
تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسکے تقاضے
تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسکے تقاضے
جس بڑے سے محبت ہوتی ہے اس کی عظمت دل ودماغ پر چھا جاتی ہے، پھر یہ چاہنے والا اپنے محبوب کی تعظیم اور اس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے، اسلام نے تو ہر بڑے کی تعظیم کا درس دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقرْ كَبِيرَنَا
جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑے کی تعظیم نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔ سنن الترمذی: 1919،
اور محمد رسول اللہ کی یہ تو سارے بڑوں میں سب سے بڑے ہیں اور اتنے بڑے ہیں کہ آج تک اتنا بڑا پیدا نہ ہوا، اور نہ ہی پیدا ہوگا۔ اس لئے آپ کی تعظیم بھی سب سے بڑھ کر ہونی چاہئے
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم
پہلی دلیل:
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اہل ایمان کو جو سب سے پہلے خطاب فرمایا ہے اس میں تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أليم ( البقرة: 104)
اے ایمان والو ا تم ) اللہ کے رسول کو مخاطب کر کے ( راعنا نہ کہو بلکہ انظر نا کہا کرو اور بات کو اچھی طرح سنا کرو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ مدینہ کے یہودی جب آپ سے بات چیت کرنے کے لیے آتے تو ” راعنا” کہتے جس کا عام طور پر مطلب یہ بنتا ہے کہ ہماری رعایت فرما ئیں لیکن اگر اس میں مین کو ذرا کھینچ کر بولا جائے تو اس کے معنی بنتے ہیں اے ہمارے چروا ہے! چونکہ اس لفظ سے بے ادبی اور گستاخی کا وہم پیدا ہوتا ہے اس لیے اللہ رب العزت نے ایسا لفظ بولنے پر پابندی لگا دی جس سے تعظیم رسول سلام میں ذرہ برابر بھی فرق پڑتا ہو۔ ” راعنا“ کے بجائے ” انظر نا“ کہنے کا حکم دیا جس کا معنی ہے ہم پر نظر شفقت فرمائیں۔
دوسری دلیل :
ارشاد باری تعالی ہے:
لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِي أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( النور : 63)
تم اللہ کے رسول کو اس طرح سے نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو اللہ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو تم آہستگی سے نکل جاتے ہیں لہذا جولوگ اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس بات سے ڈریں کہ ان تک کوئی آفت ( آزمائش ) آپہنچے یا کوئی دردناک عذاب نازل ہو جائے۔
عموما جب لوگ ایک دوسرے کو بلاتے ہیں تو اس بلانے میں زیادہ اہمیت نہیں ہوتی بلکہ برابری کی سطح پر بلاتے ہیں، آیت مبارکہ میں اس انداز سے روکا جا رہا ہے کہ اس سے تعظیم رسول میں دراڑ پڑتی ہے۔ حکم ہے کہ ادب اور تعظیم کے ساتھ بارگاہ رسالت مآب سالم میں حاضر ہوا کرو۔ رسول اکرم سالی کو پکارنے بلاتے ہیں، آیت مبارکہ میں اس انداز سے روکا جا رہا ہے کہ اس سے تعظیم رسول میں دراڑ پڑتی ہے ۔ حکم ہے کہ ادب اور تعظیم کے ساتھ بارگاہ رسالت مآب سالم میں حاضر ہوا کرو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار نے کے بارے میں آج بھی یہی ضابطہ ہے کہ جب بھی آپ کا نام پکارا جائے یا آپ کا نام سنا جائے تو اسی تعظیم کا اظہار کیا جائے۔
تیسری دلیل :
جیسا کہ رب تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِرًا وَنَذِيرًا لَتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ( الفتح: 8.9)
اے پیغمبر ! یقینا ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ) اللہ کی طرف سے ملنے والے انعام و ثواب کی خوشخبری دینے اور ) اللہ کے عذاب سے (ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ تا کہ ) لوگو ( تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی نصرت کرو اور اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے رہو۔
اس آیت مبارکہ میں بتایا جارہا ہے کہ رسول پر ایمان لاؤ، ان کے مشن میں ان کا ساتھ دو اور ان کا بلند مقام ومرتبہ تسلیم کر کے ان کی تعظیم کرو یعنی ان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارو۔
چوتھی دلیل:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَيكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجُ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (الحجرات: 1 / 5)
اے ایمان والو تم اللہ ورسول سے ( کسی معاملہ میں ) سبقت نہ کیا کرو (ان سے پہلے نہ بول اٹھا کروان کے حکم کا انتظار کیا کرو ان کا فرمانا اللہ کا فرمانا ہے ) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ ) سننے والا (اور تمہارے دلوں کے حال کو بھی ) خوب جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو اپنی آواز کو پیغمبر کی آواز سے بلند نہ کیا کرو (نہ آواز میں تیزی ہو نہ بلندی ہو ) اور ان سے اس طرح زور سے نہ بولو جیسے آپس میں زور سے بولتے ہو ( یہ بات ادب کے خلاف ہے دیکھو ) کہیں تمہارے اعمال ( تمہاری نادانی سے ) ضائع نہ ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ بیشک جو لوگ رسول اللہ کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث ) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقومی کے لئے چن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجر عظیم ہے۔ بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر ( آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آداب تعظیم کی سمجھ نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اللہ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شاندار مثال
امت میں سب سے زیادہ صحابہ کرام رض نے اور اس کے بعد درجہ بدرجہ تمام اہل ایمان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی ہے تعظیم رسول کا دائرہ بہت وسیع ہے آپ سے منسوب ہر ہر چیز کو عظمت کی نگاہ سے دیکھنا اور قدر کرنا شامل ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال پیش خدمت ہے:
مسور بن مخرمہ سے روایت ہے عروہ بن مسعود ( جب بارگاہ رسالت میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو صحابہ کرام کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں تعظیم وتوقیر کا مشاہدہ کرتارہا۔ اس نے بیان کیا:
أي قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدَتْ عَلَى المُلُوكِ، وَوَفَدَتْ عَلَى قَيْصَرَ، وَكِسْرَى،وَالنَّجَاشِي، وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَذِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظْمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عليه وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا، وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ تُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأْ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ
اسے لوگو اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں، قیصر وکسر ی اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھ اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ساقی کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محد سلا نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجالانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی ۔ آپ کا ہم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ سال اللہﷺ کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ علیہ نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ سالم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ عروہ نے مزید اپنی قوم سے کہا :
فَوَاللَّهِ مَا تَنَخمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفَّ رَجُلٍ بهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ منهم فذلك .
قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ سیاللہ نے بلغم بھی تھوکا تو آپ کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ سی لیلہ نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ۔ آپ علم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ ہکے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی (یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ) جب آپ گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی ۔ آپ کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ کے ساتھی نظر بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔صحیح البخاري: 2731
حضرت ابوبکر رض حالت نماز میں نماز توڑنے لگے
سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں کہ :
أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوَفِّيَ فِيهِ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الاثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ، فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الحَجْرَةِ يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِم كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةٌ مُصْحَفٍ ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ، فَهَمَمْنَا أَن نَفْتَتِنَ مِنَ الفَرح بِرُؤيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَصَ أبو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِبَصِلَ الصَّفْ وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ إلَى الصَّلاةِ فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ وَأَرْخَى السِّتْرَ فَتَوَلِّي مِنْ يَوْمِهِ
نبی اکرم صلی اللہ کے مرض الموت میں ابو بکر یا ان لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت اپکا چہرہ انور قرآن کے اوراق کی طرح ( تاباں و درخشاں ) معلوم ہوتا تھا۔ جماعت کو دیکھ کر آپ مسکرائے ۔ آپ کے دیدار پر انوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ ابوبکر رض کو خیال ہوا کہ شاید آپ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں اس لئے انہوں نے ( تعظیما) ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر صف میں مل جانا چاہا۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ سے فرما یا کہ تم لوگ نماز پوری کرو۔ پھر آپ نے پردہ گراد یا اور اسی روز آپ کی وفات ہوگئی۔ صحیح البخاري: 680
اس آیت :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات: 2/1)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ 9/14 رکھتے ہو۔
کے نزول کے بعد سید نا عمر رض کی کیا حالت تھی:
فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا تَكَلَّمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُسْمِعْ كَلَامَهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ
اس واقعہ کے بعد عمر رض جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تو اتنے دھیرے بولتے کہ بات سنائی نہیں دیتی ، یہاں تک کہ سامع کو ان سے دوبارہ پوچھنا پڑ جاتا۔ سنن الترمذی : 3266
تعظیم رسول اور اس کے تقاضے
دنیائے کائنات کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا ایک تقاضا یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ساری دنیا سے بڑھ کر محبت ہو ، اور اس محبت میں اگر جان بھی نچھاور کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے۔ چنانچہ سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کے ہاں اس کے والد ، اس کی اولاد، اور دنیا کے تمام لوگوں سے میری محبت زیادہ نہ ہو جائے۔ صحیح البخاری: ۱۵ ، صحیح مسلم: ۲۲
پیغمبر کی ہر ہر بات میں اطاعت کی جائے
تعظیم رسول میں اطاعت رسول ضروری ہے، کیونکہ اطاعت رسول سی اللہ ہی سے معلوم ہوگا کہ ہمارے دل میں رسول اللہ کی کتنی تعظیم ہے؟ اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران: 32.31)
آپ کہ دیں اگر تم اللہ تعالی کو محبوب رکھنا چاھتے ھوتو میری اتباع کرو اس وقت اللہ تعالی تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارے گناھوں کو بخش دے گا۔ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ موڑ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالی کا فروں سے محبت نہیں کرتا۔ اسی طرح سید نا ابو ہریرہ رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الجُنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْتِي؟ قَالَ : مَنْ أطاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى
میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا ، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ بنا ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے انکار کیا ؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی ، اس نے انکار کیا۔ صحیح البخاري: 7280 المستدرك على الصحیحین للحاكم : 182
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آنے پر درود پاک
یہ بھی تعظیم رسول ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے تو محبت کے ساتھ درود شریف پڑھا جائے ۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
رغمَ أَنفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ
اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذ کر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔ سنن الترمذی: 3545
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
البخيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ
بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذ کر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔“ سنن الترمذی : 3546
رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں غلو سے بچیں
سید نا عمر بن خطاب رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
لا تُطْرُونِي، كَمَا أُطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ،وَرَسُولُهُ
میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے ابن مریم کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں تم کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ صحیح البخاري: 3445
ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ربیع بنت معوذ کے گھر تشریف لے گئے، اور عین اسی وقت ان کے گھر میں کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بدر میں شہید ہونے والے اپنے آباء کے محاسن بیان کرنے لگیں ، اسی دوران ایک بچی نے یہ کہہ دیا:
وَفِينَا نَبِيَّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ
ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ یہ سن کر آپ کیﷺ نے اس بچی کو فورا ٹو کا اور فرمایا
: دَعِي هَذِهِ، وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ
یہ بات چھوڑ دو اور وہ کہتی رہو جو پہلے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