قربانی کس پر واجب ہے؟ 2

حج کے فضائل و احکام

حج کے فضائل و احکام

ماه ذی قعدہ حج کا دوسرا مہینہ ہے، اور اسی مہینے میں عموماً آج کل حجاج کرام حج کے سفر پر جاتے ہیں، اور اس مہینہ میں حج کرنے والوں کی چہل پہل اور نقل و حرکت نظر آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر چہ حج ذی الحجہ کے مہینہ میں ادا کیا جاتا ہے۔
حج کی تاکید و اہمیت اور اس کے ترک کرنے پر وعید اسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رکن بیت اللہ کا حج ہے۔

حج اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین عبادت ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت آدم یا حضرت ابراہیم علیہم الصلاۃ والسلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام یا اکثر انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے حج کیا ہے۔ 1 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن دس ہجری میں اپنے وصال سے تین مہینے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا، جو

” حَجَّةُ الْوِدَاعُ “

کے نام سے مشہور ہے۔

روی آن آدم عليه السلام حج أربعين سنة من الهند ماشيا وأن جبريل قال له : إن الملائكة كانوا يطوفون قبلك بهذا البيت سبعة آلاف سنة وادعى ابن إسحاق أنه لم يبعث الله تعالى نبيا بعد إبراهيم إلا حج، والذى صرح به غيره أنه ما من نبي إلا حج خلافا لمن استثنى هو داود وصالحا عليهما الصلاة والسلام (روح المعانی)

ہے اور اس کو حجۃ الوداع اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس حج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصال اور وداع فرما گئے تھے، اور اس حج کے موقع پر آپ نے انتہائی جامع، قیمتی نصیحتیں اُمت کو فرمائی تھیں، جو داع وفراق والے کے مثل تھیں۔

حج کی فرضیت کا حکم کس وقت نازل ہوا؟

اس بارے میں اہلِ علم حضرات کے مختلف اقوال ہیں ، ایک قول سن پانچ ہجری میں، دوسرا قول سن چھ ہجری میں، تیسرا قول سن سات ہجری میں، چوتھا قول سن آٹھ ہجری میں اور پانچواں قول سن نو ہجری میں فرض ہونے کا ہے، اور بہت سے حضرات نے سن چھ ہجری میں حج کے فرض ہونے کو راجح قرار دیا ہے۔

قرآن وسنت میں حج کی اہمیت

قرآن وسنت میں حج کی بہت زیادہ تاکید و اہمیت بیان کی گئی ہے، اور صاحب استطاعت لوگوں کے اس کو چھوڑنے پر سخت سزا اور وعید کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا وَمَنْ كَفَرَفَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (سورة آل عمران ٩٧)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ ( کی رضا) کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو شخص انکار کرے تو اللہ تعالیٰ کا اس میں کیا نقصان ہے اللہ تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے

وضاحت:

انکار کرنے میں وہ شخص تو داخل ہے ہی جو صراحتا اور صاف طور پر حج کے فریضہ کا منکر و انکاری ہو ، حج کو فرض ہی نہ سمجھے، اس کا دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہونا تو ظاہر ہے۔ اس لئے كَفَرَ ، یعنی کفر و انکار کرنے کا لفظ اس پر صاف طور سے صادق آتا ہے اور ایسے شخص پر پورا اترتا ہے اور جو شخص حج کو عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے لیکن باوجود استطاعت و قدرت کے حج نہیں کرتا وہ بھی ایک حیثیت سے یعنی عملی طور پر منکر ہی ہے۔ اس کے حق میں کفر وانکار تنبیہ کے لئے ہے، کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے، جیسے کافر حج نہیں کرتے یہ بھی عمل کے اعتبار سے ایسا ہی ہے، اگر چہ وہ حقیقت میں دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو۔
آیت کے اس جملہ میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے ، کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہو گئے، کیونکہ اس آیت میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے طرز عمل کو کفر “ کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔ اور

“فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ”

کی وعید سنائی گئی ہے اس کا مطلب یہی ہوا، کہ ایسے ناشکرے اور نا فرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔

قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

وَأَذِنُ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ (سوره حج آیت ۲۷)

ترجمہ: اور ( ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ) آپ لوگوں میں حج کے متعلق اعلان کردیجئے ( اس اعلان سے ) لوگ تمہارے پاس پیدل چلے آئیں گے اور اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے ( لمبے سفر کی تکان کی وجہ سے ) دبلی پتلی حالت میں پہنچیں گی (سورہ حج) مطلب یہ ہے کہ جن سواریوں پر لوگ دُور دراز سے سفر کر کے پہنچیں گے ، ان سواریوں پر لمبے سفر کے ( گرد و غبار کی شکل میں ) آثار ظاہر ہوں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

لَمَّا فَرَغَ إِبْرَاهِيمُ مِنْ بِنَاءِ الْبَيْتِ قَالَ: رَبِّ قَدْ فَرَغْتُ فَقَالَ : أَذِنُ فِي النَّاسِ بِالْحَقِّ، قَالَ: رَبِّ وَمَا يَبْلُغُ صَوْتِي؟ قَالَ: أَذِنَ وَعَلَى الْبَلَاغُ قَالَ: رَبِّ كَيْفَ أَقُولُ؟ قَالَ: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْحَجُ، حَجُّ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ فَسَمِعَهُ مَنْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَلَا تَرَى أَنَّهُمْ يَجِيئونَ مِنْ أَقْصَى الْأَرْضِ يُلَبُونَ؟ (مستدرک حاکم)

ترجمہ: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے ، تو انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں (بیٹ اللہ کی تعمیر سے ) فارغ ہو چکا ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ لوگوں میں حج کا اعلان فرمائیے ، حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب! کیا میری آواز لوگوں تک پہنچ جائے گی؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ تو اعلان فرمائیے ، اور آواز کا) پہنچانا ہمارے ذمہ ہے، حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب ! میں کس طرح اعلان کروں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ یہ کہئے کہ اے لوگو! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے، بیت عقیق (یعنی بیٹ اللہ ) کا حج ( حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسی طرح اعلان کر دیا ) تو حضرت ابراہیم کے اس اعلان کو آسمان اور زمین کے درمیان والے سب نے سن لیا، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ لوگ زمین کے دور دراز علاقوں سے تلبیہ پڑھتے ہوئے (حج و عمرہ کے لیے جوق در جوق چلے آتے ہیں ( یہ اسی اعلان کا اثر ہے ) ( مستدرک حاکم) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی بعض روایات میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے حج کی فرضیت کے اعلان کی آواز بطور معجزہ قیامت تک آنے والے سب لوگوں کی روحوں تک پہنچادی تھی۔ چنانچہ اس وقت سے آج تک ہزار ہا سال گزر چکے ہیں، بیت اللہ کی طرف حج کے لئے آنے والوں کی یہی کیفیت ہے ، حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد جو ایک لمبا زمانہ جاہلیت کا گزرا ہے اس میں بھی عرب کے لوگ جو اگر چہ بت پرستی کی بلاء میں مبتلاء ہو گئے تھے مگر حج کی وہ بھی پابندی کیا کرتے تھے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَج، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاری)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے، ایک اس حقیقت کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ (عبادت) کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، دوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ :

وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرُنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، :

زکاۃ ادا کرنا، چوتھے حج کرنا ، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا (بخاری ومسلم ) اس قسم کی حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ اے اس سے معلوم ہوا کہ حج، اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ہے، جن پر کہ اسلام کی عمارت قائم ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبریل امین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے جوابات دیے، جن میں ایک سوال اسلام کے بارے میں تھا، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔

: اور حضرت جبریل امین نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے اسلام کے بارے میں خبر دیجئے (کہ اس کی حقیقت کیا ہے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ آپ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں، اور آپ نماز قائم کریں، اور آپ زکاۃ

شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت، وصوم رمضان ” (مسند احمد، رقم الحدیث ۱۹۲۲)

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمُ الْحَجِّ، فَحُجُوا ۔

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (ایک دن) خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو ! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کر دیا ہے، لہذا تم حج کرو (صحیح مسلم) حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَآتُوا الزَّكَاةَ، وَحُجُوا واعْتَمِرُوا ، وا يُسْتَقَمُ بِكُمُ (المعجم الكبير للطبراني)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نماز قائم کرو، اور زکاۃ ادا کرو، اور حج کرو، اور عمرہ کرو، اور ( ایمان اور اعمال صالحہ پر ) استقامت عطا کی جائے گی (طبرانی) نماز اور زکاۃ کے ساتھ حج کے ذکر اور ان اعمال کی برکت سے استقامت نصیب ہونے سے حج کی اہمیت معلوم ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں