استقبال رمضان

استقبال رمضان

ہم رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں

ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، ہر کوئی ماہ رمضان کی آمد پر بے حد خوشی محسوس کر رہا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا انتظار بندہ مومن سال بھر کرتا ہے کیونکہ یہ نیکی، برکت ، بخشش، عنایت، توفیق، عبادت، زہد، تقوی، جہاد، خاکساری، مساوات، صدقہ و خیرات، رضائے الہی ، جنت کی بشارت اور جہنم سے نجات کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ رمضان ایک سال بعد ہمارے پاس صرف ایک ماہ کے لیے مہمان بن کرآتا ہے۔ اپنے ذہن میں ذرا تصور پیدا کیجئے کہ جب ہمارے گھر کسی اعلی مہمان کی آمد ہوتی ہے تو ہم لوگ کیا کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب میں کہا جائے گا کہ ہم بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں، گھر کے آنگن کو خوب سجاتے ہیں، خود بھی ان کے لئے زینت اختیار کرتے ہیں، پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتا ہے، چہرے پر خوشی کے آثار ہوتے ہیں۔ مہمان کی تواضع کے لئے انواع واقسام کے کھانے تیارکئے جاتے ہیں۔ جب ایک مہمان کے لئے اس قدر تیاری کی جاتی ہے تو مہمانوں میں سب سے اعلی اور رب تعالی کی طرف سے بھیجے ہوئے مہمان کی تیاری کس قدر پر زور ہونی چاہئے ؟
تو آئیے! چند ایسے اعمال سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے ذریعے ہم اس ماہ مبارک کا اچھے انداز سے استقبال کر سکیں

ماہ شعبان کے روزے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى تَقُولَ : لا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى تَقُولُ : لا يَصُومُ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلْ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رأيتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ “

“رسول اللہ وسلم نفلی روزے رکھتے تھے تو ہم آپس میں کہتے کہ اب آپ روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں ۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں ۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ کسی مہینے میں آپ نے شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں۔ (صحيح البخاري: 1969، صحیح مسلم : 1156)

البتہ جب نصف شعبان گزر جائے تو استقبال رمضان کے روزے رکھنا منع ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلیم نے ارشاد فرمایا:

إذا انْتَصَفَ شَعْبَانُ، فَلَا تَصُومُوا

جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو۔ (صحیح سنن ابی داود: 2337، سنن الترمذی: ۷۳۸)

اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ماہ رمضان میں مسلسل ایک ماہ روزے رکھنے ہیں تو جسم کو کچھ آرام مل جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ماہ شعبان کے مکمل روزے رکھنے کے بعد رمضان میں روزے رکھنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ ( مگر وہ شخص جو جمعرات ، سوموار یا ایام بیض کے مسلسل روزے رکھتا ہے، اس کے لیے جائز ہے کہ وہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھ لے۔

چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء

ہم میں سے بہت سے لوگوں کے خصوصاً خواتین کے کچھ نہ کچھ روزے رہ جاتے ہیں تو کوشش کر کے ان ایام میں ان کی قضائی دے دینی چاہیے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ

رمضان کے جوروزے مجھ سے چھوٹ جاتے تھے، مجھے ان کی قضاء کی استطاعت نہ ہوتی مگر یہ کہ رمضان ہی میں ۔۔۔۔

ماہ رمضان کی عظمت کا ادراک

رمضان کا مہینہ بہت عظمت والا مہینہ ہے، اس کی عظمت کا احساس اور قدر و منزلت کا لحاظ آمد رمضان سے قبل ہی ذہن و دماغ میں پیوست کر لیا جائے ، تا کہ جب رمضان آئے تو غفلت سستی، بے اعتنائی ، ناقدری، ناشکری اور صیام و قیام سے بے رغبتی کے اوصاف رذیلہ پیدا نہ ہوں۔ یہ اتنی عظمت و قدر والا مہینہ ہے کہ اس کی صرف ایک رات ہی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ المَلائِكَةُ وَالرُّوحُ فيها بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِي حَتَّى مطلعِ الْفَجْرِ (سورة القدر)

بلاشبہ ہم نے قرآن کو لیلتہ القدر ( یعنی با عزت و خیر و برکت والی ) رات میں نازل کیا ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلتہ القدر کیا ہے۔ لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں فرشتے اور جبرائیل روح الا مین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
اس کا مطلب یہ قطعا نہیں کہ رمضان کی صرف ایک ہی رات قدر و منزلت والی ہے، بلکہ اس کا ہر دن اور ہر رات قدر و منزلت کی حامل ہے، اور جو اس ماہ رمضان کو پالینے کے بعد عمل صالح کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے راہ جہاد میں شہید ہونے والے سے بھی پہلے جنت میں داخلہ نصیب فرماتا ہے، چنانچہ سید ناطلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“دور دراز کے دو آدمی رسول اللہ سلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ، وہ دونوں ایک ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں ایک دوسرے کی نسبت بہت ہی محنتی تھا، تو محنتی نے جہاد کیا اور شہید ہو گیا، پھر دوسرا شخص اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا، اس کے بعد وہ بھی فوت ہو گیا۔ طلحہ رض فر ماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، اتنے میں وہ دونوں شخص نظر آئے اور جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا، اور اس شخص کو اندر جانے کی اجازت دی جس کا انتقال آخر میں ہوا تھا، پھر دوسری بار نکلا ، اور اس کو اجازت دی جو شہید کر دیا گیا تھا ، اس کے بعد اس شخص نے میرے پاس آکر کہا: تم واپس چلے جاؤ، ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔ صبح اٹھ کر طلحہ رض لوگوں کو خواب بیان کرنے لگے تو لوگوں نے بڑی حیرت ظاہر کی ، جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور آپ کو سارا واقعہ بیان کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ؟

تمہیں کس بات پر تعجب ہے؟ انہوں نے کہا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا كَانَ أَشَدُ الرَّجُلَيْنِ اجتهادًا، ثُمَّ اسْتُشْهِدَ، وَدَخَلَ هَذَا الْآخِرُ الْجَنَّةَ قَبْلَهُ

اے اللہ کے رسول ! پہلا شخص نہایت عبادت گزار تھا، پھر وہ شہید بھی کر دیا گیا اور یہ دوسرا اس سے پہلےجنت میں داخل کیا گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أليس قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةٌ؟

کیا یہ اس کے بعد مزید ایک سال زندہ نہیں رہا؟ لوگوں نے عرض کی : کیوں نہیں ،ضرور زندہ رہا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَ، وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا مِنْ سَجَدَةٍ فِي السَّنَةِ؟

اس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس میں روزے رکھے اور سال میں اتنی اتنی رکعت نماز پڑھی ۔لوگوں نے کہا : یہ تو ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

فَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ ممَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

تو اسی وجہ سے ان دونوں (کے درجوں) میں زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ دوری ہے۔

صحيح سنن ابن ماجه: 3925

اپنی نیتوں کو خالص کر لیجئے

آمد رمضان سے قبل ہی اپنی نیتوں کو خالص کر لیجئے ، اور خلوص دل سے اس سے کما حقہ مستفید ہونے کا عزم مصمم کر لیجئے ، کیونکہ اخلاص در اصل دین کا لب لباب اور نچوڑ ہے اور ہر کام اخلاص کے ساتھ ہی کرنے کااللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء (سورة البينة: 5)

اور انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے ہوں۔
اور جو شخص اخلاص سے عاری ہو کر ریا کاری کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا کوئی بھی عمل قبول نہیں فرماتا، چنانچہ ارشادربانی ہے:

مَنْ كَانَ يُرِيدُ الحياةَ الدُّنْيَا وزينتها نُوَفِّ إليهم أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وخيط ما صنعوا فِيهَا وَبَاطِل مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورةهود : 16/15)

جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت ( ریا کاری) کا ارادہ رکھتا ہو ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہو گیا جو کچھ انہوں نے اس میں کیا اور بے کار ہے جو کچھ وہ کرتےرہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آمد رمضان سے قبل ہی اپنی نیتوں کو خالص کر لیا جائے ، تا کہ اللہ تعالی ہمارے اعمال کو شرف قبولیت سے نوازے۔

اپنے دلوں کو صاف کر لیجئے : آمد رمضان سے قبل ہی اپنے دلوں کو حسد، کینہ، خواہشات نفس، عداوت، ناشکری اور ہر قسم کی نافرمانی سے پاک کر لیجئے ، کیونکہ ایسے دل میں کبھی بھی تقوی، زہد اور اخلاص پیدا نہیں ہوسکتا۔ دل کی صفائی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر یہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، جیسا کہ سید نا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَلا وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجسَدُ كُلَّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ،ألا وهي القلب

آگاہ رہو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ صحیح رہتا ہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ رہو! وہ دل ہے۔

صحيح البخاری: 52، صحیح مسلم: ۱۵۹۹

رمضان نعمت الہی ہے، اس کا احساس کرتے ہوئے شکر ادا کیجئے

ماہ رمضان رب تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ایک نعمت ہے۔ عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو حاصل ہو جاتی ہے لیکن جو نہیں مل پاتی اس کے لئے تو تڑپتا رہتا ہے۔سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ رہو! وہ دل ہے۔

صحيح البخاری: 52، صحیح مسلم: ۱۵۹۹

۔(ذرا سوچئے! پچھلے رمضان کتنے ہی لوگ ہمارے ساتھ سحری و افطاری کیا کرتے تھے لیکن آج وہ اس دنیا میں موجود نہیں، کتنے ہی لوگوں کو ماہ رمضان میسر نہیں آتا ، کتنے ہی لوگ رمضان کو پانے کی خواہشات کرتے کرتے اس دنیا کو خیر آباد کہہ جاتے ہیں۔ اس لیے اس نعمت الہی پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے ، کیونکہ شکر کرنے سے اللہ تعالی یہ نعمت ہمیں دو بارو دوبارہ دیتا رہے گا ،
چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراهيم: 7)

اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے۔ تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگرتم ناشکری کرو گے تو یقیناً میر اعذاب بہت سخت ہے۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر شکریہ ادا نہیں کرتے ، ان کے متعلق فرمایا:

ألم تر إلى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَأحَلُوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ القرار (ابراهيم :29.28)

کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا جہنم میں ، وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے.

سابقہ گناہوں سے توبہ کیجئے

مشہور مثال ہے صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو وہ بھولا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو پچھلے گیارہ مہینوں سے اپنے رب کا در بھول چکے ہیں، گناہوں کی دلدل میں زندگیاں گزار رہے ہیں، مالک الملک کی اس نعمت کے آنے سے قبل ہی اگر ہم اس کی طرف رجوع کرلیں، تو اللہ تعالیٰ کا دروازہ ہمیں کھلا ملے گا۔ بلکہ اس کا تو اعلان عام ہے:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم (سورة الزمر : 53)

کہہ دیجئے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، یقینا اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ لہذا ہمیں تو بہ واستغفار اور انابت ور جوع میں تا خیر نہیں کرنی چاہئے ۔ یادرکھ لیجے ! رمضان کی آمد سے قبل اپنے گناہوں سے پاک وصاف ہو جانا ہی اس کا صحیح استقبال ہے۔ ہمیں اپنے ان دوست و احباب اور عزیز و اقرباء سے سبق لینا چاہئے، جنھوں نے سوچ رکھا تھا کہ آئندہ رمضان میں تو بہ تائب ہو جائیں گے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ رمضان کا نیا چاند دیکھتے ، ہم نے اپنے ہاتھوں سے انھیں سپردخاک کر دیا۔ لہذا ہمیں پہلی فرصت میں تو بہ کر لیجئے ۔ پھر جب رمضان آ جائے تو جی بھر کے جنت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کیجئے

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ صَلَّى اللَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا في جماعة يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الأُولَى كُتِبَ لَهُ بَرَاءَ تَانِ : بَرَاءَةٌ مِنْ النَّارِ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ النَّفَاقِ

