ہجری سن کی ابتدا

ہجری سن کی ابتدا

اسلامی سال کا اختتام ذی الحجہ پر ہو جاتا ہے۔ ذی الحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے اور محرم پہلا مہینہ ہے۔

ہجری سن کی ابتدا

اسلامی سن کی بنیاد سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے ہم اس سن کوسن ہجری کہتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں جو انگریزی سن چلتا ہے یہ میلادی سن کہلاتا ہے۔ مثلاً یہ 2000 کا سن ، یہ میلادی سن کہلاتا ہے۔ یعنی اس کی ابتدا حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے اُن کے ماننے والوں نے کی ہے۔۔ جبکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد سے اسلامی سال شروع نہیں کیا گیا۔۔۔ ہمارا میلادی نہیں ہے، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ۔۔۔ اس دنیا میں اتنا عظیم واقعہ ہے جس کے برابر کوئی دوسرا واقعہ نہیں ۔ حضور ﷺ کی ولادت سے اللہ کی رحمت کا ظہور ا تم طریقے سے ہوا، لیکن ہمارے سال کی ابتداء ولادت سے نہیں کی گئی۔۔۔

اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ سلم کی عمر شریف 40 سال ہوئی ۔۔ آپ پر وحی کا نزول ہوا اور جس نبوت کا فیصلہ آپ کیلئے ابتداء دنیا سے کیا گیا تھا۔۔ اُس کا ظہور ہوا تو یہ بھی بہت بڑا واقعہ تھا۔ لیکن اس کو بھی بنیاد نہیں بنایا گیا۔۔۔ اس لئے ہمارائن سن نبوی نہیں ہے۔۔ پھر وحی کے بعد بھی کئی عظیم واقعات پیش آئے ۔ ۔ مثلاً معراج بہت بڑا واقعہ تھا بلکہ نزول قرآن کے بعد حضور ﷺ کو عطا کیا جانے والا سب سے بڑا معجزہ تھا۔۔۔ لیکن نزول قرآن یا معراج شریف کو بھی اسلامی سن کی ابتداء نہیں بنایا گیا۔

احکام ماه محرم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت مکہ مکرمہ چھوڑا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔۔ اس ہجرت کو اسلامی سن کی ابتداء بنایا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سن کا شمار ربیع الاول سے تھا، لیکن اس میں دقت یہ پیش آتی تھی کہ ربیع الاول سال کے درمیان کا مہینہ تھا۔۔ پہلا مہینہ محرم تھا۔۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہی مہینوں کی ترتیب یوں ہی چلی آ رہی تھی بلکہ قرآن کریم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت زمین و آسمان کو پیدا کیا، سورج چاند کا نظام چلایا تو اسی وقت سے 12 مہینے اس ترتیب سے متعین کئے۔ اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ 12 مہینے اُس وقت سے ہیں جب سے اللہ نے سورج چاند کا چکر چلایا ہے۔۔ جس میں 4 مہینے اشہرِ حَرام کے ہیں۔ حضور ﷺ نے اُن کے نام لیے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے ہی اللہ کی حکمت کے ساتھ محرم سے سال شروع ہوتا تھا اور ذی الحجہ پر ختم ہوتا تھا۔

فاروقی کارنامه اس لئے حضرت عمر رض نے ربیع الاول سے سن کی ابتداء کرنے کی بجائے حضور ﷺ کی ہجرت کو بنیاد بناتے ہوئے ہجری سن کا آغا ز محرم سے ہی قرار دیا۔۔ ورنہ ہجرت تو ربیع الاول میں واقع ہوئی تھی محرم میں نہیں ۔ جبکہ ربیع الاول کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے انتظامی طور پر مشکلات پیش آتی تھیں ۔۔ چنانچہ حضرت عمر ﷺ نے باہمی مشاورت سے تاریخ کے نظام کو آسان اور بہتر بنانے کیلئے ہجری سال کی ابتداء ربیع الاول کی بجائے محرم سے قرار دی ۔ یہ اس کی حقیقت ہے۔

ہجری سن کی حکمت

ہجری سن کی حکمت هجرت جس سے سن کی ابتداء ہوئی ۔۔اُس کے تھوڑے ہی دنوں بعد مسلمانوں کو جہاد کی اجازت ہو گئی تھی۔۔۔ مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے کافروں اور احکام ماه محرم مشرکوں کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، ظلم ہوئے ۔۔ سختی ہوئی۔۔۔ سب کچھ برداشت کیا گیا ، ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ملی تھی ۔۔۔13 سال تک مکہ معظمہ میں پٹتے رہے ، کوئی جوابی کاروائی کرنے کی اجازت نہ می۔۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد جہاد کی اجازت ہوئی اور پھر جب جہاد شروع ہوا تو اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔۔۔ چونکہ کافروں کے مظالم سے نجات۔۔ جہاد کی اجازت۔ عمل کی آزادی ۔۔ اسلام کا پھیلاؤ اور اُس کی آبیاری۔۔ یہ سب کی سب ہجرت ہی کی برکات تھیں۔ اسلئے حضور ﷺ کی ہجرت کے عظیم واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے ہجری سن کا آغاز اس سے کیا گیا۔۔۔لہذا ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمار ائن ہمیں ہجرت اور جہاد کی یاد دلاتا ہے۔۔۔

ہجرت اور جہاد کی حقیقت

هجرت اور جہاد کی حقیقت پر غور کیجئے ؟۔۔۔ اللہ کے دین کیلئے اللہ کی رضا کیلئے وطن کو قربان کر دینا۔۔۔ وطن چھوڑ دیا ۔۔۔ خاندان چھوڑ دیا۔۔۔ اہل و عیال چھوڑ دیئے۔۔۔ کاروبار چھوڑ دیا۔۔۔ جائیداد چھوڑ دی۔۔۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے یہ ہجرت جائیداد کو قربان کر دینا ۔۔۔ رشتہ داروں کو قربان کر دینا ۔۔۔ اس کا نام ہجرت ہے!!
اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے راستے میں نکلنا اور کفر کو مغلوب کرنے کے لئے کافروں کے ساتھ عملا لڑتا یہ جہاد کہلاتا ہے۔۔۔ تو گویا جان و مال، وطن و جائیداد، اہل وعیال ہر چیز کی قربانی دینے کا نام ہے ہجرت اور جہاد اور یہی دو چیزیں اسلام کی نشو ونما، اور پوری روئے زمین پر مسلمانوں کے غلبے کا ذریعہ بنیں ۔۔۔۔
احکام ماه محرم اس لئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زِرْوَةُ سِنَامِهِ الْجِهَادِ . اسلام کی شان و شوکت کا اظہار جہاد کے ذریعہ ہوتا ہے۔ تو ہجرت اور جہاد اسلام میں دونوں بہت اہم چیزیں ہیں ۔ اور یہ سن بھی اسی بات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ شروع ہی ہجرت اور جہاد سے ہوتی ہے۔ جو اللہ کے لئے ہر چیز کی قربانی دینے کا درس دیتے ہیں۔

اسلام کی نشو و نما کیسے ہوئی؟

اس مہینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور اس میں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ جو ابتدائی بات ہجرت اور جہاد کے بارے میں کی گئی ہے وہ صرف سن ہجری کی ابتداء کا تذکرہ تھا۔ کہ اسلام کی نشو ونما، ہجرت اور جہاد سے ہوئی ہے۔۔ اور آئندہ بھی جان ومال کی قربانیوں اور جہاد ہی سے ہوگی۔ جب تک مسلمان بحیثیت قوم اس بات کو یادرکھیں کہ اللہ کے نام پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ تب تک اسلام غالب رہے گا۔

اور جب مسلمان وطن اور جائیداد کی محبت میں، اہل وعیال کی محبت میں، اپنی جان کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اور اللہ کے احکام کو چھوڑ دیں گے تو ذلت و پستی کا شکار ہو جائیں گے اور بدنصیبی اُن کا مقدر ہو جائے گی ۔۔ اب میں اس باتیں عرض کرتا ہوں۔۔۔

