شہادت کی فضیلت

شہادت کی فضیلت

شہادت کی فضیلت

زندگی کا اہتمام یقینا موت پر ہوتا ہے کوئی ایسا ذی روح نہیں ہے جس نے موت کا ذائقہ نہ چکہنا ہو انسان دنیا میں اتا ہی دنیا سے جانے کے لیے ہے۔
کچھ خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جن کی زندگی بھی قابل رشک ہوتی ہے اور ان کی موت بھی انسانیت کے لیے قابل رشک ہوتی ہے ان کا جانا زمانے کی انکھوں کو حسرت کے انکھوں سے بھر دیتا ہے ان کی موت دیکھ کر لوگ خواہش کرتے ہیں کہ کاش مجھے بھی ایسی ہی موت نصیب ہو جاتی ایسی موت کو شہادت کی موت کہتے ہیں یہ وہ موت ہے کہ جس کے متعلق موت کے خالق نے ارشاد فرمایا ہے:
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے قرب میں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطا کی ہے اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف ہونے والا نہیں ہے اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے یہ مضامین سورہ ال عمران کی ایت 69 سے 171 میں بیان فرمائے گئے ہیں ان مضامین کے ضمن میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو احادیث بیان کی جاتی ہیں جو شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے خوش نصیب لوگوں کے مقام کو بیان کر رہی ہیں
حضرت محمد بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انصار مدینہ میں سے ایک شخص جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے احد کے دن ان کو کسی نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پہنچا دیا چنانچه اب تم سب مسلمان ان کے دین کے لیے جہاد کرو یہ کہنے کے بعد وہ صحابی رسول تین بار کفار کے لشکر بے جھپٹے اور ہر بار وہ موت کے منہ سے چلے جاتے مگر زندہ بچ جاتے جب تیسرا مرحلہ ایا تو کفار کے ہاتھوں انہیں شہادت کی موت نصیب ہوئی جب ان کی ملاقاتاپنے پروردگار سے ہوئی اور وہاں انہیں اپنے باقی ساتھی بھی ملے تو وہ وہاں کی نعمتیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اے ہمارے پروردگار کیا کوئی قاصد نہیں ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری یہ حالت بتا سکے اللہ تعالی نے فرمایا میں تمہارا قاصد ہوں پھر اللہ تعالی نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ اور میرے محبوب کو سورہ ال عمران کی ایات سنا دو.
مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھے دیکھا تو فکر مند پایا اور ارشاد فرمایا اے جابر کیا سبب ہے اس فکر مندی کا؟ اپ ہر وقت متفکر رہتے ہیں کون سی الجھنیں اور پریشانیاں ہیں جو دامن گیر ہیں؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو چکے ہیں وہ اپنا قرضہ اور اہل و عیال چھوڑ گئے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالی نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردے کے پیچھے سے کی لیکن تمہارے والد سے امنے سامنے بات فرمائی اور کہا مجھ سے جو مانگو میں دوں گا تمہارے والد نے کہا مجھے دنیا میں واپس بھیج دیجئے تاکہ میں دوبارہ شہید ہو سکوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا میری طرف سے پہلے ہی یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ کسی کو واپس نہیں جانا تمہارے والد نے کہا اے میرے پروردگار پیچھے والوں کو ہماری حالت کی اطلاع دیجئے اس پر اللہ تعالی نے سورہ ال عمران کے در زیل ایات مبارکہ کو نازل فرمایا۔
ترمذی شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصب شہادت پر فائز ہونے والوں کی چھ فضیلت ارشاد فرمائی ہیں:
1. خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور روح نکلتے ہی اس کو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے۔
2 . شہید عذاب قبر سے ہمیشہ محفوظ ہوتا ہے۔
3. شہید کو عذاب جہنم کا بالکل خوف نہیں ہوتا۔
4. قیامت کے دن اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جو دنیاوی یاقوت اور دیگر تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔
5. جنت میں اس کے نکاح کے اندر بڑی انکھوں والی72 حوریں دی جائیں گی۔

محترم! اسلام کی تاریخ شہداء کے خون سے تابندہ ہے خون شہید کا قوم کے چہرے کا غازہ اور شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ یکم محرم الحرام خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور 10 محرم الحرام نوجوانان جنت کے سردار حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اپ کے جانثار ساتھیوں کی شہادتوں کی یاد دلاتے ہیں جو دین کی سربلندی کے لیے شہادتوں کے جام نوش کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ہمیں حضرت فاروق رضی اللہ عنہ اور کربلا کے میدان میں 72 جانثاروں سمیت اپنی جان تک قربان کرنے والے امام عالی مقام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے بھی پیار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں