، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اسیطرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس نے میری سنت کو زندہ کیا، پھر اس پر لوگوں نے عمل کیا، اسے اس پر عمل کرنے والوں کے برابرثواب ملے گا اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

٥: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دور و سلام بھیجنا

حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار و اثبات کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ پر درود وسلام بھیجا جائے ، کیونکہ یہ درود صرف انسان ہی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّ الله وملائكته يصلون على النبی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلموا تتَسْلِيمًا (الاحزاب :56)

بے شک اللہ اور اے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجو۔
رسول اللہ ﷺ نے درود شریف پڑھنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود جیسے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھنے کے بغیر جنت میں جانا مشکل ہے، رسول اللہ نےارشاد فرمایا:
جس نے مجھ پر درود پڑھنا بھولا دیا ۔ اس نے جنت کا راستہ لینے میں غلطی کردی۔
سامعین محترم ! آپ کےحضور درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی محفل ہی پرجا کر کی جائے یا کوئی خاص وقت ہی صرف کیا جائے بلکہ یہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اور خاص طور پر جب آپ ﷺ کا تذکرہ ہو تو فورا آپ پر درود بھیجنا چاہیے۔

٦: سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی

محبت کے لیے اس شخصیت سے واقفیت ضروری ہوتی ہے، اس لیے آپ ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سیرت النبی پر لکھی جانے والی مستند کتب کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے، جیسے : زاد المعاد فی حدی خیر العباد ، الحقیق المختوم اور سیرت کا انسائیکلو پیڈیا وغیرہ۔

٧:مشن نبوی کی تکمیل

محبت رسول کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلي الله عليه وسلم جس مشن کو لے کر اس دنیا میں آئے تھے، اس مشن کو مسلسل آگے بڑھاتے رہیں۔ آپ ﷺ کا مشن یہ تھا کہ آپ صلي الله عليه وسلم لوگوں کو کفر و شرک کی دلدل سے نکال کراللہ کی راہ دکھاتے تھے، لوگوں کو قبر پرستی سے بچا کر صرف ایک رب کے سامنے سجدہ کرنے کا کہتے تھے، لوگوں کو بت پرستی سے نکال واحد رب کی عبادت کا درس دیتے تھے۔ عظیم مقصد کی آبیاری کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن رات ایک کر کے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا۔ تو آئیے ! ہم بھی اس مشن میں اپنا وقت نکالیں اور دنیائے کائنات سے کفر و شرک کا خاتمہ کردیں۔

٨: محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت

نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضوں میں ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر اس شخص سے محبت کی جائے جس سے آپ کو محبت تھی۔ آل رسول، تمام صحابہ کرام ، بالخصوص اہل بیت اور انصار و مہاجرین سے محبت کی جائے۔ اسی طرح ہر اس چیز اور جگہ سے بھی محبت کی جائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرتے تھے، جیسے: مکہ احد پہاڑ، خوشبو، سبزیوں میں کدووغیرہ۔

٩: رسول صلی اللہ علیہ وسلم

ہمارا عقیدہ ہے اس وقت تک ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموں کا دفاع نہ کریں۔ آج کے اس سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈ یا پر اکثر ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں طرح طرح سےناز یبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جس قدر ہوسکے اپنے حبیب کا دفاع کریں۔ کیونکہ خود اللہ تعالی اپنے پیارے کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بلا شبہ جو لوگ اللہ تعالی اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں، ان پر اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں لعنت برسائی ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کیا ہے

١٠: نبوت پر کامل ایمان

جس طرح آپ کو اللہ تعالی کا پیغمبر مانناضروری ہے، اسی طرح آپ کو خاتم الانبياء ماننا بھی ضروری ہے اور یہ بھی آپ سے محبت کے تقاضوں میں ایک تقاضا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وحاتم النبيين.

محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ رسول اللہ اور خاتم النبيين ہیں۔
اسی طرح رسول اللہ صل اللہ نے فرمایا:
بے شک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

١١: شان مصطفی کے بیان میں راہ اعتدال

نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضوں میں ایک تقاضایہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئےآپ کی شان و عظمت اور مقام و مرتبہ میں مبالغہ آرائی نہ کی جائے ، کیونکہ اس بات کو رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے سخت نا پسند فرماتے تھے، چنانچہ سید نا عمر رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلام نے ارشاد فرمایا: تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا، جس طرح عیسائیوں نے عیسی بن مریم کو بڑھایا، میں توصرف اللہ کا بندہ ہوںبتم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔ اسیطرح صحیح بخاری میں ہے کہ ایک بچی نے گیت گاتے ہوئے نبی کریم نظام کے بارے میں یہ الفاظ اور ہم میں ایک نبی ہے جو جاتا ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے۔تو آپ اللہ نے فرمایا: اس طرح نہ کہو، اس کے علاوہ جو کچھ تم پڑ ھوری تھی وہ پڑھو۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف وہی شان بیان کرنی چاہیے جو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمائی یا رسول اللہ نے اپنی زبانی صحابہ کرام کو بتائی ، اس کے لیے خود ساختہ فضائل ومناقب اور سنی سنائی باتوں سے کلی اجتناب کرنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں