نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاوند

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاوند

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاوند

خالق کائنات نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آپ ان کو نبوت سے سرفراز فرما کر مبعوث فرمایا، آپ کی سیرت طیبہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے اور آپ کی مثالیت زندگی کے تمام شعبوں میں ہے، آپ علایم دنیا کے کامل ترین انسان، اعلی حکمران، بہترین سپہ سالار، قاضی ، تاجر ، اور ساتھ ہی ساتھ کامل شوہر بھی تھے، بحیثیت شوہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو عمدہ آبگینوں سے مزین ہے جو کہ موجودہ زمانے میں تمام خاوندوں اور شوہروں کے لیے قابل نمونہ اور لاثانی طرز عمل ھے.

بیوی سے محبت

خاوند اور بیوی کے باہم رشتے میں محبت جزولا زم ہے۔ جب تک باہم محبت والفت نہ ہو رشتہ قائم نہیں رہ سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اور آپ نے اس معاشرے میں عورت کے ساتھ اچھا سلوک کیا جس معاشرے میں لوگ عورتوں کے ساتھ برے رویے سے پیش آتے تھے۔ چنانچہ سید نا عمرو بن عاص رض نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا ( عمرو رض نے بیان کیا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا:

أي النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ فَقَالَ : أَبُوهَا، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَعَدَّ رِجَالًا

سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ (رض) سے میں نے پوچھا ، اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ ( ابو بکر رض) سے ، میں نے پوچھا ، اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب رض ہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔ [صحیح بخاری: 3662]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ تمام بیویوں سے ملاقات کرتے

آپ زمانے کے مصروف ترین شخص تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بھی تھے لوگوں کے راہنما تھے اور تعلیم و تعلم کی مصروفیت تھی ۔ اس سب کے باوجود آپ روزانہ اپنی بیویوں کے پاس جاتے ، ان سے ملاقات کرتے ام المؤمنین عائشہ رض نے کہا:

يَا ابْنَ أُخْتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي القسم، مِنْ مُكْثهِ عِنْدَنَا، وَكَانَ قَلْ يَوْمَ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ، حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَة: حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا

میرے بھانجے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں ، اور آپ کا یہ سب کے قریب ہوتے ، محبت کا اظہار فرماتے ہاں جماع نہ کرتے ، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے ، اور سودہ بنت زمعہ رض عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ عالیہ انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول ! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرمائی. سنن ابی دارد: 2135

خوبصورت نام سے بلانا

یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو اچھے اور پیار والے نام سے پکارے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا : يَا عَائِشَۃ، هَذَا جِبْرِيلُ يُقْرِئكِ السَّلَامَ فَقُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ،

رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا اے عائش یہ جبرائیل علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں میں نے اس پر جواب دیا وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

ایک برتن میں نہانا

بیوی سے محبت کا یہ انداز بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے ساتھ مل کر غسل فرماتے اور اظہار محبت فرماتے ، چنانچہ سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

كُنتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ بَيْنِي وَبَيْنَهُ وَاحِدٍ، فَيُبَادِرُنِي حَتَّى أَقُولَ : دَعْ لِي، دَعْ لِي

میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے ، جو میرے اور آپ کے درمیان میں ہوتا تھا۔ آپ جلدی جلدی پانی لیتے، یہاں تک کہ میں کہتی کہ تھوڑا پانی میرے لیے چھوڑ دو۔صحیح مسلم: 321

گھر سے الوداع کرتے ہوئے اظہار محبت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلتے وقت بھی بیوی سے اظہار محبت فرماتے ۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

أنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبلَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأُ. 7/14

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک بیوی کو بوسہ دیا، پھر نماز کے لیے چلے گئے اور آپ ﷺ نے وضو نہیں فرمایا۔ سنن الترمذی:86

ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح، خاوند اور بیوی کے نزاع کے مقدمے اور میاں بیوی کے بڑھتے ہوئے اختلافات کا حل ہی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو عملی نمونہ بنائے .

بیوی کے ساتھ تعلق والوں کا احترام

بحیثیت شوہر بیوی کے والدین سے محبت کرنا بھی ایک اچھے شوہر کی نشانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رض کے والد ماجد سیدنا صدیق اکبر رض سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے ، حدیث میں آتا ہے، چنانچہ سیدنا انس رض فرماتے ہیں: قيل :

يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ قِيلَ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ : أبوها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کون آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے فرمایا “عائشہ کہا گیا مردوں میں سے تو فرمایا: ” ان کے والد ۔ سنن ابن ماجه : 101

بحیثیت شوہر بیوی کے رشتہ داروں کی عزت اور ان کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔ اس سے ایک تو یہ ہوگا کہ رشتہ داروں کی نظر میں بیوی کے مقام میں اضافہ ہوگا اور دوسرا یہ کہ بیوی کے دل میں شوہر کے لیے مزید محبت بڑھے گی ، بحیثیت شوہر رسول اللہ صلی علیہ وسلم ازواج مطہرات کے رشتہ داروں کا بڑا خیال کرتے۔

بیوی کی سہیلیوں کا خیال

یہ بھی بیوی کے ساتھ پیار اور محبت کی علامت ہے کہ اس کی سہیلیوں کا خیال رکھا جائے ۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ وَمَا رَأَيْتها، وَلَكِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقطِّعُهَا أَعْضَاءُ، ثُمَّ يَبْعَثْهَا في صَدَائِقِ خَدِيجَةَ، فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ: كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إلا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ إنها كَانَتْ، وَكَانَتْ، وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَد

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رض سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی، حالانکہ انہیں میں نے دیکھا بھی نہیں تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذکر بکثرت فرما یا کرتے تھے اور اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے خدیجہ رض کی ملنے والیوں کو بھیجتے تھے میں نے اکثر آپ سے کہا جیسے دنیا میں خدیجہ رض کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں ! اس پر آپ یہ فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے۔صحیح البخاری: 3818

سیدہ خدیجہ رض کی بہن سے تعلق

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں کہ خدیجہ کی بہن سیدہ ہالہ بنت خویلد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا تو آپ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا:

اللهمَّ هَالَهُ بِئْتُ خُوَيْلِدِ فَعِرْتُ فَقُلْتُ: وَمَا تَذَكَّرُ مِنْ تَجُوزِ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ، حمراء الشَّدْقَينِ، هَلَكَتْ في الدَّهْرِ فَأَبْدَلَكَ اللهُ خَيْرًا مِنْهَا

اے اللہ یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں!( تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں) مجھے یہ دیکھ کر رشک آگیا میں نے عرض کیا آپ قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بھاری گالوں والی عورت کو یاد کرتے رہتے ہو، ایک لمبی مدت ہوئی وہ انتقال کر چکیں تو اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہتر بدل عطا فر ما یا؟

نبی اکرم کو یہ بات بہت ناگوار گذری اور فرمایا کوئی بھی خدیجہ کا بدل نہیں ہو سکتا۔ وہ اس وقت ایمان لائیں جب سب دشمن ہو گئے تھے. صحیح مسلم: 2436

گھریلو کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود اپنے گھر کے کام کاج کرتے ، اپنی گھر والیوں کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور ان کی خدمت کرتے ۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رض سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ بتلایا :

كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ – تعني – خِدْمَةَ أَهْلِهِ – فَإِذَا حَضْرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَى الصلاة

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فورا ( کام کاج چھوڑ کر ) نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔صحیح البخاری: 676

گھریلو کام کاج کرنا

سیدہ عائشہ رض سے سوال کیا گیا کہ آپ گھر میں کیا کرتے ہیں؟ تو سیدہ عائشہ رض نے فرمایا:

كان يخيطُ ثَوْبَهُ، وَيَخْصِفُ نَعْلَهُ، وَيَعْمَلُ مَا يَعْمَلُ الرِّجَالُ فِي بُيُوتِهِمْ

آپ اپنا کپڑا سلائی کر لیتے ، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور گھر یلو کام کرتے جیسا کہ مرد اپنے گھروں میں کام کرتے ہیں۔مسند احمد: 24903 صحيح

بیوی کی تربیت

رسول اللہ ﷺ جو کہ علم انسانیت تھے آپ کا لوگوں کوبھی دینی تعلیم دیتے اور ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے ۔ گھر یلو معاملات میں جہاں کوئی نقص دیکھتے، اس کی اصلاح فرماتے۔

گھر والیوں کو عبادت الہی کی ترغیب

آپ کا اپنے گھر والوں کو اللہ تعالی کی عبادت کی بطور خاص ترغیب فرمایا کرتے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

كان النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِئزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ

جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو ( بھی عبادت کیلئے ) جگاتے تھے۔صحيح البخاري: 2024

سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَإِذَا أَوْترَ، قَالَ: قُومِي فَأَوْتِرِي يَا عَائِشَةُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے ۔ جب آپ وتر پڑھنے لگتے تو کہتے: عائشہ اٹھ اور وتر پڑھ۔صحیح مسلم: 744

ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل

مسلم معاشرہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو روز افزوں انحطاط کا شکار ہے جس میں بہت سے ایسے افراد ہیں، جو حق زوجیت میں نا کام اور عدل و انصاف کے معیار سے کوسوں دور ہیں، معاشرہ ماں باپ اور بیوی کے درمیان عدل کا فقدان بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، ایک طرف اولا د والدین کو وہ رتبہ عطا کرتی ہے کہ بیوی اور شریک حیات کی حیثیت ایک لونڈی سے زیادہ نہیں سمجھتے ، تو وہیں دوسری طرف اولاد ہی زن مریدی کی ایک ایسی مثال بھی قائم کرتی ہے کہ بیوی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور صداقت کا سارا معیار بیوی کو سونپ کر والدین کو مجرم بنایا جاتا ہے، بے حرمتی کے ساتھ گھر سے بے گھر کیا جاتا ہے، دونوں جانب غلطی ہوتی ہے اور جو مرد ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں تو وہ بھی ان کے درمیان عدل کا معاملہ نہیں کرتے ، رہائش اور آسائش میں ، کپڑے اور کھانے میں، باری اور حقوق کی ادائیگی میں عدم توازن اور عدل کی کمی موجودہ زمانے کا خطرناک المیہ بن چکا ہے جو مغربی تہذیب سے مرعوبیت اور محبت کا ایک بڑا خمیازہ ہے، کاش!! ایسے لوگ آپ کے عمل سے سبق لیتے اور آپ اکے اس فرامین پر توجہ دیتے ، عدل کے معیار کو قائم کرتے ، خود آپ م کی گیارہ بیویاں تھیں ، لیکن کسی کو یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی کہ آپ ہمارے درمیان عدل نہیں کرتے۔

چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں؛

لا يُفضّلُ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ

رسول اللہ سلیم ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کس کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے. سنن ابی داود: 2135

نان نفقہ میں برابری

سید نا عبد اللہ بن عمررض فرماتے ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ، فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ، ثَمَانُونَ وَسُقَ ثَمْرٍ، وَعِشْرُونَ وَسْقَ شَعِيرٍ

رسول اللہ علیہ نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) وہاں ( کی زمین میں ) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔صحيح البخاري: 2328

بیویوں کے مابین عدل پر رب تعالیٰ سے دعا

آپ میں حتی الامکان یہی کوشش فرماتے کہ ہر اعتبار سے اپنی بیویوں کے درمیان عدل کریں۔ اپنی تمام کوششوں کے بعد رب العالمین سے دعا کرتے کہ قلبی اعتبار سے اگر مجھے کسی ایک سے زیادہ محبت ہو جائے تو اللہ مجھے اس پر ملامت نہ کرنا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ دعا فرمایا کرتے تھے؛

اللهم هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ وَلَا تَلمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ

اے اللہ اس چیز میں یہ میری تقسیم ہے، جس پر میں قدرت رکھتا ہوں ، آپ اس چیز پر میری ملامت نہ کیجئے ، جس پر آپ قدرت رکھتے ہیں، میں نہیں۔السنن الكبرى للبيهقي : 14745

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے بیویوں کو نہیں مارا

ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی کسی بیوی سے ناراض نہیں ہوئے ، آپ اپنی بیویوں سے ناراض بھی ہو جاتے ، ایک بار تو آپ ایک مہینہ تک ناراضگی کی وجہ سے اپنی بیویوں سے نہیں ملے مگران سب کے با بوجود آپ نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک بیوی کو نہیں مارا، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں؛

مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ بِيَدِهِ، وَلَا امْرَأَةٌ، وَلَا خَادِمًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے ساتھ کسی کو نہیں مارا، نہ بیوی کو اور نہ ہی خادم کو ۔صحیح مسلم: 2328

بیوی کی خامیوں کے بجائے خوبیوں کو یا دکرنا

ہر انسان میں جہاں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں، وہی کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں، کیونکہ مخلوق میں گنا ہوں سے پاک رہنے والے انبیائے کرام علیہم السلام ہیں یا ملائکہ، ان کے علاوہ ہر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے، جب ہر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے تو لامحالہ خاوند اور بیوی سے بھی غلطی کا صدور ناگزیر ہے۔ ایسی صورت میں دانش مند خاوند اور عقلمند بیوی وہ ہوتی ہے جو برائیوں کے ساتھ ساتھ نیکیوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور برائیوں کے مقابلے میں اچھائیوں کو ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا:

لا يَفْرَكُ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةٌ، إن كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ

کوئی ایمان والا (شوہر) کسی ایمان والی ( بیوی کو غصہ نہیں دلاتا ، اگر اس (بیوی) کا کوئی کام خاوند کو نا پسند ہوتو ( وہ یہ خیال کرے کہ اس بیوی کا ) کوئی دوسرا کام پسند والا بھی تو ہے۔صحیح مسلم

اپنا تبصرہ بھیجیں