شہادت حسین رضی اللہ عنہ

شہادت حسین رضی اللہ عنہ

شہادت حسین رضی اللہ عنہ

قرآن اور حدیث سے مسلمان کے لیے جو زندگی کا اصول ثابت ہے کس وقت کیا عمل ہم کو کرنا ہے؟ یہ ہر سمجھدار آدمی معلوم کرنا چاہتا ہے دنیا کی ہر قوم کچھ تقریبات رکھتی ہیں اور ان کے منانے کا خاص طریقہ ہوتا ہے اسی طرح ہمارے لیے کیا کرنا ہے؟ اب آپ اور ہم سوچیں تو کوئی کہے گا روزہ زیادہ رکھو کوئی نماز کوئی صدقات کوئی تلاوت۔ اسی طرح ہر شخص کی اپنی رائے علیحدہ ہو گی۔ یہ آپ سوچ لیجئے کہ آپ کو اپنی رائے سے کرنا ہے یا جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو وہ کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ انسان کی رائے اور قیاس اس کا ادراک کر سکتی ہے اور نہ اس طریقہ سے کسی فلاح کو پہنچ سکتے ہیں اس لیے ہر شخص اپنے مذہب کی اس میں آرلیتا ہے اور لینا چاہیے۔ اس میں کسی کمیٹی بنانے یا ووٹنگ کرنے یا جمہور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیت میں اس کا حل موجود ہے وہی ہم کو ماننا چاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” آپ کے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مؤمن نہ ہوں گے جب تک کہ آپ کو حکم نہ مان لیس گئے اپنے تمام اختلافی اور نزاعی معاملات میں ۔” لہذا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو ہم یقین کے ساتھ یہ سمجھیں اور عمل کریں کہ یہی ماننے کی چیز ہے۔ پھر صرف علم ماننا ہی نہیں بلکہ فرمایا پھر جو آپ نے فیصلہ دے دیاوہ گردن جھکا کر مان لیں پھر اپنے دلوں میں کچھ تنگی بھی محسوس نہ کریں تب وہ مسلمان ہوں گے۔ اب ایک ہمارے موجودہ حالات ہیں کہ دل میں اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مان بھی لے تو دل میں یہی کہتا ہے کہ ہے تو سنت کی بات مگر عمل کرنا بڑا دشوار ہے لیکن اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جب تک دل سے اس کو مان نہ لے رضا مندی کے ساتھ وہ مومن نہ ہوں گے۔
۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس معاملے میں جو پیش آئے صرف یہ دیکھتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ سلم اس معاملہ میں کیا کرتے ہیں؟ ایک صحابی رضی للہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا سب برائے نماز اور دعا کے دوڑے ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور دیکھا کہ نماز کسوف ہو رہی ہے اس میں شامل ہو گئے۔
اگر ہم ہر کام میں یہ دیکھ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں کیا کیا؟ اور کس سے بچنے کو فرمایا ایسا کوئی کام زندگی کے کسی شعبہ کا نہیں جو آپ کے زمانہ میں نہ ہوا ہو جہاد بھی ہوا زخم بھی آئے پیدائش موت، تجارت معیشت، غرض ہر شعبہ کی تعلیم شرع میں موجود ہے۔ مومن کا کام ہے ہر چیز میں پہلے قبلہ درست مورخ کا یقین ہو تب اس کو اختیار کرے اور عمل کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم قرآن کی ترجمانی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی پر عمل کرنا چاہیے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا شہید ہوئے۔ ابو طالب اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں چچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص شفیق تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود یکہ حضرت ابوطالب مسلمان نہ ہوئے لیکن کوئی مسلمان ان کو برا نہیں کہتا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محبت تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت طرح طرح کی تکالیف دی جاتی تھیں اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں تیر کمان لے کر جارہے تھے کسی نے طعنہ دیا کہ تمہارے بھتیجے پرظلم ہورہا ہے تم شکار کو جار ہے ہو؟ بس اسی وقت دل پلٹ گیا اور مسلمان ہو گئے۔ یہ وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد کے لیے مسلمان ہونے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد پسند آیا اور مسلمانوں کو تقویت حاصل ہوئی۔ اس وقت سے یہ مجال کسی کی نہ ہوئی کہ کوئی بری حرکتیں کرتا۔ غرض جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تو سخت صدمہ پہنچا۔ چونکہ ایک تو ایسا نازک وقت پھر ایسی بے رحمی اور ظلم سے شہید ہوئے۔ غرض ایک محبوب عزیز کی شہادت کا واقعہ اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کے موقع پر عمل کیا وہ ہم سب کے لیے نمونہ ہے۔

سید الشہد اء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل

جب غزوہ احد کا مہینہ ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتا تھا’ کیا کوئی شہادت نامه حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پڑھا جاتا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا اہل بیت اس کی یاد گار اس طرح مناتے تھے؟ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ہم سید الشہداء کہتے ہیں۔ ہمارا کہنا آپ کا کہنا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کوسید الشہداء کا خطاب دے دیا۔ اب یہ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا ہے۔ ہاں تعظیماً ہم سید الشہداء حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہہ نہیں تو کوئی گناہ نہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشہداء کا خطاب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یادگار کس طرح منائی ؟ آج تک تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں جس سے اہتمام ہو کسی ماتم کا کسی مجلس کا حالانکہ ان کی محبت اور ایثار نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دلوں میں کیا جگہ پیدا کر رکھی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو چھوڑ کر سارے ہمارے بڑے شہید ہی ہیں۔ اب اگر اس وقت سے آج تک کے ہمارے سارے بزرگوں کے صرف شہیدوں کا ذکر ہی ہو تو ۳۶۵ سے کہیں زیادہ شہید نظر آئیں گے۔ ) فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز میں مصلی پر شہی ہوئے لیکن آپ کے گرنے کے بعد فورا دوسرے صحابی امامت کے فرائض دینے کے لیے آگئے۔ پہلے نماز ہوئی بعد کوخلیفہ کی خبریں آپ بے ہوش تھے ساری تدابیر ہوش میں لانے کی گئی ہوش نہ آیا کسی نے کہا کان میں کہو الصلوۃ الصلوۃ بین کر فورا آنکھیں کھل گئیں اور فرمایا کہ بے شک جس نے نماز چھوڑ دی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ ستر تو شہید ہیں غزوہ احد میں۔ بارہ کے قریب بدر میں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کتنی جنگیں ہوئیں، کتنے شہید ہوئے؟ حضرت عثمان حضرت علی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم کس کس کا تم ماتم کرو گے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ فی گھنٹہ ایک شہید کا بھی پورے سال میں ایک دفعہ ذکر کرو تو شہداء کے نام پورے نہ ہوں گے۔ اسلام کے لیے جن شہداء نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں دیں کیا ان کا ماتم کرنا باعث گناہ ہو گا ؟ یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو فخر عطا ہوا ہے کہ جو شہید ہوا اس نے درجات حاصل کیئے کامیابی ملی۔ خوش ہونے کی چیز ہے جان دی اللہ کی راہ میں اور حیات جاودانی پائی۔ یہ بہادروں کا شیوہ ہے
انہوں نے زندگی کا حق ادا کیا پھر کیسے کیسے قران حفاظ علماء خلفاء ہر درجہ کے لوگوں کو جام شہادت نصیب ہوئی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ صحابہ کرام نے کیا کیا؟

عاشورہ کا روزہ اور اسراف

یوم عاشورہ کا ایک روزہ تو حد بثوں میں آیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تنہا ایک نہ رکھیں چاہے نویں دسویں یا دسویں گیارہویں رکھو۔ یہ تو عمل ہے محرم کی دس تاریخ کا۔ اب آج جو ہنگامہ جو اسراف جو خرافات سامنے ہے اس کو دیکھو تو کہتے ہیں اپنے آپ کو اہلسنت اور خرافات یہ ہیں جن کی دلیل نہ قرآن میں نہ حدیث میں بلکہ سنت کو مٹانے والے بنے ہوئے ہیں، کھیل تماشے، شربت، سبیلیں اور مجلسیں یہ سب خلاف سنت ہیں۔

شہادت حسین کی مثال

اس دریافت میں کہ کس نے مارا؟ کیوں شہید کیا؟ کیا چیز ہے؟ اس کرید میں کچھ بہتری نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپس میں لڑے تلوار بھی چلی لیکن اس کی مثال یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو غصہ آیا ہارون علیہ السلام پر انہوں نے داڑھی پکڑ کر کھینچی قرآن میں یہ واقعہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا میری بات تو سن لیں پھر عذر پیش کیا اب کسی پیغمبر کی ادنی درجہ کی تو ہین کفر ہے موسیٰ علیہ السلام نے داڑھی کھینچی ان کو کیا کہو گے؟ اگر تم ہارون علیہ السلام کی داڑھی کا بے ادبی سے تذکرہ بھی کرو گے تو جہنم میں جاؤ گے۔ شہادت حسین کے تاریخی حالات مخدوش ہیں۔

حضرت علی ‘ حضرت معاویہ میں جنگ ہوئی یہ باپ اور چچا کی لڑائی ہے اولاد کا کام یہ نہیں کہ اس میں اپنا دماغ اُلجھائے۔ ایک سبق یاد رکھو کہ قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شان میں فرمادیا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں جن سے اللہ راضی ہیں تم ان سے ناراض ہونے کا کون سا جواز لاتے ہو؟ تم کو کیا حق ہے ان سے ناراض ہونے کا؟ ان کے معاملے میں سوچ کر اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا اور قلب کو روگ لگاتا ہے۔ یہ شہادت نامے اور تاریخیں سب مخدوش ہیں۔ ان سب میں آمیزش ہے۔ اس سے قلب پریشان ہوگا اور ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے کہ میرے ساتھی میرے صحابی ستاروں کی طرح ہیں۔ فرمایا جو ان سے بغض رکھے وہ مجھ سے بغض رکھے گا جوان سے محبت رکھے گا مجھ سے محبت کرے گا۔ پس اگر ان تاریخی واقعات کو دیکھ کر ہمارے دل میں اگر کوئی ذرا سا تکدر بھی آ گیا تو ہمارا ایمان خطرہ میں پڑ جائے گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بغض رکھنے والا ایسا ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔ اس لیے ان تاریخوں کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے یہ تاریخ مدون ہیں، مورخین سے اس میں سازش بھی ہوسکتی ہے اس میں جذبات کا اظہار بھی ہو سکتا ہے کوئی یہ حدیثیں تو نہیں ہیں جو ان پر بھروسہ کیا جائے۔ شکر کرو کہ احادیث ابھی تک ملوث نہیں۔ ان تمام لکھنے والوں سے ورنہ آج صحیح دین ہمارے پاس تک نہ پہنچتا۔ دوسرے یہ کہ کوئی مجبوری ہم پر نہیں کہ ہم فیصلہ کریں۔ حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم کا یزید اور حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہم سے قیامت کے دن یہ سوال نہ ہوگا کہ تم ان میں سے کس کو حق پر سمجھتے ہو؟ آپ کو اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں، اپنا دین سنبھال کر رکھئے۔ قبر میں یہ سوال آپ سے منکر نکیر نہیں پوچھیں گئے وہاں جو پوچھا جائے گا ان سوالوں کے جواب تم تیار کر لو جن کا دارو مدار تمہاری جنت اور دوزخ کے جانے میں ہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: خدا کا شکر ہے کہ ہماری تلوار میں کسی صحابی کے خون سے نہیں رکھیں۔ اب تم یہ سوال کر کے ہماری زبانیں ان کے خون سے رنگنا چاہتے ہو؟

شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا مختصر واقعہ

اب اجمالی طور پر واقعہ سمجھ میں آجائے ۔ اس لیے عرض ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مکہ میں روکا۔ یعنی سارے صحابہ کرام جو اس وقت موجود تھے سب نے روکا اور آپ نہیں رکے۔ اس سے کچھ کم فہموں نے اپنا غلط خیال قائم کر لیا کہ آپ حکومت حاصل کرنے گئے حالانکہ یہ غلط تھا۔ ایک واقعہ ہے کہ راستہ میں آپ کو جب ایک شخص نے روک کر سمجھایا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک تھیلا اُلٹ کر سارے خطوط جو تقریبا ۹۰۰ تھے دکھائے کہ کوفہ سے لوگوں نے بلانے پر مجبور کیا ہے اور سارے عوام نے اپنی جانبازی کا یقین دلایا ہے چونکہ باطل کے مقابلہ میں صرف آپ ہی آسکتے تھے کہ اہل بیت میں دیگر صحابہ سے وہ کام نہ ہوگا۔ اس سے مقصود بلا شبہ آپ کا اعلاء کلمتہ الحق تھا اور دین کی حفاظت تھی ۔ صحابہ کرام نے اس وجہ سے رو کا تھا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ کو دھو کہ دیں گے اور وہی ہوا۔ لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی شبہ کرنا قطعی حرام ہے۔
اگر آپ نے ان کی بے وفائی دیکھ کر لونا چاہا تو پھر یزید نے واپسی کا موقع نہ ملا۔ بہر حال یہ واقعہ ہوتا تھا اور ہوا۔ لیکن عوام کا یہ کام نہیں کہ اس میں اپنی جان کھپائیں۔

( وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين)

اپنا تبصرہ بھیجیں