مناقب حسن و حسین رضی اللہ عنھما

مناقب حسن و حسین رضی اللہ عنھما

مناقب حسن و حسین رضی اللہ عنھما

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی طرف سے عقیقہ کرنا:

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں:

عَق رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ الله

عنھما ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ کی طرف سے عقیقے میں دودوجانور ذبح کئے ۔ سنن ابی داود : 4219، صحیح

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو خصوصی دم فرمانا

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: كانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ، وَيَقُولُ : إِنَّ أَبَا كُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِها إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ : أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَأُمَّةِ

نبی اکرم علی حسن و حسین بھی اللہ کے لئے (خصوصی طور پر ) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جدا مجد ( ابراہیم علیہم بھی ) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (یہ) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر ( وسوسہ اندازی کرنے والے ) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔“ صحیح البخاری: 3371
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھما بیان فرماتی ہیں:

خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَجُلٌ مِنْ شَعْرِ أَسْوَدَ ، فَجَاءَ الحسن بن عَلي فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، جَاءَ عَلِي فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ

اللہ تعالیٰ کا حسن و حسین رض کو کمال تطہیر کی شان عظیم سے نوازنا

وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے در آں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاؤوں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حسن بن علی رض آئے تو آپ نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا پھر حسین رض آئے اور آپ کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ رض آئیں، آپ نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی رض آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی” اے اہل بیت ! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ( ہر طرح کی ) آلودگی دور کر دے اور تم کو کمال درجہ طہارت سے نواز دے۔“ صحیح مسلم: 2424

اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں

سیدنا سعد بن ابی وقاص رض بیان کرتے ہیں کہ :

لَمَّا تَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ : اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والے سیدنا انس رض فرماتے ہیں:

لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ

سید نا حسن رض سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں تھا۔ صحیح البخاري : 3752

اے اللہ ! مجھے حسن سے محبت ہے، تو بھی اس سے محبت فرما:
برابن عاذب رض فرماتے ہیں:

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالحَسَنُ بْنُ عَلَيَّ عَلَى عَاتِقِهِ، يَقُولُ: «اللَّهُمْ إنِّي أُحِبَّهُ فَأُحِبَّهُ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حسن رض آپ کے کند ھے مبارک پر تھے اور آپ فرما ر ہے تھے: اے اللہ ! مجھے اس سے محبت ہے تو بھی اس سے محبت فرما۔ صحیح البخاری: 3749

رسول اللہ صلی الہام کا حسن کو بوسہ دینا

سیدنا ابو ہریرہ ہی ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلیم نے فرمایا:

أَنَّ الْأَقْرَعَ بنَ حَابِسٍ، أَبْصَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ الْحَسَنَ فَقَالَ : إِنَّ لي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ وَاحِدًا مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ مَنْ لَا يَرْحَمْ لَا يُرْحَمْ

اقرع بن حابس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ حسن رض کو چوم رہے ہیں۔ اقرع نے کہا میرے تو دس بچے ہیں میں نے کسی ایک کو بھی نہیں چو ما تو آپ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا ، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ صحیح مسلم : 2318

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص تربیت کے زیر سایہ:

سیدنا ابو ہریرہ رض فرماتے ہیں:

أَخَذَ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ، فَقَالَ النَّبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كِ َك لِيَطْرَحَهَا، ثُمَّ قَالَ : أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا تأكل الصدقة

حسن رض نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور پکڑلی اور اسے اپنے منہ میں داخل کر لیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس بس ، اسے نکال دے پھر فرمایا: کیا تو جانتا نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے؟ صحیح البخاري: 1491/صحیح مسلم: 1069

میرا یہ بیٹا سید ہے

سیدنا اابوبکر رض فرماتے ہیں:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَحَسَنٌ مَعَهُ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ مَرَّةً، وَيَقُولُ : إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا، آپ کے ساتھ حسن رض تھے۔ کبھی آپ لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی آپ حسن رض کی طرف دیکھتے ۔ اور فرمارہے تھے : بلاشبہ میرا یہ بیٹا سردار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا. سنن الترمذی: 3769 قال الالبانی: حسن.

نبی کریم صلی علیم کا حسن و حسین رض کا بوسہ لینا

سیدنا ابو ہریرہ رض فرماتے ہیں:

خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ هَذَا عَلَى عَاتِقِهِ، وَهَذَا عَلَى عَاتِقِهِ، وَهُوَ يَأْكُم هَذَا مَرَّةً، وَهَذَا مَرَّةً

”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ حسنین بھی تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پر آپ سب ہم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔“ مسند احمد : 9673، قال الارنوط : حدیث حسن

حسن و حسین میرے گلشن دنیا کے دو پھول ہیں

ابن ابونعم فرماتے ہیں کہ کسی نے سید نا عبد اللہ بن عمر رض سے حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ( محرم کے ) مکھی مارنے کے بارے میں پوچھا تھا۔ سید نا ابن عمر بھی انھوں نے فرمایا:

أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا اہل

عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے (حسین ) کو شہید کر دیا تھا اور نبی اکرم علی ایم نے فرمایا ہے : وہ دونوں ( حسن و حسین علیہ ہم ) ہی تو میرے گلشن دنیا کے دو پھول ہیں۔“ صحیح البخاري: 3543

جو مجھ سے محبت کرے ، وہ حسن و حسین بھی ان سے بھی محبت کرے

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ هَذَيْنِ

جس نے مجھ سے محبت کی ، اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں ( حسن و حسین ) سے بھی محبت کرے۔” سنن الكبرى للنسائي رقم: 18170 قال الالبانی: اسناده حسنن جس نے حسن و حسین سے محبت کی ، گویا اس نے مجھ سے محبت کی : سیدنا ابو ہریرہ رض سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَحَبَّ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي

” جس نے حسن اور حسین رض سے محبت کی ، اس نے در حقیقت مجھے ہی سے محبت کی ۔ اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، در حقیقت اس نے مجھ سے بغض رکھا سنن ابن ماجه: 143 قال الألباني: حسن اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر سیدنا براء بن عازب علی الہ فرماتے ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا

نبی اکرم سلیم نے حسنین کریمین ہی ان کی طرف دیکھ کر فرمایا: اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر سنن الترمذی: 3782 قال الألباني: صحیح

اے اللہ ! حسن و حسین بھی اللہ سے محبت کرنے والوں سے محبت فرما: سید نا اسامہ بن زید رض سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :

اللهم إنِّي أُحِيَّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبُّ مَنْ يُحِبُّهُمَا

اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ المعجم الكبير للطيرا :2,2644 صحیح ابن حبان: 6970

جن کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر سے اترنا پڑا

سید نا ابو بریدہ بیان فرماتے ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخطُبُنَا إِذْ جَاءَ الحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قيصَانِ أَحْرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْتُرَانٍ، فَنزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَل المنير فَحَمَلَهُمَا وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : صَدَقَ اللَّهُ (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادَكُمْ فتْنَةٌ نَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثي وَرَفَعْتُهُمَا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں حسن و حسین رضی اللہ عنھما تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ ( صغرسنی کی وجہ سے ) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (انہیں دیکھ کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے ، دونوں ( شہزادوں ) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھالیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد بیچ ہے : (بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔ میں نے ان بچوں کو لڑ کھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔ “ مدن الترمذی: 3774، قال الألباني: صحیح

جو دوران نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہو جاتے

سید نا ابو ہریرہ ہی اپنا بیان کرتے ہیں :

كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، أَخَذَهُمَا بِيَدِهِ مِنْ خَلْفِهِ أَخَذَا رَفِيقًا، فَيَضَعُهُمَا عَلَى الْأَرْضِ، فَإِذَا عَادَ عَادَا حَتَّى قَضَى صَلَاتَهُ، أَقْعَدَهُمَا عَلَى فَخِذَيْهِ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین اپکی پشت مبارک پر سوار ہو گئے ، جب آپ نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی الہ دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے دوبارہ ایسے ہی کیا ( یہ سلسلہ چلتا رہا ) یہاں تک کہ آپ سلیم نے نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹھا لیا۔ “ مسند احمد: 10659 قال الارنوط اسناده حسن

جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن سے چمٹ جاتے

سیدنا اسامہ بن زید رض فرماتے ہیں:

طَرَقْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى شَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَأَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي. قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي أَنتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ؟ فَكَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَيْنُ عَلَى وَركَيْهِ، فَقَالَ : هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِي۔

میں ایک رات کسی کام کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ با ہر تشریف لائے اور آپ کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکھی ہے؟ آپ نے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ حسن وحسین دونوں رانوں تک آپ سے چھٹے ہوئے تھے ۔ آپ نے فرمایا : یہ میرے دونوں بیٹے ہیں ۔ سنن الترمذی: 3769 قال الألباني:

حسن و حسین رض سے لڑائی پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان جنگ فرمانا

سید نازید بن ارقم فرماتے ہیں :

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَليَّ وَفَاطِمَةَ وَالحَسَنِ وَالحُسَيْنِ: «أنا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَسَلَّمْ لِمَنْ سَأَلَمْتُمْ

نبی اکرم سلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین میں میرا سے فرمایا: جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی ، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہوگی ۔” سنن الترمذي: 38700، صحيح الجامع الصغير : 1462

جنتی نو جوانوں کے سردار

سید نا ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيْدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ

حسن اور حسین الله جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ سنن الترمذي : 3768، قال الألباني: صحیح

اس طرح سید نا بو ہریرہ ہی اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ نے فرمایا:

إِنَّ مَلَكًا مِنَ السَّمَاءِ لَمْ يَكُنْ زَارَنِي، فَاسْتَأْذَنَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَتِي، فَبَشَّرَنِي أَنَّ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ سَيْدًا شَبَابِ أَهل الجَنَّةِ

آسمان کے ایک فرشتے نے (اس سے پہلے ) میری زیارت کبھی نہیں کی تھی ، اس نے میری زیارت کے لئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ حسن اور حسین تمام
جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔“المعجم الكبير للطبراني: 2604

اپنا تبصرہ بھیجیں