عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

قران مجید اور حدیث نبوی نے واضح طور پر عقیدہ ختم نبوت کو بیان کر کے خاتم النبیین کے بعد کسی نبی کے مبعوث ہونے کی بالکل نفی کر دی اس سلسلے میں سب سے پہلی نظر مندرجہ ذیل ایت کریمہ پڑھی جاتی ہے جو ایت ختم نبوت کے نام سے موسوم ہے.

آیت ختم نبوت

ترجمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی اخری نبی اور رسول ہیں اور اللہ ہر چیز کو جاننے والے ہیں. یہ مقدس ایت اس باب میں نص قطعی اور برہان جلی ہے جو صراحت کے ساتھ رسول اللہ کو آخری نبی اور انبیاء کا ختم کرنے والا ظاہر کر رہی ہے آیت کا پہلا جز بتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی اولاد نرینہ موجود نہیں یہ جو آیت کے دوسرے جز یعنی مضمون ختم نبوت کے لیے ایک دلیل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ زمانھ سابقہ میں سلسلہ نبوت انبیاء کی اولاد میں جاری رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جب اولاد نرینہ نہیں تو سلسلہ نبوت کیسے جاری رہ سکتا ہے گویا اولاد نرینہ نہ رہنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں ایت ختم نبوت اپ نے دیکھ لی اس مسئلے پر یہ نسل جلی اور برہان روشن ہے لیکن قران مجید نے اس پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ رب العالمین نے اس عظیم الشان مضمون کو اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر مختلف عنوانات سے واضح فرمایا پیرا یہ مختلف ہے مگر یہ مضمون ثابت اور روشن ہے. دوسری ایت اظہار دین سورہ فتح میں ہے.
ترجمہ؛ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب فرما دے اور اللہ کی گواہی کافی ہے.
اس آیت میں ہر دین و ملت پر دین محمدی کا غلبہ بیان فرمایا گیا ہے اگر ہم فرض کریں کہ کوئی دوسرا نبی مبعوث ہوتا تو اس کا ایک مستقل دین ہوگا اور وہ حق ہی ہوگا اس لیے کہ نبی بہرحال دین حق لے کر ائے گا اس صورت میں اس کے دین پر دین محمدی کے غلبے کے کیا معنی ہوں گے یہ معنی تو اس پر چسپا نہیں ہو سکتے اس مقام پر ختم نبوت کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے اس حالت میں دین محمدی کے غلبے کے یہی معنی ہو سکتے ہیں اس کا دین بھی رائج نہیں ہو سکتا اور قرب رضاہ الہی کی نعمت اس پر عمل کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ رواج دین محمدی کو ہوگا اور یہی دین اللہ کے قرب اور اس کی رضا کے حصول کا تنہا ذریعہ رہے گا جب یہ سورت ہے تو دوسرے نبی کے مبعوث ہونے سے فائدہ ہی کیا ہو سکتا ہے جس کے معنی دوسرے الفاظ میں یہ ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو چکی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے نبی کی بعثت کا قیام قیامت قائم نہیں ہو سکتی وکفی باللہ شہیدا کا جملہ اس مسئلے کو اور بھی روشن کر دیتا ہے کہ اللہ کی شہادت کے معنی کتاب اللہ کی شہادت کے ہیں یعنی قران مجید کا قیامت تک محفوظ رہنا اس بات کی برہان جلی ہے کہ صاحب کتاب کی باثت کے بعد نہ کسی دوسرے نبی کی بعثت ہوگی نہ اس کی ضرورت اس لیے کہ اس کتاب کی ہدایت دائمی ہے.

حدیث کی روشنی میں

ختم نبوت کا عقیدہ قران کی طرح حدیث میں بھی موجود ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے مکان بنایا اور اسے خوب سنوارا لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس میں گھومنے پھرنے لگے اور اس کی خوبی پر تعجب کرنے لگے یہ اینٹ کیوں نہ لگا دی گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہ اخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں دوسری حدیث میں فرمایا حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں محمد اور احمد ہوں میں ماحی ہوں یعنی اللہ میرے ذریعے سے کفر کو مٹا دیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو.

اجماع امت کی روشنی میں

کتاب و سنت کے بعد اجماع امت بھی ایک قوی دلیل ہے جب اس پر نظر کی جائے تو یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ صحابہ سے لے کر اس وقت تک ہمیشہ پوری امت کا اجماع اس بات پر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے اخری نبی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کسی نبی کی بعثت نہیں ہو سکتی علامہ ابن حجر مکی اپنے فتوے میں تحریر فرماتے ہیں جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا عقیدہ رکھے وہ بے اجماع مسلمین کافر کہا جائے گا .
آیات و احادیث اور اجماع ان سب دلائل شرعیہ کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طریقے سے آفتاب نفس النہار کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ سید المرسلین خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت ہوئی ہے نہ قیامت تک ہوگی اور جو شخص اس کا انکار کرتا ہے یا اس میں شک کرتا ہے وہ یقینا اسلام سے خارج اور زمرہ مسلمین سے باہر ہے جن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت کا دعوی کیا یا ائندہ دعوی کریں گے خواہ وہ اپنے باطل دعوے پر ظلی و بروزی نبوت کی خانہ ساز اصطلاح کا پردہ ڈالیں یا اصلی نبوت کے مدعی بنے دونوں صورتوں میں وہ کذاب کافر مرتد خارج از اسلام قرار دیے جائیں گے اور دشمنان مبین کے زمرے میں داخل ہوں گے اخرت میں ان کے لیے جہنم کے سوا اور کوئی ٹھکانہ نہیں جیسے تاریخ میں مسیلمہ کذاب کا نام اتا ہے اور زمانہ قریب میں مرزا غلام احمد قادیانی ایسے لوگوں کا کافر مرتد اور کذاب ہونا بالکل قطعی اور یقینی دلیل ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں جو ایتیں اور حدیث نقل کی گئی ہیں ان کے علاوہ بکثرت آیات اور احادیث ہیں جو امت مسلمہ کے اس اجماعی متفقہ عقیدے کو روز روشن کی طرح ثابت کر رہی ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے کہ میرے بعد اگر نبی انے والا ہوتا تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہوتے لیکن ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ طالب حق کے لیے اسے قدر بہت کافی ہے اللہ تعالی قادیانی جال سازوں سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور ہمیں غیرت دینی اور حمیت اسلامی سے مالا مال فرمائے.

اپنا تبصرہ بھیجیں