واقعہ کربلا اور محرم

محرم کی فضیلت کے سلسلہ میں حدیث شریف میں دو باتیں آتی ہیں۔ محرم کی فضیلت کو اپنے ذہن میں رکھیں ۔ محرم کی خصوصیت یا محرم کی فضیلت واقعی

احکام ماه محرم

کربلا کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ واقعہ تو 60 ہجری میں پیش آیا ہے، اس وقت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو 50 سال ہو گئے تھے۔ جبکہ اس مہینے کی فضیلت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بیان فرمائی ۔ جب ابھی کربلا کا واقعہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ تو اس مہینے کی فضیات کا مدار اس واقعہ پر نہیں ہے اور نہ ہی اسلام کی نظر میں کوئی شہادت چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، کسی دن کو کوئی خصوصیت عطا کرتی ہے۔۔۔ اسلام کی تاریخ شہادتوں سے بھری ہوئی ہے آپ اس پر اگر غور فرمائیں گے تو آپ کو اسلام کی تاریخ شہادتوں سے بھری ہوئی نظر آئے گی اور ان شہادتوں کی وجہ سے اگر ہم دونوں کو محترم قرار دینا شروع کریں تو شاید سال کا کوئی مہینہ اور دن نہ بیچے کہ جس کا ہمیں احترام نہ کرنا پڑے اور اُس دن کو منانا نہ پڑے۔ کیونکہ کوئی مہینہ، ہفتہ اور دن خالی نہیں ہے۔۔۔ جس میں کوئی بڑی سے بڑی شہادت پیش نہ آئی ہو، انبیاء علیہم السلام کی اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے بڑے بڑے حضرات کی۔

انبیاء بھی شہید ہوتے رہے

يَقْتَلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَق

قرآن میں موجود ہے کہ یہودی انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے، اور جب کسی کو ناحق قتل کیا جائے اُسے بھی شہادت کہتے ہیں۔ اس طرح انبیاء علیہ السلام کے قتل کے دن بھی یوم شہادت ہیں اور نبی چونکہ پوری مخلوق سے اعلیٰ اور برتر ہوا کرتے ہیں۔ اسلئے اُن کی شہادت کے دنوں کو لازماً عظمت کا دن قرار دینا ہوگا ۔۔۔

اور پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جہاد شروع ہوا تو شہادتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے غزوہ بدر پیش آیا، جس میں 14 جلیل القدر صحابی شہید ہوئے ۔۔۔ یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا اور پھر اس کے بعد غزوہ اُحد واقع ہوا، جس میں 70 صحابہ شہید ہوئے ۔۔۔ یہ واقعہ میں 14 جلیل القدر صحابی شہید ہوئے ۔۔۔ یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا اور پھر اس کے بعد غزوہ اُحد واقع ہوا، جس میں 70 صحابہ شہید ہوئے ۔۔۔ یہ واقعہ شوال میں پیش آیا، اور اُن 70 شہداء میں سے ایک حضرت حمزہ اور بھی تھے۔۔ جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چا تھے۔۔۔ جن کو سید الشہداء کا لقب دیا گیا۔ اُن کی شہادت اسلام میں بہت بڑا سانحہ ہے۔ اُن کی لاش کی حد درجہ بے حرمتی کی گئی۔۔۔ پیٹ چاک کیا گیا۔ ۔۔ کلیجہ نکالا گیا ۔۔۔ کلیجہ چبایا گیا ۔۔۔ کان کاٹے گئے ۔۔۔ اور بالکل شکل ہی بگاڑ دی گئی۔۔۔