جو شخص چالیس دن تک رضائے الہی کے لیے تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتا ہے، اس کے لیے دو براء تیں لکھ دی جاتی ہیں: ایک جہنم سے برات اور دوسری نفاق سے برات۔

سنن الترمذی: 241، قال الألباني: حسن

ویسے تو عام دونوں میں بھی نماز با جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے مگر ماہ شعبان کے آخری عشرہ میں یہ کام شروع کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ماہ رمضان میں ہماری کوئی بھی نماز تکبیر اولی کے بغیر نہیں پڑھی جائے گی۔

نیکی میں رغبت کیجئے

رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے، اللہ تعالی اس مہینے میں مومنوں کو متعد د طریقے سے بھلائی سے نوازتا ہے، ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کے لیے رمضان سے پہلے ہی کمر بستہ ہو جانا چاہئے اور نیکیوں سے مستفید ہونے کے لئے برضا ورغبت ایک خاکہ تیار کرنا چاہئے تا کہ ہر قسم کی بھلائیاں سمیٹ سکیں ۔ سمجھ کر قرآن پڑھنے کا اہتمام ( کم از کم ایک مرتبہ قرآن ) ، پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات ، صدقہ و خیرات، ذکر واذکار، دعا ومناجات، طلب عفو و درگذر، قیام اللیل کا خاص خیال، روزے کے مسائل کی معرفت، دروس و بیانات میں شرکت، اعمال صالحہ پہ محنت و مشقت اور زہد و تقوی سے مسلح ہونے کا مکمل خاکہ ترتیب دیں اور اس خاکے کے مطابق رمضان المبارک کا روحانی و مقدس مہینہ گذار ہیں۔ رمضان میں ہر چیز کا ثواب دو گنا ہو جاتا ہے اور روزے کی حالت میں نیک کام کرنا مزید اضافہ حسنات کا باعث ہے، اس لئے اس موسم میں معمولی نیکی بھی گرانقدر ہے۔ ہر نماز کے لئے مسواک کرنے کی کوشش کرنا، اذان سے پہلے مسجد میں پہنچ کر اذان کا انتظار کرنا، اذان اور اقامت کے درمیان رب تعالیٰ سے دعا مناجات کرنا ، تراویح میں پیش پیش رہنا، لوگوں کے لیے سحری و افطاری کا بندو بست کرنا ، درس و دروس میں شرکت کرنا لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔

برائی سے اجتناب کیجئے

رمضان کے استقبال میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہم گناہوں سے باز آجا ئیں ۔ لیکن عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے ہم ایک طرف تو نیکیاں کرتے ہیں اور دوسری طرف برائیاں بھی نہیں چھوڑتے ۔ اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بلکہ برائی کے سمندر میں ہماری نیکیاں ڈوب جاتی ہیں ۔ اس لیے اگر رمضان میں کی ہوئی نیکیوں کو بچانا ہے تو برائیوں سے بالکل اجتناب کرنا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُل أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (التوبة: 53)

کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا نا خوشی کسی بھی طرح خرچ کرو قبول تو ہر گز نہیں کیا جائے گا، یقینا تم فاسق لوگ ہو۔ اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی گناہوں کی وجہ سے کیسے ہوئے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، تو سوچئے! اگر ہم برائیاں بھی کرتے رہیں اور نیکیاں بھی کرتے جائیں تو کیا ایسی نیکیوں کی بھلا اللہ کو کوئی ضرورت ہے؟

عمرہ کرنے کی کوشش کیجئے

ماہ رمضان میں مسجد حرام اور مسجد نبوی میں اعتکاف اور نمازوں کا ثواب دیگر مساجد کی نسبت زیادہ ہے اور ویسے بھی ماہ رمضان میں عمرہ کرنا ثواب میں حج کے برابر ہے ، جیسا کہ سید نا وهب بن منبش رضی ا اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ، تَعْدِلُ حَجَةٌ

