قبلہ اول کا تاریخی پس منظر
قبلہ اول کا تاریخی پس منظر
خلافت راشدہ کے دور میں بیت المقدس کی فتح
زمانہ خلافت راشدہ و ما بعد میں اسلام کو عروج ملا اس زمانہ میں ارض فلسطین اور بیت المقدس سید نا عمر فاروق کے زمانہ خلافت میں 15 ہجری کو فتح ہوئے۔ حضرت عمراپنی خلافت کے دوران چار دفعہ ملک شام تشریف لائے۔ عیسائیوں نے بیت المقدس میں ہی آپکے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور بیت المقدس کی چابیاں آپکے حوالے کیں ۔ جس کے بعد پانچ سو برس سے زیادہ عرصہ تک یہ مقدس سرز مین مسلمانوں کے قبضہ حکومت میں رہی۔
صلیبی جنگیں
زمانه، خلافت راشدہ و ما بعد میں اسلام کو جو عروج ملا اس سے اسلام چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ اس دور کی پے در پے شکستوں کا انتقام لینے کے لیے عیسائیوں نے گیارویں صدی آخر سے لیکر تیرھویں صدی آخر تک خطہ ، عرب، ارض فلسطین اور بالخصوص بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرانے کیلیے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں انہیں تاریخ عالم میں صلیبی جنگوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ انہی جنگوں میں ایک بار پھر عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح
بیت المقدس ایک بار پھر 583ھ بمطابق 1187ء میں ایوبی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ فتح بیت المقدس کے بعد صلاح الدین ایوبی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عیسائیوں سے مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ نہیں لیا۔ صلیبی جنگوں کی فتح عظیم کے بعد بیت المقدس پر تقریبا سات سو باسٹھ سال تک مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
یہودیوں کی سازشیں اور بیت المقدس پر قبضہ
یہودی اپنی شرارتوں اور سازشوں کی بنا پر ہر دور میں نفرت و حقارت کا نشانہ بنتے رہے ہیں ہر ملک نے کبھی نہ کبھی ان کو اپنی حدود سے ضرور باہر نکال کیا ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شرارتوں اور سازشوں کی وجہ سے انکو مدینہ منورہ سے جلاوطن کیا اور یہ خیبر میں جابسے۔ انکی یہ سازشیں اب بھی جاری ہیں انہی سازشوں کے نتیجے میں 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے اسلام دشمن ممالک کی عالمی سازش سے مسلم دنیا کے عین وسط میں فلسطین کے علاقہ میں یہودی ریاست قائم کر دی گئی۔ شہر مقدس اور قبلہ اول بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء میں یہودیوں نے تیسری عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس کے اس شہر پر خوفناک بم باری کی ۔ مسجد اقصی کا مرکزی دروازہ مسمار کردیا اور مسجد کا ایک مینار بھی شہید کر دیا۔ جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے۔
جون 1967 کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے بیت المقدس کی عرب حیثیت کو ختم کر کے اسرائیل کا جز وقرار دے دیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اگست 1969ء کو دنیائے اسلام کا المناک ترین سانحہ پیش آیا اس روز ساڑھے تین گھنٹے تک مسجد اقصیٰ میں آگ بھڑکتی رہی۔ مسجد کا ایک بڑا حصہ جل گیا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا یادگار منبر بھی جل کر راکھ ہو گیا۔ سارے عالم اسلام میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی لیکن تاحال مسجد اقصی ایک اور صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے جو اسے یہود کے شکنجہ سے آزاد کروا کر اسکی حرمت کو بحال کرے۔ مبر 2017 ء کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکی سفارت خانہ اگلے تین برس میں تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا جائے گا۔ ابھی گزشتہ ایک کوئی ڈیڑھ ہفتہ سے فلسطین کے شہر غزہ پر اسرائیل بمباری کر رہا ہے، 200 سے زائد شہید کیے جاچکے ہیں سینکڑوں گھر مسمار کر دیئے گئے بیسیوں عمارتیں گرادی گئی فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں روکنے کے لیے ان کے واحد مواصلاتی نظام کو اڑا دیا گیا ہے۔ آخر یہ معاملہ کب تک چلے گا ؟ آخر یہ مظلوم ظلم کو کب تک سہیں گے ؟ کب کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا ہو گا جو انہیں پنجہ یہود سے بچائے گا ؟
بیت المقدس اور ہماری ذمہ داریاں
فلسطینیوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں
فلسطینیوں پر جو قیامت گزر رہی ہے وہ ایک المناک اور دردناک داستان ہے، جس کے نتیجہ میں بے شمار فلسطینی شہید ہو گئے ۔ ان کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے اور کتنے لوگ زخمی ہو گئے اور ان کے گھر تباہ ہو گئے ۔ اس صورت حال میں ہر مسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور تمام عالم اسلام کو حسب استطاعت ان کی مد کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات : 10)
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحمهِمْ، وَتَعَاطَفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى
مسلمان آپس میں پیار ومحبت ، رحم و شفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ صحیح مسلم: 2586
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور ایک جسم کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جسم کے ایک حصے میں اگر درد ہو تو سارا جسم اس دردکو محسوس کرتا ہے اور اس درد کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جو کچھ اختیار میں ہوتا ہے وہ کرتا ہے، یہی حالت ہماری اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں ہونی چاہیے، کیونکہ ساری دنیا کے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں، کسی کونے میں مسلمانوں پر کوئی تکلیف آئے تو یوں سمجھیں کہ گویا ہم پر تکلیف آگئی ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے، ایسے موقع پر مسلمانوں کی تکلیف کا احساس ہونا اور اُن کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ ہمارے ایمان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔
ان کے لیے خلوص دل سے دعائیں کیجئے
مظلوم مسلمانوں کے حق میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور انہیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے ۔ اللہ تعالی قادر مطلق ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے ان کی مرضی اور محکم سے ہو رہا ہے، وہ حالات بدلنے پر قادر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ کیونکہ دعا کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہوتی ، بشرطیکہ آداب اور شرائط کی رعایت کے ساتھ کی جائے اور یہ عمل بہت آسان بھی ہے، ہر عام و خاص، امیر وغریب کر سکتا ہے ۔ لہذا خلوص دل سے اللہ سے دعائیں کی جائیں کہ اللہ تو فلسطین کے حالات بدل دے۔ آئمہ مساجد کو چاہیے کہ وہ نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کریں اور ہر شخص ہر وقت اللہ تعالیٰ سے عجز وانکساری سے ان کے حق میں دعا کرتا رہے۔
ان کی مدد کیجیے
بہت ساری جماعتیں ، بہت سے ادارے اور بہت ساری تنظیمیں ان کی خدمت کے لیے مصروف ہیں ۔ ان کے ذریعہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے ان فلسطینیوں کی مدد کرنی چاہیے ، اس وقت وہ بیچارے بے کسی کے عالم میں ہیں اور محتاج ہیں ، انہیں مدد کی ضرورت ہے اور کسی ضرورت مند مسلمان کی مدد کرنی چاہیے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
المسلم أخو المُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرما ئیں گے اور جوکسی مسلما کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ (صحیح البخاري : 2442)
ظلم کے خلاف بھر پورآواز بلند کیجئے
فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جتنی ہو سکے آواز آٹھا ئیں ، ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائیں ، ان کے بھیانک چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے ، اپنی اپنی حکومتوں سے گزارش کی جائے کہ ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو روکنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ کیونکہ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا بھی ظلم ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورة الانفال : 25)
اور اس آزمائش سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی نہیں پہنچے گی ( بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے، اس پر خاموش رہنے والوں کو بھی شامل کیا جائے گا ) اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا اور کسی شاعر نے کہا تھا:
غافل و مد ہوش ربنا ظلم ہے
بے حس اور بے جوش رہنا ظلم ہے
جرم پر آنکھیں چرانا جرم ہے
ظلم پر خاموش رہنا ظلم ہے
ان کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھیں
حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں موجود نہتے مسلمانوں پر ظلم کرنے والے یہودی مسلمانوں کے ازلی اور ابدی دشمن ہیں۔ ان کے بارے میں تو رب تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے
لَتَجِدَنَ أَشدَ النَّاسِ عَدَاوَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا (المائدة: 82)
تو سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائے گا۔ ان یہود کے ساتھ اپنی دشمنی کو ظاہر کرنے کے لیے ان کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
بائیکاٹ کیا جائے
ان کی مصنوعات (جیسے کوک، پیپسی اور مکڈونلڈ وغیرہ) کی ایک فہرست بنائی جائے اور مسلمانوں میں عام کی جائے تا کہ پوری دنیا میں رہنے والے مسلمان اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔
جہاد کے لیے تیار رہیں
جہاد کے لیے ہر دم تیار ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِم أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورة النساء : 75)
اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