سید الشہد اول کی شہادت معلوم ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ نے کتنارنجیدہ کیا اور کتنا آپ کو صدمہ پہنچا ؟؟۔۔۔ اس کا اندازہ آپ یوں کر لیجئے کہ فتح مکہ کے موقع پر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عام معافی کا اعلان کر دیا تھا تو صرف 8 مرد اور 4 عورتیں ایسی تھیں جن کے لئے معافی کا اعلان نہیں تھا ۔۔۔ بلکہ یہ فرمایا کہ جہاں پائے جائیں ۔۔ جس حال میں پائے جائیں۔۔ ان کو قتل کر دیا جائے ۔۔ ان میں ایک این خطل بھی تھا جو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوا تھا اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت میں شعر کہا کرتا تھا۔۔۔ ان سب کا خون مباح کیا گیا۔۔ حتی کہ این خطل کے بارے میں آپ کو اطلاع دی گئی کہ وہ بیت اللہ کا غلاف پکڑے کھڑا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کر قتل کر دو۔ بیت اللہ کے پاس اور بیت اللہ کا غلاف پکڑنے کے با وجود بھی این خطل کو پناہ نہیں ملی۔

حضرت وحمی اور فرمان رسالت

تو جن کا خون مباح قرار دیا گیا تھا اور اُن کو معافی نہیں دی گئی تھی ، اُن میں حضرت حمزہ ان کا قاتل بھی تھا۔ جس کا نام وحشی تھا۔۔ جو فتح مکہ کے موقع پر مکہ معظمہ سے بھاگ کر طائف کی طرف چلا گیا تھا۔۔ وہاں اُسے معلوم ہوا کہ اگر کسی قوم کی طرف سے کوئی سفیر یا قاصد بن کر جائے تو حضور ﷺ اس کو قتل نہیں کرتے۔ چنانچہ یہ کسی قوم کا قاصد بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا۔ چونکہ الطلبات حكيم العصر احکام ماه محرم کسی قوم کے قاصد اور رسول کو قتل نہ کرنے کا بین الاقوامی اصول پہلے سے چلا آ رہا تھا۔ اس طرح وحشی قتل ہونے سے بچ گیا۔ لیکن جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا ہے اور آ کر اُس نے کلمہ پڑھا اور اسلام کا اظہار کیا تو نبی رحمت ﷺ نے پوچھا تو وحشی ہے؟ ۔۔۔

اُس نے کہا ، جی ہاں۔۔۔ حمزہ کا قاتل تو ہے؟ ۔۔ حمزہ کو تو نے قتل کیا ؟۔۔۔ تو اُس نے کہا کہ جیسا آپ نے سنا، مطلب تھا کہ بات صحیح ہے۔۔۔ تو آپ نے فرمایا کہ ایمان تو تیرا قبول ہے لیکن اگر ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کر، اپنے چہرے کو مجھ سے چھپالے۔۔۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تو اپنے چہرے کو مجھ سے چھپالے ؟ ۔۔۔ مقصد یہ تھا کہ جب تو سامنے آتا ہے تو چچا کا حال یاد آ جاتا ہے اور پھر اس سے تکلیف ہوتی ہے اور طبیعت میں تکدر آتا ہے اور نبی کے دل میں تکدر آ جاتا امتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔۔۔ اس لئے یہ بھی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت تھی ، اُسے کہ دیا کہ سامنے نہ آنا۔۔۔ تا کہ مجھے وہ واقعہ یاد آ کر تکلیف نہ پہنچائے اور میرے دل کا یہ سامنے نہ آیا کر، اپنے چہرے کو مجھ سے چھپالے۔۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تو اپنے چہرے کو مجھ سے چھپا لے ؟ ۔۔۔ مقصد یہ تھا کہ جب تو سامنے آتا ہے تو چا کا حال یاد آ جاتا ہے اور پھر اُس سے تکلیف ہوتی ہے اور طبیعت میں تکدر آتا ہے اور نبی کے دل میں تکدر آ جانا اُمتی کے لئے انتہائی خطر ناک ہے۔۔۔ اس لئے یہ بھی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت تھی ، اُسے کہہ دیا کہ سامنے نہ آنا۔۔۔ تا کہ مجھے وہ واقعہ یاد آ کر تکلیف نہ پہنچائے اور میرے دل کا یہ تکدر اور تکلیف تیرے لئے نقصان دہ نہ ہو ۔۔۔ چنانچہ حضرت وحشی حضور ﷺ کی زندگی میں آپ کے سامنے نہیں آئے ۔ صحابی ہو گئے ، ایک ہی مجلس میں شریک ہونے کی وجہ سے صحابی ہو گئے اور اُن کو وہ مرتبہ بھی مل گیا جو صحابہ کا ہوتا ہے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آئے۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ حضرت حمزہ ان کی شہادت کا حضور کو کتنا دُ کھ تھا۔

لیکن پوری تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔۔ قرآن میں کوئی اشارہ نہیں ۔ ۔ حدیث میں کوئی اشارہ نہیں کہ سال کے بعد سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تاریخوں میں، جن میں یہ شہادتیں پیش آئی تھیں کوئی خاص بات کی ہو ۔ بدر
العطيات حكيم العصر احکام
ماه محرم سے کے شہداء کے دن آئے ہوں۔۔۔ اُحد کے شہداء کے دن آئے ہوں ۔۔۔ اُس ہفتے میں۔۔ اُس مہینے ہیں ۔۔ اُس دن میں ۔۔ رمضان میں ۔ شوال میں ۔۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص اہتمام کیا ہو۔۔۔ نہ کوئی اشارہ قرآن میں ہے نہ کوئی اشارہ حدیث میں ہے ۔ ۔ نہ صحابہ کی تاریخ میں ہے ۔ ۔ ۔ جس سے معلوم ہوا کہ شہادتوں کے ساتھ دنوں کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہوتی ۔۔۔ اگر شہادتوں کی وجہ سے دنوں کو خصوصیت حاصل ہوتی تو اسلام میں شہداء بدر، شہداء احد کی تاریخیں منائی جاتیں اور پھر اس کے بعد جو غزوات پیش آئے، غزوہ خندق پیش آیا۔۔۔ غزوہ خیبر پیش آیا۔۔۔ اس میں صحابہ شہید ہوئے ہیں، لیکن کبھی کسی تاریخ میں کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ پوری تاریخ اس بات پر خاموش ہے۔۔۔ قرآن میں کوئی اشارہ نہیں۔۔۔ حدیث میں کوئی اشارہ نہیں کہ ان شہداء کی شہادت کے دن کو اسلام نے کوئی اہمیت دی ہو اور اُس دن اور مہینے کے واپس آنے پر کوئی اہتمام کیا ہو، قرآن وحدیث اس سلسلے میں خاموش ہیں۔۔۔

ہم سیکتی ہیں تو کیا یہ اس بات کی قطعی دلیل نہیں کہ کسی کی شہادت سے دن میں کوئی خصوصیت پیدا نہیں ہوتی ؟؟۔۔۔ حضرت حسین ، ہمارے عقیدے کے مطابق شہید ہیں، سید شباب اهل الجنة ہیں ۔۔۔ جب یزید اور حسین کا مقابلہ ہو تو ہم حیمی ہیں، ہم یزیدی نہیں ہیں ۔۔۔ یہ بات یاد رکھنا، چھوٹے بچے بھی اس کو یاد رکھیں ، ہم حیلتی ہیں۔ ہم اُن کو اپنا محبوب سمجھتے ہیں اور آل رسول ہونے کی وجہ سے اُن سے محبت ہے۔۔ آج مختلف فرقے اور مختلف خیالات والے پیدا ہو گئے ہیں۔۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو یزید کو حق پر اور حضرت حسین نے کو باغی قرار دیتے ہیں ، حاشا و کلا، ہمارا اُن لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اس کشمکش میں حضرت حسین ع کے ساتھ ہیں، ہم یزید کے ساتھ نہیں ہیں۔

صحابہ سے بغض کفر کی دلیل ہے حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ یا حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں میں سے ایک کا قول مجھے یاد ہے، اس وقت یہ معلوم نہیں کہ قول شاہ ولی اللہ کا
خطبات حكيم العصر