ماہ رمضان میں عمرہ کرنا ( ثواب میں ) حج کے برابر ہے۔

صحیح سنن ابن ماجه: 2991

آپ ﷺ نے فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کےبرابر ہے۔

صحيح البخاري: 1863 ، صحیح مسلم : ۱۳۵۶

نظام الاوقات ترتیب دیجئے

رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے ، اپنے آپ کو فارغ کر لیا جائے ، غیر ضروری اسفار کو مقدم یا مؤخر کیا جائے ، دنیاوی کاموں کے لئے ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن کم ہی خوش بخت لوگ دینی امور کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں، رمضان کا پہلے سے مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جائے ، خاص طور پر اس مہینہ کو قرآن اور قرآنی علوم کے لئے خاص کیا جائے سحری سے لے کر سونے تک کا نظام الاوقات اس طرح پر مرتب کیا جائے کہ وقت کا کوئی بھی حصہ ضائع نہ ہو۔

ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈ یا وغیرہ سے احتراز کیجئے

ماہ رمضان کا ایک ایک لمحہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ٹی وی خرافات کا مجموعہ ہے، لہذا ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی اس سے جان چھڑانے کی کوشش کیجئے ۔ ٹی وی پر رمضان نشریات کے اکثر پروگرامز موسیقی، اختلاط مردوزن ، اور بے حیائی پر مبنی ہوتے ہیں، جو ماہ رمضان کی روح کو ختم کر دیتے ہیں۔

آمد رمضان سے پہلے پہلے شاپنگ کر لیجئے

بازار اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ جگہیں ہیں، جیسا کہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَحَبُّ الْبِلادِ إلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ أَسْوَاقُها

اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب جگہیں اس کی مسجد میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے یدہ جاہیں بازار ہیں۔

صحیح مسلم : 671، صحیح ابن خزيمة: ۱۳۹۳

بہت عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر ماہ رمضان بلکہ خاص طور پر طاق راتوں میں شاپنگ کی جاتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ماہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے نا کہ شاپنگ کا،

غرباء و مساکین کی مدد کرنا:

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہر کوئی نیکیوں میں مسابقت چاہتا ہے، ہمارے ادگر د کتنے ہی ایسے لوگ بستے ہیں جن کے پاس سحری و افطاری کے لیے سامان میسر نہیں، ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ابھی سے یا درکھیں اور آمد رمضان سے پہلے پہلے ان کے لیے رمضان راشن مہیا کریں، دنیا میں کسی غریب کی مدد کرنے سے اللہ تعالیٰ روز قیامت ہماری مدد فرمائے گا، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ نَفْسَ عَنْ مُؤْمِن كُرْيَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفْسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبٍ يَوْمِ الْقِيَامَةِ. وَمَنْ يَسرَ عَلَى مُعْسِر يَشرَ اللهُ عَلَيْهِ في الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ في عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ

جس نے اپنے بھائی سے دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کی تو اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کرے گا، جس نے کسی مسلمان ( کے عیوب) کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس (کے عیبوں) پر پردہ ڈالے گا، جس نے کسی مسلمان کے لیے آسانی پیدا کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا فرمادے گا۔ اللہ اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔

صحیح مسلم: 2699 مسنن ابن ماجه ۲۲۵، سنن الترمذی: ۱۳۴۵

بہترین تبدیلی لایئے

ہماری زندگی میں کتنے ہی رمضان آئے اور مزید کتنے ہی آئیں گے مگر اس بار بھی سے کوشش کریں کہ اس رمضان میں ہم نے اپنے اندر حقیقی تبدیلی لانی ہے اور یہ بات بھی یادرکھیں کہ تبدیلی صرف رمضان کے لئے نہیں بلکہ سال بھر کے لئے ہو ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کے نمازی ہوا کرتے ہیں اور رمضان رخصت ہوتے ہی نماز سے بلکہ یہ کہیں اللہ سے ہی غافل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ابھی سے کوشش کی جائے کہ یہ تبدیلی عارضی تبدیلی نہ ہو بلکہ ہمیشہ کے لیے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی موت تک کے لیے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتيك اليقين (سورة الحجر 99)

اور اپنے رب کی عبادت کیجئے یہاں تک کہ تیرے پاس یقین ( موت) آ جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں