محرم الحرام میں شادی کا حکم

محرم الحرام میں شادی کا حکم

اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کو سال کے بارہ مہینوں میں خاص طرح کا امتیاز حاصل ہے، صحیح بخاری میں ایک حدیث مبارکہ ہے ، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک طویل اور نہایت ہی قیمتی نصائح پر مشتمل خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی:
(اس وقت) زمانہ اسی رفتار اور ہیئت پر آچکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے یعنی: ذوالقعدہ ذوالحجۃ اورمحرم الحرام ” ہیں ۔ اور ایک ” رجب کا مہینہ ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے ۔ ( صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۴۲۹۴) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف فرمان کے مطابق اس ماہ مبارک میں کیے جانے والے اعمال کا اجر بنسبت دیگر ایام یا مہینوں کے زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں روزے رکھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا: “رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے یہاں محرم الحرام کے روزے ہیں“ ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:۱۱۶۳) علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں فضیلت محض روزے رکھنے کی ہی نہیں ہے؛ بلکہ اس ماہ کا ہر نیک عمل بہ نسبت دوسرے مہینوں کے بہت بڑھا ہوا ہے؛ چنانچہ اعمال میں سے ایک بڑا اور اہم عمل نکاح کا بھی ہے ، معاشرے میں ماہ محرم الحرام سے متعلق کچھ ایسا تصور اور رجحان عام ہو چکا ہے کہ اس مہینے میں نکاح نہیں کرنا چاہیے حالانکہ شریعت کا مزاج اور احکام اس کی صریح نفی کرتے ہیں۔

عمل نکاج چاہے کسی مہینے میں ہو، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے، اور مباح کام کا نا جائز ہونا کسی واضح ممانعت سے ہوتا ہے، لیکن اس مہینے میں، یا اس کے علاوہ کسی اور بھی مہینے میں شریعت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ملتی، نہ کتاب وسنت میں ، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس وغیرہ سے ؛ چنانچہ جب ایسا ہے تو اس ماہ کا نکاح اپنی اصل (مباح ہونے ) کے اعتبار سے جائز ہی رہے گا۔
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقہائے کرام کا اس بات پر کہ (محرم یا اس کے علاوہ کسی بھی مہینے میں نکاح کرنا جائز ہے ) کم از کم اجماع سکوتی ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین اور متقدمین یا متاخرین فقہار میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے، جو اس ماہ مبارک میں شادی بیاہ وغیرہ کو نا جائز قرار دیتا ہو۔ لہذا اگر کوئی اس کو منع بھی کرتا ہے تو اس کا منع کرنا بغیر دلیل کے ہو گا اور کسی بھی درجہ قابل اعتبار نہیں ہو گا۔

اس ماہ میں نکاح سے منع کرنے کی بنیا د کیا ہے؟ چنانچہ عقلاً اس کی بنیاد اس مہینے کا منحوس ہونا سکتی ہے، یا غم والا مہینہ ہونا ( جس کی بناء پر سوگ کو لازم سمجھا جاتا ہے اور سوگ والے مہینوں میں شادی کو ناجائز سمجھا جاتا ) ۔ ذیل میں ہر دو امر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

کیا ماہ محرم نحوست والا مہینہ ہے؟

مزاج شریعت سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس مہینے کی نحوست کا قائل نہیں ہو سکتا، کیونکہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات سے بہت پہلے سے ہی اس مہینے کا معزز و مکرم اور صاحب شرف ہونا مشہور و معروف چلا آ رہا ہے حتی کہ زمانے کی ابتدا سے اب تک ہرذی شان کام کا اسی مہینے میں وقوع پذیر ہو نا زبان زدعام ہے؛ بلکہ روایات کے مطابق تو وقوع قیامت کا عظیم الشان واقعہ بھی اس مہینے میں ہو گا۔ چنانچہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے اس مہینہ کو منحوس قرار دینا ممکن ہی نہیں ، لہذا اس بنا پر تو اس مہینے میں نکاح سے روکنا عقلا بھی درست نہیں ہے۔

کیا ماہ محرم غم والا مہینہ ہے؟

اس مہینے میں شادی سے روکنے والے اگر اس بنیاد پر شادی سے روکتے ہیں کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے لہذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے ، کیوں ؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیا تھا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کر نا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، تو یہ احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے؛ اس لیے کہ ”شہادت“ جیسی نعمت بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ہے، یہ تو سعادت کی چیز ہے۔ یہاں سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟ تعلیمات نبویہ علی صاحبہا الف تحیہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے. حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصول شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے، (صحيح البخاری، )

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہیں بارگاہ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن انھیں شہادت نہ مل سکی ، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ ستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں ۔ (البدايه والنہایہ)۔

شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، جس میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کر دیا جاؤں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاؤں، پھر مجھے زندہ کر دیا جائے ) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور پھر شہید کر دیا جاؤں ۔ (صحیح مسلم، رقم الحديث: ٤٩٦٧)

الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے، جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے ، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر غور کر لیا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا مہینہ یا دن ہے؟ جس میں کسی نہ کسی صحابی رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے ، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی ، مثلاً : صفر : ۳ھ میں مقام رجیع میں ۸/ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا۔ صفر ۴۰ ھ میں بئر معونہ کے واقعے میں کئی اصحاب صفہ کو شہید کیا گیا۔ صفر :۵۲ھ میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔
ربیع الاول : ۱۸ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الاول : ۲۰ھ میں ام المؤمنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ ربیع الثانی: ۲۱ھ میں مقام نہاوند میں ایرانی کفار سے لڑائی کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دولاکھ ایرانیوں کے مقابلے کے لیے چالیس ہزار مسلمانوں کی فوج بھیجی جس میں تقریبا تین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور کفار کے تقریباً ایک لاکھ افراد واصل جہنم ہوئے ، اور مسلمانوں کو فتح ہوئی ۔ ربیع الثانی: ۲ ھ میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الثانی: ۵۰ ھ میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ جمادی الاولی: ۸ھ میں حضرت سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ اور اسی سال، اس مہینے میں حضرت عبادہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔ جمادی الاولی : ۸ھ میں ہی غزوہ موتہ ہوا ، جس میں کئی جلیل القد را صحاب رسول رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ جمادی الاخری: ۴ھ میں حضرت ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ جمادی الاخری :۱۳ھ میں صحابی رسول حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۲۱ ھ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۵۰ ھ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب: ۱۵ھ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب: ۲۰ھ میں حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب: ۴۵ ھ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ شعبان : 9 ھ میں بنت رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ شعبان : ۵۰ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ شعبان : ۹۳ ھ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جمادی الاخری : ۱۳ ھ میں صحابی رسول حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۲۱ ھ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۵۰ ھ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب: ۱۵ھ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب: ۲۰ھ میں حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب: ۴۵ ھ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ شعبان : 9ھ میں بنت رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ شعبان : ۵۰ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا ۔ شعبان : ۹۳ھ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رمضان : ۱۰ نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ رمضان ۲ ھ میں بنت رسول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ رمضان : اھ میں بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ رمضان : ۳۲ھ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ شوال ۳ھ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔ شوال : ۳۸ ھ میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ ذو القعده: ۶۲ھ میں مشہور تابعی حضرت مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ کا انتقال ہوا۔ ذوالقعدہ: ۱۰۶ ھ میں حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب کا انتقال ہوا۔ ذو الحجہ: ۵ ھ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔ ذوالحجہ 1 ھ میں حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ ذوالحجہ ۱۲ ھ میں حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ اس پوری تاریخ کا مقتضی تو یہ ہے کہ ان میں سے ہر دن کو اظہار غم اور افسوس بنایا جائے۔ اور شادی وغیرہ ہر خوشی اور اظہار خوشی سے گریز کیا جائے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔

نیز ! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی ﷺ کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی، لیکن کیا ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بہ طور یادگار کے منایا ؟ نہیں ؛ بالکل نہیں ، تو پھر کیا ہم اپنے نبی ﷺ سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟! خدارا! ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی گم راہ کن رسومات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔

شرعا سوگ کرنے کا حکم

شرعاً سوگ کرنے کی اجازت صرف چند صورتوں میں ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے لیے نہ کہ مردوں کے لیے:

(۱) ایسی عورت جس کو طلاق بائن دی گئی ہو اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
(۲) جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے ، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں ۔
(۳) کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن کے لیے۔
اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور سوگ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناؤ سنگار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بولگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے کپڑے پہننا وغیرہ ۔
اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا، مثلاً: اظہار غم کے لیے سیاہ لباس پہنا یا بلند آواز سے آہ و بکا جائز نہیں۔ نیز ! مردوں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کے نام پر پورے ملک و ملت کو عملی طور پر یر غمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟!!

محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم او پر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بھی نہیں بن سکتی۔
بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک معتبر قول کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہ مبارک میں ہوئی ، اگر چہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائے اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رکھے! آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں