اوہام پرستی اور اسلام

اوہام پرستی اور اسلام

اوہام پرستی اور اسلام

اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا ہے۔ اس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات، اور اختیارات میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا، زندگی اور موت کا مالک، اور ہر چیز کا مختار کل ہے۔ کامیابی و ناکامی، نفع و نقصان، سب اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ توحید کا یہ تصور انسان کو غیر اللہ کے آگے جھکنے اور ہر قسم کی غلامی سے آزاد کرتا ہے، جس میں ایک بڑی غلامی اوہام پرستی (توہمات) کی بھی ہے۔

اوہام پرستی: ایک غلامی

اوہام پرستی بھی دراصل ایک قسم کی غلامی ہے۔ اس میں انسان معمولی چیزوں کو اپنی زندگی کے فیصلوں اور نتائج سے جوڑ لیتا ہے۔ مثلاً کسی جانور کے سامنے آنے کو بدشگونی سمجھنا یا کسی خاص پرندے کی موجودگی کو مصیبت کا پیش خیمہ تصور کرنا۔ اسی طرح بعض لوگ خاص مہینوں، دنوں یا پتھروں کو منحوس یا خوش نصیب مانتے ہیں۔ یہ سب عقائد اوہام پرستی کی علامتیں ہیں۔

توحید پر کامل یقین رکھنے والا شخص ایسی باطل تصورات سے آزاد رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ معاشروں میں بھی بعض لوگ اوہام پرستی میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ ان کا اللہ پر ایمان کامل نہیں ہوتا۔

عربوں کے توہمات

اسلام سے قبل عربوں میں بھی مختلف قسم کے توہمات عام تھے۔ مثال کے طور پر سفر کے دوران پرندے کو اڑا کر فال نکالی جاتی تھی، اُلو کو منحوس پرندہ سمجھا جاتا تھا، اور صفر کے مہینے کو نامبارک تصور کیا جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باطل تصورات کی تردید کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیماری لگنے، پرندوں سے بدفالی، اُلو اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

ایک اور مشہور توہم یہ تھا کہ صحراء میں شیاطین بھٹکاتے ہیں جنہیں عرب “غول” کہتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس تصور کی بھی نفی فرمائی۔

اسلام کی تعلیم اور حقیقت

اسلام نے لوگوں کے ذہنوں میں توحید کا ایسا پختہ عقیدہ راسخ کیا کہ وہ اوہام پرستی جیسے تصورات کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ حضرت زنیرہ، ایک صحابیہ، کو دیوی دیوتاؤں کے انکار کی بنا پر بینائی سے محروم کرنے کا کہا گیا، لیکن ان کا ایمان مضبوط رہا کہ ان کی بصارت کا جانا اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا کی، اور ان کی بینائی واپس آ گئی۔

اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مصر فتح ہوا، جہاں دریائے نیل کی روانی کے لئے ایک کنواری لڑکی کو قربان کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس توہم کی نفی کرتے ہوئے اللہ کے حکم سے دریا کے جاری ہونے کی دعا کی، اور دریائے نیل بغیر کسی انسانی قربانی کے ہمیشہ کے لیے جاری ہو گیا۔

صفر کی بدشگونی کا رد

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے صفر کے مہینے کی بدشگونی کی تردید کی۔ اس کے باوجود بعض لوگ آج بھی صفر کی 13 تاریخ اور آخری چہار شنبہ کو منحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں کوئی وقت یا دن منحوس نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر بدشگونی کسی چیز میں ہوتی تو وہ عورت، گھر اور سواری میں ہوتی، لیکن یہ محض ایک مثال ہے کہ کوئی چیز بذات خود منحوس نہیں ہوتی۔

رسول اللہ ﷺ کی تردید

نبی کریم ﷺ نے اس غلط فہمی کی سختی سے تردید کی اور واضح فرمایا کہ صفر کے مہینے میں کوئی نحوست یا بدشگونی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

“لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ”(صحیح بخاری: 5707)

ترجمہ: “نہ بیماری متعدی ہوتی ہے، نہ بدشگونی حقیقت رکھتی ہے، نہ صفر (میں کوئی نحوست ہے) اور نہ اُلو (کوئی بدفالی کا باعث ہے)۔”

اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے جاہلی عقائد کی نفی کرتے ہوئے ان تمام توہمات کو باطل قرار دیا۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ صفر کا مہینہ بھی اللہ کے دیگر مہینوں کی طرح ایک عام مہینہ ہے اور اس میں کوئی نحوست یا بدشگونی نہیں پائی جاتی۔

صفر اور اسلامی تاریخ

اسلامی تاریخ میں صفر کے مہینے میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن کسی بھی واقعے کو نحوست یا بدشگونی سے جوڑنا درست نہیں۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے اس مہینے میں سفر بھی کیے اور جنگیں بھی لڑی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں صفر کے مہینے کو کوئی خاص حیثیت یا نحوست حاصل نہیں ہے۔
نیز صفر کی بدشگونی کا عقیدہ جاہلیت کی باقیات میں سے ہے، جسے اسلام نے ختم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے نہایت وضاحت کے ساتھ اس بات کی تردید فرمائی کہ صفر میں کوئی نحوست ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس عقیدے کو رد کرے اور اسلام کی توحیدی تعلیمات کو اپناتے ہوئے ہر مہینے، دن اور وقت کو اللہ کی رحمت اور برکت کا حصہ سمجھے۔

اسلام کا پیغام

اختتامیہ:اوہام پرستی علم اور شعور کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اسلام کا عقیدہ توحید انسان کو اوہام اور توہمات سے آزاد کرتا ہے۔ جو قوم اللہ پر کامل ایمان رکھتی ہے، وہ ان باطل تصورات سے بچی رہتی ہے۔ علم اور ایمان کے باوجود اوہام پرستی کا شکار ہونا بدقسمتی کی بات ہے۔ اسلام انسان کو اس غلامی سے نکال کر آزاد اور پرسکون زندگی گزارنے کی راہ دکھاتا ہے۔
اسلام ایک سادہ اور توحید پر مبنی دین ہے، جو لوگوں کو ہر قسم کے باطل عقائد اور توہمات سے نجات دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرمایا کہ:

“وَلَن يُؤَخِّرَ ٱللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَآءَ أَجَلُهَا ۚ وَٱللَّهُ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ”(سورۃ المنافقون: 11)

ترجمہ: “کہہ دو کہ موت کا وقت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔”

اسلام میں کسی بھی مہینے، دن یا وقت کو منحوس سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے، اور صرف وہی ہے جو نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ پر کامل یقین رکھے اور ہر قسم کی بدشگونی اور اوہام سے دور رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں