
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
صحابہ کرام رض کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کیا۔ آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ اسکی چند ایک مثالیں آپکے سامنے پیش کرتے ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
ایک موقع پر سید نا ابوبکررض نے لوگوں سے کہا تھا:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ
میں کسی بھی ایسی چیز پر عمل نہیں چھوڑ سکتا جس پر رسول اللہ عمل کرتے تھے۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں آپ کے قول و فعل میں سے کچھ بھی چھوڑوں گا تو گمراہ ہو جاؤں گا۔ صحیح البخاري: 3093
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
عابس بن ربیعہ رض روایت کرتے ہیں کہ :
أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الحَجَرِ الأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبْلَتُكَ
عمر رض حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا: میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع ۔ اگر میں نے نبی اکرم حلالم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ صحیح البخاري: 1597
اور ایک روایت میں ہے کہ عمر رض فرماتے ہیں: شَيْءٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تُحِبُّ أَنْ تَتْرُكَهُ یہ وہ کام ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا ہے پس ہم نہیں چاہتے کہ اسے ترک کر دیں۔ صحیح البخاري: 1605
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
کنا مع ابن عمر في سَفَرٍ، فَمَرَّ بِمَكانٍ فَخادَ عَنْهُ، فَسُئِلَ لِمَ فَعَلْتَ؟ فَقَالَ : ” رَأَيْت له صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا فَفَعَلْتُ
عبد اللہ بن عمر رض کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ وہ ایک جگہ کے قریب سے گزرے تو اس کے راستہ سے ہٹ کر چلے۔ پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ( آپ اس راستہ سے گزرے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس لئے میں نے بھی ایسا کیا ہے۔ مسند احمد : 4870 قال الارنوط اسناده صحیح
نافع فرماتے ہیں:
سمعَ ابْنُ عُمَرَ مِنْمَارًا قَالَ: فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ، وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَقَالَ لي : يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شيْئًا؟ قَالَ : فَقُلْتُ: لَا ، قَالَ : فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا
ابن عمر رض نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع ! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا : نہیں ، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔ سنن ابی داود: 1924، قال الألباني: صحیح
سید نا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنھما
سید نا جابر بھی وہ فرماتے ہیں:
لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ : اجْلِسُوا فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَجَلَسَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَرَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ
رسول اللہ لا جمعہ کے دن جب منبر پر اچھی طرح سے بیٹھ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: بیٹھ جاؤ، تو عبد اللہ بن مسعود بھی انڈیا نے ( جو اس وقت مسجد کے دروازے پر تھے ) اسے سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے، تو انہیں رسول اللہ صلی علیم نے دیکھا تو فرمایا: عبداللہ بن مسعود! تم آ جاؤ۔ سنن ابی دارد : 1091، قال الألباني: صحیح
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
انس بن سیرین فرماتے ہیں:
اسْتَقْبَلْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِكِ حِينَ قَدِمَ مِنَ الشَّامِ، فَلَقِينَاهُ بِعَيْنِ التَّمْرِ فَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي عَلَى حِمارٍ، وَوَجْهُهُ مِنْ ذَا الجَانِبِ – يَعْنِي عَنْ يَسَارِ القِبْلَةِ – فَقُلْتُ : رَأَيْتُكَ تُصَلِّي لِغَيْرِ القِبْلَةِ، فَقَالَ : لَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ لَمْ أَفْعَلْهُ
انس عالی شام سے جب ( حجاج کی خلیفہ سے شکایت کر کے ) واپس ہوئے تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔ صحیح البخاري: 1100
سید نا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ
سیدنا انس رض فرماتے ہیں:
كُنتُ سَاقِيَ القَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، وَكَانَ غَيْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الفَضِيخَ، فَأَمَرَ رَسُولُ للَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي: «أَلا إِنَّ احْمَرَ قَدْ حُرِّمَتْ قَالَ : فَقَالَ أبو طلحة: الحرج، فَأَهْرِقُهَا، فَخَرَجْتُ فَهِرَقْتُهَا، فَجَرَتْ فِي سِكَكِ المَدِينَةِ
میں سید نا ابوطلحہ رض کے گھر میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا: ( یہ سنتے ہی ) ابو طلہ نے کہا باہر لے جا کہ بہادو۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی۔ صحیح البخاری: 2464، صحیح مسلم: 1980
سید نا خریم اسدی رضی اللہ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نِعْمَ الرَّجُلُ خَريمَ الْأَسَدِيُّ، لَوْلَا طُولُ جُمَّتِهِ، وَإِسْبَالُ إِزَارِهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ خُرَيْمًا فَعَجِلَ، فَأَخَذَ شَفْرَةً فَقَطَعَ بِهَا جُتَهُ إِلَى أُذُنَيْهِ، وَرَفَعَ إِزَارَهُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ
خریم اسدی کیا ہی اچھے آدمی ہیں اگر ان کے سر کے بال بڑھے ہوئے نہ ہوتے ، اورتہ بند ٹخنے سے نیچے نہ لکھتا۔ یہ بات خریم کو معلوم ہوئی تو انہوں نے چھری لے کر اپنے بالوں کو کاٹ کر کانوں کے برابر کر لیا، اور تہ بند کو نصف ( پنڈلی ) تک اونچا کر لیا۔ سنن ابی داود: 4089، قال الالبانی: صحیح
جب سب نے حالت نماز میں جوتے اتار دیئے
حارث بن عبد اللہ بن عوف ولی اللہ بیان کرتے ہیں:
بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَن يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ الْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاتَهُ، قَالَ : مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ، قَالُوا : رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا – أَوْ قَالَ : أَذًى
رسول اللہ کی یہ صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر انہیں اپنے بائیں جانب رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو ( آپ سلیم کی اتباع میں ) انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، جب رسول اللہ سلیم نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: ” تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار لیے؟”، ان لوگوں نے کہا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، اس پر رسول اللہ کا لیڈر نے فرمایا: ” میرے پاس جبرائیل علیہ آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے”۔ سنن ابی داود: 650 قال الألباني: صحیح
چولہے پر جوش مارتی ہنڈیاں پھینک دی گئیں
سیدنا انس رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْھانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الحُمْرِ الأَهْلِيَّةِ. فَأُكْفِنَتِ القُدُورُ وَإِنَّهَا لَتَفُورُ باللحم
یقینا اللہ اور اس کا رسول تمہیں پالتو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ تمام ہنڈیاں الٹ دی گئیں، حالانکہ وہ گوشت کے ساتھ جوش مار رہی تھیں ۔ صحیح البخاری: 4199، صحیح مسلم: 1940
صحابیات کے دوپٹے دوار سے گھسٹنے لگے
ابواسید انصاری رض سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت فرماتے ہوئے سناجب آپ مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور لوگ راستے میں عورتوں میں مل جل گئے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا:
اسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِه
تم پیچھے ہٹ جاؤ تمہارے لئے راستے کے درمیان سے چلنا ٹھیک نہیں تمہارے لئے راستے کے کنارے کنارے چلنا مناسب ہے۔ پھر تو ایسا ہو گیا کہ عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے ( دوپٹے وغیرہ ) دیوار میں پھنس جاتے تھے۔ سنن ابی داود: 5272، قال الالبانی: حسن
صحابی رسول نے سونے کی انگوٹھی پھینک دی
سید نا عبد اللہ بن عباس رض فرماتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى خَاتَمَا مِنْ ذَهَبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ، فَنزَعَهُ فَطَرَحَهُ، وَقَالَ : يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إلى جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَيَجْعَلُهَا فِي يَدِهِ ، فَقِيلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُذْ خَاتِمَكَ انْتَفِعْ بِهِ، قَالَ : لَا وَاللهِ، لَا أَخُذُهُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپ نے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتھ سے اتار کر دور پھینک دی گویا آپ نے اظہار ناراضگی کیا۔ آپ کے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اٹھالو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو ( کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے۔ صحیح مسلم : 2090، صحیح ابن حبان: 15
اگر آپ کا حکم ہو تو ہماری سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے
انس رض کرتے ہیں کہ :
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: فَتَكَلَّمْ أَبُو بَكْرٍ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقَالَ : إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ يُخِيضَهَا الْبَحْرَ لأَخَضْنَاهَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْعِمَادِ لَفَعَلْنَا، قَالَ : فَتَدَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان کے تجارتی قافلہ کی آمد کا پتہ چلا تو آپ کی ٹیم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا ۔ ابوبکر رض نے کچھ کہنا چاہا، آپ صلی اللہ وسلم نے منہ پھیر لیا، عمر رض نے کچھ کہنا چاہا آپ نے ان کی طرف سے بھی منہ پھیر لیا۔ تو سعد بن عبادہ رض نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ ہم لوگوں (یعنی انصار) سے رائے لینا چاہتے ہیں؟ تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں تو ہم سمندر میں ڈال کر رہیں گے اور اگر آپ حکم دیں کہ ہم اپنی اونٹنیوں کے سینے برک الغماد پہاڑ سے جاٹکرائیں تو ہم ایسا ضرور کر کے رہیں گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( خوش ہوئے اور آپ نے لوگوں کو دعوت ( جہاد ) دی۔ صحیح مسلم: 1779
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری ذمہ داریاں
1. دل و جان سے بڑھ کر سنتوں سے محبت کیجئے ۔
2. اپنے ہر ہر قول اور عمل میں رسول اللہ کی اللہ کی اطاعت کریں۔
3. اتباع وفرمانبرداری کا تقاضا یہ ہے کہ بدعات وخرافات سے کنارہ کریں۔
4. ہمارے لیے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرکسی کا قول اور فعل معتبر نہیں ہونا چاہیے۔ زمانے بھر میں سنتوں کا عام کر دیجئے ۔
5. کبھی بھی کسی ایسے بدعتی شخص سے دلی دوستی نہ رکھیں جو دین میں بدعات کو شامل کرنے والا ہو۔
6. کبھی بھی کسی ایسی مجلس محفل اور تقریب کا حصہ نہ بنیں جو بدعات پر مشتمل ہوں۔