صحابہ سے بغض کفر کی دلیل ہے

حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ یا حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں میں سے ایک کا قول مجھے یاد ہے، اس وقت یہ معلوم نہیں کہ قول شاہ ولی اللہ کا ہے یا مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا ہے، لیکن اِن دونوں بزرگوں میں سے کسی ایک کا ہے۔ غالب گمان میرا یہ ہے کہ مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ حب اہل بیت تحفظ ایمان کا ذریعہ ہے اور حسن خاتمہ کا باعث بنتی ہے۔ اہل بیت کے ساتھ محبت رکھنا یہ حسن خاتمہ کا باعث ہے اور اہل بیت کے ساتھ کسی قسم کی کدورت میں خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں ایمان ہی ضائع نہ ہو جائے ۔

صحابہ ان کے درجات ہیں ہم تو اہل بیت کی محبت کو اپنے ایمان کے تحفظ کا ذریعہ کجھتے ہیں اور ہم محبان اہل بیت میں سے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس بات کو بھی یا درکھیں کہ ہوئے ۔۔۔ جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔۔۔ جو غزوہ خندق میں شریک ہوئے ۔۔۔ اور جو صحابہ فتح مکہ میں شریک ہوئے ۔۔۔ یہاں تک یاد رکھیں کہ فتح مکہ تک جوصحابہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختلف غزوات میں شریک ہوئے یہ اُن سب سے افضل ہیں جو فتح مکہ پر مسلمان ہوئے یا فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ۔ فتح مکہ درمیان میں ۔۔۔ حضرت علی ہے اور حضرت معاویہ کا مقابلہ ہو تو ہم حضرت علی کے ساتھ ہیں ۔ یہ عقیدہ یا درکھنا۔۔۔ اور حضرت ابو بکر ، حضرت حسین ع سے افضل ہیں بالیقین۔

ہم صحابہ کرام کے باہمی مراتب کو اس طرح جانتے ہیں: کہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر نے حضرت عثمان ، حضرت علی ، اور وہ تمام صحابہ جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے ۔۔۔ جو غزوہ اُحد میں شریک احکام نما و محرم حضرت عمر ، حضرت حسین ، سے افضل ہیں بالیقین ۔۔۔ حضرت عثمان علی حضرت حسین سے افضل ہیں بالیقین ۔۔۔ بات سمجھ رہے ہو؟۔۔۔ اور یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے۔ یہ حد فاصل قرآن نے قائم کی ہے۔ نص میں آئی ہے۔ جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ سورۃ حدید کا پہلا رکوع پڑھ کر دیکھو ۔۔۔

لَا يَسْتَوِى مِنْكُمْ مِّنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ انْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الحسنى

لفظی ترجمہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:

لَا يَسْتَوِى مِنْكُم مِّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتح وَقَاتَلَ

.. یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے، فتح مکہ سے پہلے جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہے اور اللہ کے راستے میں لڑتے رہے ۔۔۔ لا بستوی ۔۔۔ یہ نہیں اُن کے برابر کہ جو فتح سمہ کے بعد لڑے ہوں اور فتح مکہ کے بعد خرچ کیا ہو۔۔۔ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ انْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا….. وہ درجے کے اعتبار سے بڑے ہیں اُن لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اللہ کے راستے میں خرچ کیا اور اللہ کے راستے میں لڑائیاں لڑیں ہیں۔ لہذا فتح مکہ سے پہلے والے لوگ افضل ہیں اُن لوگوں سے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور فتح مکہ کے بعد انہوں نے اللہ کے راستے میں خرچ کیا اور اللہ کے راستے میں لڑے۔۔۔

وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى

اچھا وعدہ اللہ کا، سب کے ساتھ ہے۔۔ لیکن درحات کا فرق ہے۔ فتح راستے میں لڑے۔۔۔

وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى

….. اچھا وعدہ اللہ کا، سب کے ساتھ ہے۔۔ لیکن درجات کا فرق ہے۔ فتح مکہ سے پہلے والے اعظم درجہ اُن کا درجہ اونچا ہے۔ حضرت معاویہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے ہیں۔۔ جبکہ حضرت اور کام ماه محرم حسن اور حضرت حسین یہ پیدا تو فتح مکہ سے پہلے ہوئے لیکن ہم نہ اُن کو مہاجر کہ سکتے ہیں ، نہ انصار ۔۔۔۔ یہ مہاجرین کی اولاد میں سے ہیں اور فتح مکہ سے پہلے اُن کو کہیں لڑنے کی نوبت نہیں آئی ۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اُن کی عمر 6 اور 7 یا 7 اور 8 سال کی تھی ۔

اس لئے ہمارے عقیدے کے مطابق خلفاء راشدین اپنے بعد والے تمام صحابہ سے افضل ہیں۔۔۔ ذہن میں یہ بات راسخ کرلو، حضرت ابوبکر صدیق ہے حضور ﷺ کی تمام امت سے افضل ہیں، جن میں اہل بیت کے افراد بھی ہیں۔ حضرت عمر ، افضل ، حضرت عثمان عاد افضل ، حضرت ابوبکر صدیق کی وفات ہوئی گھر میں، اگر چہ ان کی بھی سری شہادت ہے ۔۔۔ اُس میں کرامت ہے کہ وہ جو غار ثور میں سانپ نے کاٹا تھا۔۔ اُسی زہر کی وجہ سے ابوبکر صدیق ﷺ کی وفات ہوئی تو یہ سری شہادت ہے۔ لیکن حضرت عمر تو با قاعدہ شہید ہوئے۔۔۔ حضرت عثمان بھی با قاعدہ شہید ہوئے۔۔۔ یہ شہادتیں ان شہادتوں کے مقابلہ میں بہت افضل ہیں جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آئیں۔ شہادتیں وہ بھی ہیں لیکن اُن شہادتوں کے ساتھ ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کو اپنے ذہن میں راسخ کرلیں ۔ یہ شہادتیں سب افضل شہادتیں ہیں ۔۔۔ اس لئے شهداء کربلا کے مقابلہ میں شہداء بدر افضل ہیں۔۔۔ شهداء کربلا کے مقابلہ میں شہداء احد افضل ہیں شهداء کربلا کے مقابلہ میں شہداء خیبر افضل ہیں ۔۔۔ اور جو لوگ غزوات میں شہید ہوئے ہیں اُن سب کے درجات شہداء کربلا کے مقابلہ میں افضل ہیں۔ ہم اھل سنت والجماعت ہونے کی حیثیت سے ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔

شہادت نعمت ہے مصیبت نہیں تو جب ہم اُن شہداء اور اُن کی شہادتوں کو افضل سمجھنے کے باوجود اُن دنوں میں رونا دھونا نہیں کرتے ۔۔۔ ماتم نہیں کرتے ۔۔ غم نہیں کرتے ۔۔۔ چار پائیاں نہیں اُگلتے ۔۔۔ کچھ نہیں کرتے تو شہداء کربلا کے لئے کیوں کریں؟ اس لئے یہ تو ہمارا مسلک نہیں ہے کہ شہادت پر ایسا غلط انداز اختیار کیا جائے۔ اگر یوں کرتے تو ہمارے پاس شہادتوں کی بڑی لمبی فہرست ہے۔۔۔ ہم کس کس شہید کا ماتم کریں، جبکہ یہ تمام شہداء شہداء کربلا سے افضل ہیں۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے کسی دن کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی امتیاز حاصل ہوتا تو اُن شہداء کے دنوں کو امتیاز حاصل ہونا چاہئے تھا۔۔۔ اور اُس کی وجہ سے مسلمان سارا سال روتے رہتے، پیٹتے رہتے اور کوئی کام نہ کرتے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں شہادت کی بناء پر کسی دن اور کسی تاریخ پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے اور نہ فضیلت حاصل ہوتی ہے۔۔ یہ سب بعد کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔

یہ تو ہمارا مسلک نہیں ہے کہ شہادت پر ایسا غلط انداز اختیار کیا جائے۔ اگر یوں کرتے تو ہمارے پاس شہادتوں کی بڑی لمبی فہرست ہے۔۔۔ ہم کس کس شہید کا ماتم کریں، جبکہ یہ تمام شہداء شہداء کربلا سے افضل ہیں۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے کسی دن کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی امتیاز حاصل ہوتا تو اُن شہداء کے دنوں کو امتیاز حاصل ہونا چاہئے تھا ۔۔۔ اور اُس کی وجہ سے مسلمان سارا سال روتے رہتے، پیٹتے رہتے اور کوئی کام نہ کرتے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں شہادت کی بناء پر کسی دن اور کسی تاریخ پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے اور نہ فضیلت حاصل ہوتی ہے۔۔ یہ سب بعد کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ محرم کی فضیلت بزبان رسالت ہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے ابتداء میں اس مہینے کی دسویں تاریخ کے روزے کو فرض قرار دیا۔ یعنی روزہ رکھنا فرض تھا۔ اور جب رمضان المبارک کی فرضیت آگئی تو محرم کی فرضیت کو چھوڑ دیا گیا اور یہ کہہ دیا گیا کہ اگر رکھو گے تو ثواب ہے، نہیں رکھو گے تو کوئی گناہ نہیں ۔۔۔ روزہ رکھنا ثواب ہے، 10 تاریخ کا رکھو، یا 10 اور 9 کا رکھو، یا 10 ور 11 کا رکھو، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 کا روزہ رکھا تھا۔ اور پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر اگلے سال میں زندہ رہا تو 9 کا روزہ بھی رکھوں گا تا کہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ رہے۔ یہودی بھی اس دن کی تعظیم کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ
خطبات حكيم العصرية
احکام ماه محرم
السلام کو اللہ نے فرعون سے نجات دی تھی۔

حضور ﷺ نے ترغیب دی لہذا ہم بھی اس تاریخ کا احترام کرتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے روزہ رکھا ۔۔۔ روزہ رکھنے کی ترغیب دی۔۔۔ لیکن جب رمضان فرض ہو گیا تو اس کی چھوڑ دی اور فرق کرنے کے لئے 9 اور 10 کا روزہ قرار دیا کہ ایک نہ رکھو، دو 14/25 ں میں صراحت دوسری بھی ہے 9 تاریخ کی ، اگر روزہ رکھتا ہے تو 9 کو بھی رکھو اور 10 کو بھی رکھو، اور اگر 9 کو نہ رکھ سکو تو 10 اور 11 کا رکھ لو، اکیلا روزہ 10 تاریخ کا مناسب نہیں ہے۔ بہر حال روزہ رکھے تو ثواب، نہ رکھے تو گناہ کوئی نہیں ۔ ایک تو حکم اس کا یہ آیا ہوا ہے حدیث میں ۔۔۔ نسخہ کیمیا پھر ایک دوسری بات بھی حدیث میں آئی ہے۔ مشکوۃ شریف میں صدقات کے باب میں یہ روایت موجود ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عاشورہ میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کی وسعت کرے، اچھا کھلائے ، تو اللہ تعالیٰ اُس کے رزق میں برکت دیتے ہیں اور سارا سال اُس کے رزق میں کشادگی رہتی ہے ۔ تو گویا 10 محرم کو عاشورہ کے دن اہل و عیال کیلئے باقی ایام کے مقابلہ میں اچھے کھانے کا انتظام کر دینا اور کھانے میں وسعت کر دینا حدیث سے ثابت ہے۔ یہ دو باتیں ہیں جو حدیث میں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ آپ حضرات کے سامنے ہے۔۔۔ اس کا کوئی ثبوت حدیث میں نہیں ہے۔ محرم کی مناسبت سے ہم لوگ ۔۔ سنی کہلانے والے، اہلسنت والجماعت کہلانے والے۔۔۔ اہل بیت کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں ہمیں دوسروں سے غرض نہیں ۔۔۔ اس کی ذرا تھوڑی کی وضاحت سن لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں